سر کیئر سٹامر جمعے کو برطانیہ کے نئے وزیراعظم مقرر کر دیے جائیں گے اور اسی کے ساتھ کنزرویٹو پارٹی کا ایک ایسا دورِ حکومت اختتام پذیر ہوگا جس میں پانچ مختلف رہنماؤں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔

برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے کامیابی حاصل کر کے کنزرویٹو پارٹی کے 14 سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ کر دیا ہے۔
سر کیئر سٹامر جمعے کو برطانیہ کے نئے وزیراعظم مقرر کر دیے جائیں گے اور اسی کے ساتھ کنزرویٹو پارٹی کا ایک ایسا دورِ حکومت اختتام پذیر ہوگا جس میں پانچ مختلف رہنماؤں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔
رشی سونک نے مقامی وقت کے مطابق صبح تقریباً 4:40 پر انتخابات میں شکست قبول کر لی تھی اور کہا تھا کہ انھوں نے الیکشن میں کامیابی پر سر کیئر سٹامر کو فون کر کے مبارکباد دی ہے۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد لیبر پارٹی کے رہنما سر کیئر سٹامر نے اپنی تقریر میں ’قومی تجدید‘ کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ملک کو پہلی ترجیح دیں گے اور پارٹی کو دوسری۔‘
عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی جیت تاریخی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ 2019 کے انتخابات میں جیریمی کوربن کی سربراہی میں پارٹی کو اس صدی کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسری جانب کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیر رابرٹ بکلینڈ نے انتخابات میں اپنی پارٹی کی شکست کو ’سیاسی قیامت‘ قرار دیا۔ اس الیکشن میں وہ اپنی نشست بھی ہار گئے ہیں۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تقریباً دو صدیوں میں یہ کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بدترین انتخابی شکست ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں پارٹی کی سمت کا تعین کرنے کے معاملے پر جماعت کے اندر ایک رسہ کشی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
لیبر پارٹی کی بڑی کامیابی
برطانوی دارالعوام میں نشستوں کی کُل تعداد 650 ہے۔ بی بی سی کی پیشگوئی کے مطابق لیبر پارٹی کی 410 نشتوں، کنزرویٹو پارٹی کی 144 اور لبرل ڈیموکریٹس کی 58 سیٹوں پر کامیابی متوقع ہے۔
لیبر پارٹی کو دارالعوام میں دیگر پارٹیوں پر 170 نشستوں کی برتری حاصل ہے لیکن یہ 1997 جتنی بڑی جیت نہیں، جب ٹونی بلیئر کی سربراہی میں پارٹی کو 197 نشستوں کی برتری حاصل ہوئی تھی۔
سنہ 2019 میں بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے دیگر جماعتوں پر 80 نشستوں کی برتری حاصل کی تھی جسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔
جب ایک پارٹی کو دارالعوام میں اکثریت مل جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے قوانین منظور کروانے کے لیے دیگر پارٹیوں پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔
الیکشن میں کون سے بڑے نام دارالعوام سے باہر ہو گئے؟
رشی سونک برطانیہ میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئےالیکشن میں شکست کھانے والوں میں سب سے نمایاں نام کنزرویٹو پارٹی کی سابق وزیرِ اعظم لز ٹروس کا ہے۔ وہ 49 روز تک برطانیہ کی وزیر اعظم رہیں تھیں جس کے بعد ان کی اپنی پارٹی نے انھیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا تھا۔
لز ٹروس جنوب مغربی نورفوک کے حلقے سے الیکشن ہاری ہیں۔
کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق بزنس سیکریٹری جیکب ریس موگ بھی اپنی نشست ہار گئے ہیں۔
جیکب کو لیبر پارٹی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’اپنی شکست کا ذمہ دار کسی اور کو نہیں بلکہ خود کو سمجھتے ہیں۔‘
سابق سیکریٹری دفاع گرانٹ شیپس بھی جنوبی انگلینڈ میں اپنی نشست ہار گئے ہیں۔ ان کے علاوہ پینی مورڈانٹ جنھوں نے رشی سونک کے وزیرِ اعظم بننے سے قبل ان کے خلاف پارٹی الیکشن لڑا تھا وہ بھی اپنی نشست ہار گئی ہیں۔
چانسلر جیرمی ہنٹ کا شمار کنزرویٹو پارٹی کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ رشی سونک یارکشائر میں 12 ہزار ووٹوں سے اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں تاہم انھوں نے انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست تسلیم کر لی ہے۔
ایک ہی دن میں نئے وزیرِ اعظم کی تقرری
برطانوی سیاست میں پیشرفت ہمیشہ بہت تیزی سے ہوتی ہے اورانتخابات کے نتائج کے اعلان کے کچھ دیر بعد نئے وزیراعظم کی تقرری کر دی جاتی ہے۔
جلد ہی رشی سونک 10 ڈاؤننگ سٹریٹ چھوڑ دیں گے اور ان کی جگہ سر کیئر سٹامر نئے وزیراعظم بن جائیں گے۔
لیکن اس سے قبل رشی سونک اپنا استعفیٰ برطانوی بادشاہ کو پیش کریں گے اور پھر وہ سر کِیئر سٹامر کو نئی حکومت بنانے کی دعوت دیں گے، جو عام طور پر بکنگھم پیلس میں ہوتا ہے۔
کیئر سٹامر بطور بیرسٹر اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز 1990 کی دہائی میں کیا تھاکیئر سٹامر کون ہیں؟
وہ برطانوی سیاست میں نسبتاً نیا چہرہ ہیں۔ انھوں نے بطور بیرسٹر اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز 1990 کی دہائی میں کیا تھا اور سنہ 2008 میں انھیں انگینڈ اور ویلز میں ڈائریکٹر آف پبلک پروسیکیوشنز تعینات کیا گیا تھا۔
وہ پہلی مرتبہ 2015 میں شمالی لندن سے برطانوی دارالعوام کے رکن منتخب ہوئے تھے اور 2019 میں لیبر پارٹی کے سربراہ بنے تھے۔
اس الیکشن میں سر کیئر سٹامر شمالی لندن کے ہی حلقے سے کامیاب ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ لوگ ’تبدیلی کے لیے تیار‘ ہیں اور ان کی حکومت ’پرفارمنس کی سیاست‘ کرے گی۔
آخر کار نائجل فراج درالعوام کے رُکن بن ہی گئے
نائجل فراج آخر کار اپنی آٹھویں کوشش میں پہلی مرتبہ برطانوی دارالعوام کے رُکن بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ وہ ریفارم یو کے پارٹی کے سربراہ ہیں۔
انتخابات سے قبل پیشگوئی کی گئی تھی کہ ان کی جماعت 13 نشستیں جیتی گی تاہم تازہ نتائج کے مطابق ریفارم یو کے صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
رشی سونک نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیوں کیا تھا؟
رائے عامہ کے جائزوں میں رشی سونک کی کنزرویٹو پارٹی کو 2021 سے تنزلی کا سامنا ہے۔
بی بی سی کے مدیر برائے سیاسی امور کرس میسن کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے کچھ سیاست دانوں نے محسوس کیا کہ آنے والے عرصے میں شاید حالات زیادہ بہتر نہیں ہوں گے۔ ’دوسرے لفظوں میں، ابھی کرو ورنہ یہ مزید خراب ہو سکتا ہے۔‘
کرس میسن کے مطابق ’افراط زر کی شرح کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً اس کا تعلق صرف حکومت کے اقدامات سے نہیں لیکن جب یہ مہنگائی بڑھتی ہے تو حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لہذا یہ توقع کرنا مناسب ہے کہ وہ اس کے کم ہونے پر کچھ کریڈٹ لینے کی کوشش کریں اور یہ کم ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’وسیع تر معاشی تصویر بھی قدرے روشن دکھائی دے رہی ہے۔‘

رشی سونک کے روانڈا منصوبے کا کیا ہو گا؟
رشی سونک نے عام انتخابات سے قبل سیاسی پناہ کے کچھ متلاشیوں کو روانڈا روانہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے اس پالیسی پر عملدرآمد کو اپنی وزارت عظمیٰ کی ایک اہم ترجیح قرار دیا تھا اور دلیل دی کہ یہ لوگوں کو چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل عبور کرنے سے روکے گا۔
لیکن قبل از وقت عام انتخابات کے اعلان کے بعد، انھوں نے کہا کہ اگر وہ چار جولائی کو دوبارہ منتخب ہوئے تو اس سکیم پر عمل شروع ہو جائے گا۔
لیبر پارٹی نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار حاصل کر لیتی ہے تو اس منصوبے کو ختم کر دے گی۔
یہ سکیم، جس پر پہلے ہی 240 ملین پاؤنڈ لاگت آچکی ہے، چھ ہفتے کی انتخابی مہم کے دوران دو اہم جماعتوں کے درمیان تقسیم کی ایک اہم لکیر رہی۔

الیکشن سے قبل پارلیمان کا کیا ہوتا ہے؟
وزیراعظم نے قبل از وقت انتخابات کے اعلان کے بعد باقاعدہ طور پر ملک کے بادشاہ شاہ چارلس سے پارلیمان تحلیل کرنے کو کہا اور 30 مئی کو برطانوی ایوانِ زیریں کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔
اس تحلیل کے نتیجے میں ارکانِ اسمبلی ایوان کے رکن نہیں رہتے اور انھیں آنے والے الیکشن کے لیے انتخابی مہم کا حصہ بننے کا موقع ملتا ہے۔
100 سے زیادہ ارکان نے کہا تھا کہ وہ چار جولائی کو ہونے والے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے۔
انتخابی مہم کے دوران حکومت کے تحت وزارتی اور محکمانہ سرگرمیوں کو محدود کر دیا جاتا ہے۔
انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد کیا ہو گا؟
ووٹوں کی گنتی کے بعد، بادشاہ سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی کے قائد سے وزیراعظم بننے اور حکومت بنانے کے لیے کہیں گے۔
دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کا سربراہ اپوزیشن لیڈر بنتا ہے۔
اگر کوئی بھی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر پاتی یعنی وہ صرف اپنے ارکان پارلیمان کی مدد سے قانون سازی نہیں کر سکتی تو نتیجہ معلق پارلیمنٹ ہے۔