امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سنیچر کو قاتلانہ حملہ کرنے والے تھامس کروکس کو ان کے ساتھی ایک خاموش تبع، تنہائی پسند اور ایسے لڑکے کے طور پر یاد کرتے ہیں جنھیں سکول میں متعدد مرتبہ تنگ کیا جاتا تھا۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سنیچر کو قاتلانہ حملہ کرنے والے تھامس کروکس کو ان کے ساتھی ایک خاموش، تنہائی پسند اور ایسے لڑکے کے طور پر یاد کرتے ہیں جنھیں سکول میں متعدد مرتبہ تنگ کیا جاتا تھا۔
ان کے بارے میں تاحال کوئی واضح تفصیلات نہیں مل سکی ہیں لیکن ان کے ساتھ گریجویٹ کرنے والے اور کالج کی رائفل ٹیم کا حصہ ایک نوجوان نے بتایا کہ کیسے وہ کالج کی رائفل ٹیم اور جونیئر رائفل میں شمولیت اختیار نہیں کر پائے تھے۔
ایک مقامی خبررساں ادارے کے ڈی کے اے سے بات کرتے ہوئے کچھ مقامی نوجوان جو کروکس کے ساتھ سکول جا چکے ہیں انھیں ایک تنہائی پسند لڑکے کے طور پر یاد کرتے ہیں جنھیں سکول میں اکثر تنگ کیا جاتا تھا اور وہ سکول میں بعض اوقات ’شکاریوں والا لباس پہن کر آتے تھے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ روز ایف بی آئی کی جانب سے ایک نوجوان مقامی لڑکے تھامس میتھیو کروکس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک انتخابی مہم کی ریلی میں خطاب کے دوران گولی چلائی تھی۔
تفتیش کرنے والوں کا ماننا ہے کہ وہ اس دوران ایک سیمی آٹومیٹک اے آر 15 رائفل سے لیس تھے اور ان کی فائرنگ سے ڈونلڈ ٹرمپ زخمی ہوئے تھے جبکہ ریلی میں موجود ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔
ان کی ایک سابق کلاس فیلو سمر بارکلے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کے ہمیشہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر آتے تھے‘ اور وہ ’تاریخ میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’حکومت اور تاریخ سے متعلق وہ بہت کچھ جانتے تھے، لیکن یہ بالکل بھی غیر معمولی بات نہیں تھی۔۔۔ وہ ہمیشہ بہت اچھے انداز میں پیش آتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اساتذہ بھی انھیں پسند کرتے تھے۔ دیگر ساتھیوں نے بتایا کہ وہ خاموش طبع تھے۔
ان کے ایک سابق کلاس فیلو جنھوں نے بی بی سی سے بات کی اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کہتے ہیں کہ ’وہ ہمارے ساتھ موجود تھے لیکن میں کسی بھی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو انھیں اچھے انداز میں جانتے ہوں۔ وہ ایسے لڑکے نہیں ہیں جن کے بارے میں مجھے کوئی مخصوص سوچ آئے۔ لیکن وہ بظاہر مناسب انسان معلوم ہوتے تھے۔‘
بیتھل پارک ہائی سکول کی رائفل ٹیم کے سابق رکن جیمیسن مائرز جو کروکس کے ساتھ 2022 میں گریجویٹ ہوئے نے سی بی ایس کو بتایا کہ وہ اس ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے تھے۔
مائرز کہتے ہیں کہ ’اسے جونیئر ٹیم میں بھی جگہ نہیں ملی تھی، لیکن اس کے بعد اس نے دوبارہ کبھی کوشش نہیں کی۔‘
مائرز کو کروکس ایک ’مناسب لڑکے‘ کے ’طور پر یاد ہیں جو ’زیادہ مقبول نہیں تھے لیکن انھیں کبھی کسی ٹیم میں شمولیت کا موقع نہیں ملا تھا۔
’وہ ایک اچھے بچے تھے جو کبھی کسی کے بارے میں کچھ برا نہیں کہتے تھے اور میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ یہ سب کریں گے جو انھیں گذشتہ چند روز میں کیا۔‘
کمیونٹی کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات سے دھچکا لگا ہے کہ مبینہ حملہ اور بیتھل پارک کی خاموش اور متعدد درختوں والی سڑکوں سے آ سکتا ہے۔
ہم ٹرمپ پر حملہ کرنے والے شخص کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
- ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور 20 سالہ نوجوان تھا جس کی شناخت تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی گئی ہے۔
- سیکریٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیلمی کے مطابق ان کے ایجنٹس نے گولی چلانے والے مشتبہ شخص کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔
- کروکس کا تعلق پنسلوانیا کے بیتھل پارک سے تھا، ریلی کے مقام سے یہ جگہ تقریباً ایک گھنٹہ دور ہے۔
- ریاستی ووٹر ریکارڈ کے مطابق وہ ایک رجسٹرڈ ریپبلکن تھے۔
- تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 17 سال کی عمر میں انھوں نے ایکٹ بلیو کو 15 ڈالر کا عطیہ دیا جو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اور جمہوری سیاست دانوں کے لیے رقم اکٹھا کرنے والی ایک سیاسی ایکشن کمیٹی ہے۔
- پٹزبرگ ٹریبیون ریویو کے مطابق کروکس نے 2022 میں بیتھل پبلک پارک ہائی سکول سے گریجویشن کی۔ اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ انھیں نیشنل میتھ اینڈ سائنس انیشیٹو سے500 ڈالر کا سٹار ایوارڈ بھی ملا۔
- ان کے 53 سالہ والد میتھیو کروکس نے سی این ین کو بتایا کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہوا کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کچھ بھی کہنے سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کریں گے۔
- سنیچر کے روز قانون نافذ کرنے والے حکام ننے کہا تھا کہ حملہ آور کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں تھا اور تفتیش کاروں کو دوسرے طریقوں (ڈی این اے) سے انھیں شناخت کرنا پڑا تھا۔
حملہ آور ڈونلڈ ٹرمپ سے کتنا دور تھا؟

ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ پر گولی چلنے سے پہلے انھوں نے ایک شخص (جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کروکس تھے) کو ایک عمارت کی چھت پر رائفل کے ساتھ دیکھا تھا۔
بی بی سی ویریفائی نے اس فوٹیج کا تجزیہ کیا ہے اور تصدیق کی ہے کہ مسلح شخص نے سابق صدر پر 200 میٹر سے بھی کم فاصلے سے ایک گودام نما فلیٹ کی عمارت کے اوپر سے فائرنگ کی۔
ٹی ایم زیڈ سے حاصل کردہ ویڈیو فوٹیج میں شوٹنگ شروع ہونے کا لمحہ دیکھا جا سکتا ہے۔
بی بی سی کے امیرکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے ’اے آر سٹائل رائفل‘ سے فائرنگ کی۔
تاہم ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ حملہ آور نے کس قسم کا اسلحہ استعمال کیا یا کتنی گولیاں چلائیں۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ سیکرٹ سروس کے ایک سنائپر نے جوابی فائرنگ سے حملہ آور کو ہلاک کر دیا۔
بعد کی فوٹیج میں مسلح اہلکاروں کو عمارت کی چھت پر ایک لاش کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’ٹھیک‘ ہیںجو بائیڈن اور غیر ملکی رہنماؤں کی جانب سے حملے کی مذمت
امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکہ میں اس قسم کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے اور ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔‘
وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک افسر کے مطابق ریلی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو ہوئی ہے۔
رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سیاستدانوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔
برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹامر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں سیاسی تشدد کی کسی بھی شکل میں کوئی گنجائش نہیں اور میری دعائیں اس حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں۔‘
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سیاسی عمل میں ہر قسم کا تشدد قابلِ مذمت ہے۔‘
فائرنگ کے واقعے کے بعد صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو ہوئی ہےامریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر بٹلر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں فائرنگ اس وقت ہوئی جب انھوں نے تقریر شروع ہی کی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حریف امیداوار امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے حوالے سے بات ہی کر رہے تھے کہ وہاں متعدد گولیاں چلنے کی آواز آئی۔
فائرنگ کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے ان کے حامی بھی زمین پر فوراً بیٹھ گئے۔ ریلی میں موجود افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ گولیاں سٹیج کے دائیں جانب واقع ایک منزلہ عمارت سے چلائی گئیں۔
گریگ نامی ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سٹیج پر آنے سے پانچ منٹ پہلے انھوں نے ایک مشتبہ شخص کو عمارت کی چھت پر ’رینگتے ہوئے‘ دیکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پولیس کو اس شخص کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔
گریگ نے مزید کہا: ’اس کے پاس رائفل تھی، ہم نے اسے واضح طور پر رائفل کے ساتھ دیکھا۔ ہم نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا،پولیس یہاں وہاں بھاگ رہی تھی۔‘
’ہم نے کہا وہاں ایک آدمی کے پاس رائفل ہے لیکن پولیس کو آئیڈیا ہی نہیں تھا کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔‘
جیسن نامی ایک اور عینی شاہد کے مطابق انھوں نے وہاں پانچ گولیوں کی آواز سُنی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حفاظت کے لیے سیکریٹ سروس کے ایجنٹس کو ان پر چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا، وہاں موجود لوگ بھی فوراً نیچے بیٹھ گئے۔‘
’ڈونلڈ ٹرمپ اس کے فوری بعد کھڑے ہوگئے، اپنا مکّا لہرایا اور کچھ باتیں کیں۔‘
جیسن نامی ایک عینی شاہد کے مطابق انھوں نے وہاں پانچ گولیوں کی آواز سُنیٹِم نامی عینی شاہد کہتے ہیں کہ انھوں نے گولیوں کی ’بوچھاڑ‘ سُنی۔
’ہم نے صدر ٹرمپ کو زمین پر بیٹھتے ہوئے دیکھا اور پھر ہر کوئی زمین کی طرف جھک گیا کیونکہ وہاں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔‘
وارن اور ڈیبی بھی ان افراد میں شامل تھے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں موجود تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سیکریٹ سروس کے ایجنٹس نے فوری طور پر وہاں موجود لوگوں کو نیچے جھکنے کا کہا۔
وارن کہتے ہیں کہ ’ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے۔‘
سیکرٹ سروس کے ایجنٹس انھیں فوراً ہی سٹیج سے اپنے ساتھ ایک گاڑی کی طرف لے گئےڈونلڈ ٹرمپ پیر کو ملواکی میں صدارتی انتخابات کے لیے رپبلکن پارٹی کا ٹکٹ قبول کرنے جا رہے تھے۔ یہ بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ آج بٹلر میں منعقد ریلی میں اپنے نائب صدر کے امیدوار کے نام کا اعلان کرنے والے تھے۔
خیال رہے رواں برس نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن میں امریکی صدر جو بائیڈن کا سامنا کریں گے۔
کچھ رپبلکن رہنماؤں نے ریلی پر ہونے والی فائرنگ کے فوراً بعد اس حملے کا ذمہ دار صدر جو بائیڈن کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی سے متعلق خدشات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے کی تحقیقات ایک قاتلانہ حملے کی کوشش کے طور کی جا رہی ہیںٹرمپ پر حملے کے صدراتی مہم پر کیا اثرات پڑیں گے؟
سارہ سمتھ، ایڈیٹر برائے شمالی امریکہ
تجزیہ
حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مکّا لہرانے اور چہرے پر بہتے خون کی غیر معمولی تصاویر شاید امریکہ میں صدارتی الیکشن کی مہم پر اثر انداز ہوں۔
ایسی ہی ایک تصویر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر شیئر کی اور اپنے والد کے بارے میں لکھا: ’امریکہ کو جس فائٹر کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں۔‘
دوسری جانب صدر بائیڈن کی انتخابی انتظامیہ نے تمام بیانات روک دیے ہیں اور وہ جلد از جلد ٹی وی پر نشر کیے جانے والے اشتہارات کو روکنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنا غیرمناسب ہوگا اور انھیں اپنی توجہ واقعے کی مذمت کرنے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔
وہ تمام سیاستدان جو ڈونلڈ ٹرمپ سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سابق امریکی صدور براک اوبامہ، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور جمی کارٹر کی جانب سے بھی اس واقعے کی فوری مذمت کی گئی ہے۔
اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی اور حامی اس پُرتشدد واقعے کا ذمہ دار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹھہرا رہے ہیں۔
رپبلکن سینیٹر جے ڈی وانس نے کہا کہ اس واقعے کا سبب جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی بیان بازی ہے۔
دیگر رپبلکن رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسے ہی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان کے مخالف سیاستدان ایسے خطرناک وقت پر ایسے بیانات کی مذمت کریں گے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک پریشان کن واقعے کے بعد دونوں جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں اور اس کے سبب امریکہ میں جاری صدارتی مہم کی شکل تبدیل ہو جائے گی۔