انڈیا کی ریاست منی پور میں گزشتہ سال مئی میں ہونے والے پرتشدد نسلیفسادات کے نتیجے میں 200 سے زیادہ لوگ مارےگئے تھے تاہم ایک سال گزرنے کے بعد بھی وہاںزندگی دوبارہ معمول پر نہیں آ سکی

انڈیا کی ریاست منی پور میں گذشتہ سال مئی میں ہونے والے پرتشدد نسلی فسادات کے نتیجے میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے تاہم ایک سال گزرنے کے بعد بھی وہاں اب تک زندگی دوبارہ معمول پر نہیں آ سکی ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا تھا ’منی پور ایک سال سے امن کا انتظار کر رہا ہے، اس سے پہلے یہ 10 سال تک پرامن تھا۔ وہ آگ جو اچانک لگی یا منصوبہ بندی کے تحت اس تنازعے کو پیدا کیا گیا تاہم منی پور میں اب بھی جل رہا ہے، اس پر کون توجہ دے گا؟
ان کے بیان کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے آرمی چیف اور انٹیلی جنس چیف جیسے سینیئر عہدیداروں کی میٹنگ بلائی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تشدد سے متاثرہ میٹی اور کوکی برادری کے لوگ اب کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ بعض افراد کو وہاں سے جان بچا کر پڑوسی ریاست میزورم میں پناہ لینی پڑی ہے۔
منی پور ریاست کی میٹی کمیونٹی، جو یہاں کی کل آبادی کا تقریباً 50 فیصد ہے، کئی برسوں سے شیڈولڈ ٹرائب کیٹیگری میں شمولیت کا مطالبہ کر رہی تھی۔
منی پور کی میٹی کمیونٹی کو قبائل کا درجہ دینے کا مطالبہ اس تشدد کی اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والی کوکی برادری اس مطالبے کی شدید مخالف ہے۔
ایک سال بعد اب حالات کیسے ہیں؟
52 سالہ ننگنی چونگ اپنے بچوں کے ساتھ منی پور کے گاؤں سوگنولونگچِنگ میں رہتی تھیں۔
ننگنی منی پور کے ان 12 ہزار بے گھر افراد میں شامل ہیں جو پڑوسی ریاست میزورم کے ریلیف کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
وہ دارالحکومت ایزول سے تقریباً 15 کلومیٹر دور مضافاتی علاقے کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتی تھیں تاہم ان کو اب گھر واپس لوٹنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ان کے پاس زندگی گزارنے کو نہ سرمایہ ہے نہ کوئی کام۔
52 سالہ ننگنی چونگ اپنی بیٹی کے ہمراہ ان کی زندگی ریلیف کیمپ میں بسر ہو رہی ہے۔ کوکی زومی برادری کے مزید 20 خاندانوں نے یہاں پناہ لی ہے۔
ننگنی چونگ کے شوہر آٹھ سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ وہ انڈین فوج میں صوبیدار تھے۔
انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا ’ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور انھیں اچھی زندگی دینے کا سوچا تھا لیکن پرتشدد ہنگاموں کے بعد ہمیں گاؤں سے بھاگنا پڑا۔ اب میرے بیٹے کو راشن خریدنے کے لیے یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ ہم سب مر جاتے۔‘
منی پور میں تشدد کی وجہ سے تقریباً 50 ہزار لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
گاؤں میں ہونے والے تشدد کو یاد کرتے ہوئے وہ آج بھی آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔
’ہم سب چرچ میں عبادت کر رہے تھے۔ باہر فائرنگ ہو رہی تھی۔ پھر گاؤں میں ہمارے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ ان لمحات میں ہمیں ایسا لگا تھا کہ یہ ہماری آخری رات ہے۔‘
ننگنی کا کہنا ہے کہ ’میرے شوہر نے فوج میں رہتے ہوئے ملک کی خدمت کی لیکن آج ہمارا خاندان پناہ گزین بن چکا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ایسا لگتا ہے کہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں
کالج کے کلاس روم اب گھر بن چکے ہیں جہاں ایک ہی کمرے میں دوسے چار خاندان اکٹھے رہتے ہیںمنی پور میں تشدد سے ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ کوکی اور میٹی دونوں متاثرہ کمیونیٹیز میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ میٹی برادری کی اکثریت والے شہر امپھال کے مختلف حصوں میں بھی ہر کسی کے اپنے زخم ہیں۔
اکم پٹ کے علاقے میں ہمیں بتایا گیا کہ ایک گرلز کالج میں بنائے گئے ریلیف کیمپ میں تقریباً ایک ہزار بے گھر لوگمقیم ہیں۔
کالج کے کلاس روم اب گھر بن چکے ہیں۔ ایک ہی کمرے میں دو سے چار خاندان اکٹھے رہتے ہیں۔ ان کمروں میں کہیں کھانا پکایا جا رہا ہے تو کہیں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔
جب موری شہر میں تشدد پھیلا تھا تو لامبی چنگتھم، ان کی ماں، دو بیٹیاں، ایک بیٹا اور ان کی عمر رسیدہ دادی کو وہاں سے بھاگ کر اس کیمپ میں پناہ لینا پڑی۔
لامبی نے 12ویں جماعت میں اپنے سکول میں ٹاپ کیا تھا۔ ڈاکٹر بننے کے لیے وہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھیں۔
ڈاکٹر بننے کی خواہش مند لامبی کیمپ میں مقیم بچوں کو پڑھا رہی ہیںلامبی کی والدہ کیمپ میں اشیا بیچ کر خاندان کی کفالت کرتی ہیں تاہم لامبی کی پڑھائی مزید آگے نہیں بڑھ سکی اور اب وہ کیمپ میں بچوں کو پڑھاتی ہیں۔
لامبی چنگتھم کہتی ہیں ’میں ڈپریشن میں ہوں اور یہ سوچ ہر وقت تنگ کرتی ہے کہ میرا خاندان یہاں کیسے رہے گا۔‘
نسلی فسادات اور بکھرے خاندان
ننگنی میزورم کے کیمپ میں مقیم ہیں اور ان کے ایک رشتہ دار بوئنو ہوکیپ، منی پور کے کوکی برادری کے اکثریتی علاقے چوراچند پور میں رہ گئے۔ فسادات پھوٹنے کے چند دن بعد ہی ہزاروں بے گھر کوکی یہاں پہنچے تھے۔
اپنے والدین کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر بوئنو کی پی ایچ ڈی کا موضوع ’منی پور میں نسلی تشدد اور ذہنی تناؤ‘ ہے
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے یہاں چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیے ہیں۔ کوئی سبزی بیچتا ہے، کوئی یومیہ اجرت پر کام کرنے جاتا ہے۔ نوکری ملنا مشکل ہے۔ میرا خاندان دوسرے لوگوں کی زمین پر کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اس سے جو رقم ملتی وہ ہماری آمدنی ہے۔‘
ننگنی کے خاندان سے ان کا کوئی رابطہ نہیں لیکن ان کے والدین کبھی کبھار ان سے فون پر بات کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہی ریاست کی سرحد کے دونوں طرف بٹے ہوئے ان خاندانوں کے لیے وقت تھم گیا ہو۔

امپھال کے ایک کالج میں پولیٹیکل سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر اور منی پور کی خواتین پر تحقیق کرنے والی سریما نگومبم کہتی ہیں کہ اس صورت حال کے اثرات دونوں برادریوں کی خواتین پر نظر آرہے ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ یہ اثرات آسانی سے مندمل ہوں گے۔
شریما کہتی ہیں ’بہت سی خواتین نے کمانا بند کر دیا ہے اور زیادہ تر خواتین خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ہیں۔‘
ان میں سے بہت سی ذہنی بیماری، گھریلو تشدد اور جنسی تشدد کا شکار بھی ہو چکی ہیں۔ ریلیف کیمپوں میں یہ خواتین مکمل طور پر اپنی پرائیویسی کھو چکی ہیں۔ اسے ٹھیک کرنے میں کافی وقت لگے گا اور اسے ایک دن میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
کروڑ پتی سے مزدور بننے والے لالاسنگیت
60 سالہ لالاسنگیت بھی میزورم کے ایک ریلیف کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں وہ یہاں اپنی بیوی، تین بیٹوں، دو بہوؤں اور تین پوتوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب وہ منی پور میں اپنے ذاتی گھر میں رہتے تھے جس کی مالیت کروڑوں میں تھی۔
آج ان کے دونوں بیٹے رابرٹ اور ہنری میزورم میں یومیہ اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’ہم نے اس تشدد میں اپنا سب کچھ کھو دیا۔ میں نے 80 لاکھ روپے خرچ کیے اور اپنے بیٹوں کے لیے ایئرپورٹ کے قریب کپڑے کا ایک شوروم کھولا۔ ہمارے پاس 40 لاکھ روپے کی کاریں تھیں۔ اب ہمارے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔‘
لالا سنگیت کہتے ہیں کہ ’ہم میزورم میں محفوظ ہیں۔ یہاں کی حکومت نے بہت مدد کی ہے۔ ینگ میزو ایسوسی ایشن (وائی ایم اے) نے ہمیں کپڑے اور کھانے کی اشیا دی ہیں۔ مقامی لوگ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘
پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ لڑنے والے رام تھنگ کو افسوس ہے کہ تشدد کے دوران ان کے تمام اعزازی تمغے ضائع ہو گئےمنی پور کے علاقے چورا چند پور میں لالا سنگیت کے بہنوئی رام تھنگ نے 28 سال تک ملک کی فوج میں خدمات انجام دیں۔ اپنے خاندان سے دور رہنے والے رام تھنگ نے ہمیں ماضی کے اچھے دنوں کی تصویریں دکھائیں۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی میں لالا سنگیت سے کہتا ہوں کہ یہاں آؤ۔ جیسا بھی ہے، ہم یہاں اکٹھے رہیں گے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ ابھی وہیں رہے گا۔‘
پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ لڑنے والے رام تھنگ کو افسوس ہے کہ تشدد کے دوران ان کے تمام اعزازی تمغے ضائع ہو گئے۔ بدلے ہوئے حالات میں وہ بھی مزدور کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
خاندانوں میں فاصلے
ریاستی اور مرکزی حکومتیں حالات کو معمول پر لانے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کے دعوے کرتی رہیں لیکن آج بھی منی پور کے حالات معمول پر نہ آ سکے۔ بہت سے بکھرے ہوئے خاندان پڑوسی ریاست میزورم میں ریلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اس وقت منی پور کے تقریباً 12 ہزار پناہ گزینوں کے علاوہ میانمار سے فرار ہو کر آنے والے تقریباً 35 ہزار افراد نے بھی میزورم میں پناہ لے رکھی ہے۔
میزو کمیونٹی سے ان پناہ گزینوں کے نسلی تعلق کی وجہ سے مقامی لوگ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ مدد کرنے والوں میں میزورم کی سب سے بااثر مسیحی تنظیم ینگ میزو ایسوسی ایشن بھی شامل ہے۔
تنظیم کی ایک سینیئر لیڈی ڈاکٹر ساوما وائی کہتی ہیں،
’ہم جانتے ہیں کہ ریلیف کیمپ میں کچھ لوگ مزدوروں کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ایک خاندان کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں۔ ہم نے لوگوں سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کام کر سکتے ہیں۔ لیکن میزورم ایک چھوٹی ریاست ہے اور اس کے وسائل محدود ہیں۔

میزورم ریاستی بی جے پی کے صدر ون لال ہموکا نے کہا، ’ریاست میں نئی حکومت کو بنے چھ مہینے ہو چکے ہیں لیکن اب تک وہ مرکزی حکومت کو منی پور سے آنے والے متاثرین کے بارے میں صحیح معلومات نہیں دے پائی۔
اس وقت ضرورت ہے کہ درست طریقے سے ان کی شناخت کی جائے اور ان کے نام اور دیگر تفصیلات کی مکمل فہرست بھیجی جائے۔
اس سیاسی بحث کا شاید ہی 33 سالہ جوزف لولون کی زندگی پر کوئی اثر پڑے۔
ایزول میں بارش کی وجہ سے وہ پچھلے دو دنوں سے کام پر نہیں جا سکے۔ وہ اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ گذشتہ سال چورا چند پور کے ایک گاؤں سے فرار ہو کر میزورم آ ئے تھے اور اب وہ تقریباً ایک سال سے ریلیف کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
جوزف کہتے ہیں’مجھے کام کی تلاش میں روزانہ کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔‘
کیمپ کی عمارتبی بی سی کی ٹیم نے ایزول کے کئی امدادی کیمپوں کا دورہ کیا جہاں زیادہ تر پناہ گزینوں نے الزام لگایا کہ انھیں حکومت سے راشن نہیں مل رہا۔
مثال کے طور پر، تشدد سے متاثرہ کوکی اور زومی کمیونٹی کے کل 62 خاندان رے کمپلیکس کے ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہیں اور ان میں بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں۔
یہاں مقیم جان لال زو نے بتایا کہ انھیں اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے۔
راشن نہ ملنے کی شکایت پر میزورم کے وزیر اعلیٰ کے مالیاتی اور منصوبہ بندی کے مشیر اور مقامی ایم ایل اے لالوینچونگا نے کہا کہ ان کی حکومت ابھی نئی ہے اور ریاست کے پاس محدود وسائل ہیں۔
اگر حکومت ہماری بات مان لیتی ہے تو مالی طور پر جدوجہد کرنے والے لوگوں کو مزید مدد مل سکتی ہے۔
ریلیف کیمپوں میں بکھرے خاندانوں کی کہانیاں

امپھال میں کئی مقامات پر ہم نے بے گھر لوگوں کو ڈٹرجنٹ پاؤڈر اور اگربتی کے پیکٹس فروخت کرتے دیکھا۔
وہ امدادی کیمپوں میں سامان بناتے ہیں اور کیمپوں سے باہر جا کر یہ سامان بیچتے ہیں۔ اس طرح ان کی گزر بسر ہو رہی ہے۔
انھی لوگوں میں سے ایک تھوناجم رمیش بابو بھی ہیں جو کوکی کمیونٹی کےاکثریتی چوراچند پور سے بے گھر ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں گاؤں کی کچھ خواتین کے ساتھ صابن، اگربتی اور موم بتیاں بیچتے ہوئے پایا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہماری مائیں، بہنیں، رشتہ دار یہ چیزیں کیمپ میں دن رات بناتے ہیں۔ پھر ہم میں سے کچھ لوگ شہر جا کر بیچتے ہیں، ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں۔‘
میزورم میں رہنے والی ننگنی ہوں یا چوراچند پور کے بوئنو، یا تعلیم کے حصول میں کوشاں لامبی، منی پور میں پرتشدد فسادات اور بے گھر ہونے کا دونوں برادریوں کی خواتین پر شدید ذہنی اور معاشی اثر پڑ رہا ہے۔
حالات بہتر نہیں ہو رہے
منی پور کے بی جے پی کے ترجمان میان گلابم سریش نے کہا کہ حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ کیمپوں میں کھانا یا تھوڑا سا پیسہ دینے سے کوئی بھی خوش نہیں ہوگا۔
’ہم ضلعی انتظامیہ کے ذریعے ہر بے گھر ہونے والے کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان حالات میں کوئی اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپ میں رہنا نہیں چاہے گا۔‘
حکومتی کوششوں، دعوؤں اور بہتر مستقبل کی امیدوں کے درمیان اس وقت منی پور کی یہی حقیقت ہے کہ ایک سال پہلے ہونے والے پر تشدد نسلی فسادات سے منی پور کے یہ دیہات تباہ مکانات منہدم اور خاندان بکھر کر رہ گئے۔