امرت پال سنگھ: ’خالصہ راج کا خواب دیکھنا جرم نہیں ہے، اس سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘

انڈیا کی ریسات پنجاب کے کھڈور صاحب پارلیمانی حلقہ سے رکن پارلیمان کے طور پر حلف لینے کے ایک دن بعد علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ نے خالصتان سے اپنی وابستگی کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’خالصہ حکومت کا خواب دیکھنا جرم نہیں ہے۔‘
امرت پال سنگھ
Getty Images

انڈیا کی ریاست پنجاب کے کھڈور صاحب پارلیمانی حلقہ سے رکن پارلیمان کے طور پر حلف لینے کے ایک دن بعد علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ نے خالصتان سے اپنی وابستگی کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’خالصہ حکومت کا خواب دیکھنا جرم نہیں ہے۔‘

امرت پال سنگھ تقریباً ایک سال سے زیادہ عرصے سے آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں قومی سلامتی ایکٹ کے تحت قید ہیں۔ انھوں نے جیل میں رہتے ہوئے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر شرکت کی اور کامیاب رہے۔

انھیں صرف حلف برداری کے لیے جیل سے چار دنوں کی رخصت ملی تھی اور وہ اس کے لیے دہلی آئے تھے۔ اس دوران بھی وہ امرتسر پولیس کی نگرانی میں تھے۔

انھیں اہل خانہ کے علاوہ کسی سے بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی بیان دینے کی ہی اجازت دی گئی تھی۔

لیکن انھوں نے سنیچر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی والدہ کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔

اس سے ایک دن قبل ان کی والدہ نے اپنے بیٹے امرت پال کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا بیٹا ’خالصتان کا حامی نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ چونکہ ان کے بیٹے نے انڈیا کے آئین کا حلف لیا ہے اس لیے وہ خالصتانی نہیں ہے۔

امرت پال کی وضاحت

امرتپال سنگھ کے مصدقہ ایکس ہینڈل پر لکھا گيا ہے کہ یہ ’وارث پنجاب دے کے سربراہ، کھڈور صاحب سے ممبر پارلیمنٹ کا آفیشل ہینڈل‘ ہے۔

انھوں نے اپنی والدہ کے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے پنجابی زبان میں لکھا کہ ’جب مجھے کل اپنی والدہ کے بیان کے بارے میں معلوم ہوا تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ میری والدہ نے یہ بیان غیر ارادی طور پر دیا ہے لیکن پھر بھی ایسا بیان میرے خاندان یا میری حمایت کرنے والے کسی شخص کی طرف سے نہیں آنا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’خالصہ راج کا خواب دیکھنا جرم نہیں ہے۔ بلکہ یہ فخر کی بات ہے۔ جس راستے کے لیے لاکھوں سکھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اس سے دست بردار ہونے کا ہم خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ میں نے اکثر کہا ہے کہ اگر مجھے پنتھ (مذہب) اور اپنے خاندان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو میں ہمیشہ پنتھ کا انتخاب کروں گا۔‘

امرت پال نے اپنے اس عہد کے ساتھ ایک تاریخی واقعے کا ذکر کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’اس سے مجھے وہ تاریخی واقعہ یاد آتا ہے جب بندہ سنگھ بہادر کے ساتھ آنے والے سکھوں کو ہلاک کیا جا رہا تھا۔ ایک 14 سالہ لڑکے کی ماں نے یہ کہہ کر اسے بچانے کی کوشش کی کہ وہ سکھ نہیں ہے تو اس نوجوان لڑکے نے جواب دیا کہ اگر یہ عورت کہتی ہے کہ میں گرو کا سکھ نہیں ہوں تو میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ میری ماں نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’اگرچہ یہ مثال اس معاملے کے لیے انتہائی سخت ہے، لیکن اصولی طور پر یہ نقطہ نظر کو واضح کرتی ہے۔ میں اپنے اہل خانہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سکھ ریاست پر سمجھوتہ کرنے کے بارے میں کبھی نہ سوچیں۔ ایسا کہنا تو دور کی بات ہے اجتماعی نقطہ نظر سے اس قسم کی چیزیں بولنے غلطی نہیں کرنی چاہیے۔‘

امرات پال کی والدہ بلویندر کور
Getty Images
امرات پال کی والدہ بلویندر کور نے بیٹے کی حلف برداری کے بعد میڈیا سے بات کی

امرت پال کی والدہ نے کیا کہا تھا؟

اپنے بیٹے کی حلف برداری کے موقع پر امرت پال سنگھ کی والدہ بلویندر کور نے کہا تھا کہ کھڈور صاحب اور دیگر علاقے کے لوگ خوش ہیں کہ امرت پال سنگھ نے حلف اٹھایا ہے۔

امرت پال سنگھ کے خالصتانی حامی ہونے کے بارے میں میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بلوندر کور نے کہا کہ ’چاہے کوئی کچھ بھی کہے، وہ خالصتان حامی نہیں ہے۔ پنجاب کے حقوق کی بات کرنے سے کوئی خالصتان حامی نہیں بنتا، اس نے آئین کے دائرہ کار میں رہ کر الیکشن لڑا ہے، آئین کا حلف اٹھا لیا ہے، پھر ایسی کوئی بات نہ کی جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر امرت پال سنگھ کو رہا کرے کیونکہ لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر امرت پال سنگھ کو فتح سے ہمکنار کرایا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہ امرت پال سنگھ کو لوگوں سے ملنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

خالصتان کا پرچم
Getty Images
خالصتان کی مانگ ایک زمانے سے اٹھتی رہی ہے

خالصتان تحریک کیا ہے اور اس کا مطالبہ کیوں دہرایا جاتا ہے؟

ایک سال قبل امرت پال سنگھ نے ہی کہا تھا کہ ’میں خود کو انڈین نہیں سمجھتا۔ میرے پاس جو پاسپورٹ ہے وہ مجھے ہندوستانی نہیں بناتا۔ یہ صرف ایک دستاویز ہے جس کے ساتھ مجھے سفر کرنا ہے۔‘

اور اس کے بعد سے وہ کئی مجرمانہ مقدمات میں مطلوب رہے اور بالآخر انھیں حراست میں لیا گیا اور انھیں پنجاب سےسینکڑوں میل دور آسام کی ایک جیل میں قید رکھا گیا ہے اور وہیں سے انھوں نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

جب بھی سکھوں کی خود مختاری یا خالصتان کا مطالبہ اٹھتا ہے، سب کی توجہ انڈین پنجاب کی طرف مبذول ہوتی ہے۔ بہر حال انڈیا میں سکھوں کی بغاوت یا مسلح جدوجہد کا دور 1995 میں ختم ہوا۔

حالیہ دنوں میں اکالی دل کے رکن پارلیمنٹ سمرن جیت سنگھ مان اور دل خالصہ جمہوری اور پرامن طریقے سے اس کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

امریکہ میں کام کرنے والی تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ نے بھی خالصتان کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، ان تمام تنظیموں کو انڈین پنجاب میں صرف ایک محدود حمایت حاصل ہے۔

سینئر صحافی جگتار سنگھ کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ خالصتان کا مطالبہ کافی پرانا ہے اور اس کا ذکر آزادی سے پہلے بھی آیا ہے لیکن یہ مطالبہ باضابطہ طور پر 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کے مشترکہ محاذ کی پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔

اس کا سیاسی مقصد کچھ یوں بیان کیا گیا تھا: ’اس خاص دن پر مقدس اکال تخت صاحب کی طرف سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے خالصہ پنتھ کا 'خالصتان' ایک الگ گھر ہوگا۔ خالصہ کی امید کے مطابق سب خوشحال زندگی گزاریں گے۔

'ایسے سکھوں کو حکومتی نظم و نسق چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی جو سبھوں کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنے خون پسینے کی کمائی پر گزارہ کریں گے۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US