اینٹی کرپشن آرگنائزیشن ٹی آئی بی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخارالزمان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے کھلے عام اس معاملے پر بات کرکے جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور اب متعلقہ افراد کو دیکھنا ہو گا کہ اس شخص کے پاس موجود رقم یا جمع شدہ دولت ان کی جائز آمدنی سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے سابق اردلی کے اکاؤنٹ سے 400 کروڑ روپے نکلے ہیں۔
اس انکشاف کے بعد بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سابق پرسنل اسسٹنٹ جہانگیر عالم، ان کی اہلیہ اور وزیراعظم سے متعلقہ کئی اداروں کے بینک اکاؤنٹس کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
اتوار کی سہ پہر ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’وہ میرے گھر میں کام کرتا تھا، وہ چپڑاسی تھا اور اب وہ 400 کروڑ روپے کا مالک بن بیٹھا ہے۔‘
اس پریس کانفرنس کے بعد بنگلہ دیش بینک کے فنانشل انٹیلی جنس یونٹ نے منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ کے تحت جہانگیر عالم اور ان کی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔
تاہم جہانگیر عالم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ انھیں نہیں لگتا کہ وزیر اعظم ان کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کرپشن نہیں کی ’میرے تو پورے خاندان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہو گا۔ اور میرے پاس جو کچھ ہے میں نے ٹیکس فائل میں اس کا ذکر کیا ہے۔‘
تاہم اینٹی کرپشن کمیشن کے وکیل خورشید عالم خان کا کہنا ہے کہ ایک چپڑاسی یا پرسنل اسسٹنٹ کے پاس 400 کروڑ روپے نکلنا غیر معمولی ہے لہذا کمیشن اس کی چھان بین کر سکتا ہے۔
اینٹی کرپشن آرگنائزیشن ٹی آئی بی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخارالزمان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے کھلے عام اس معاملے پر بات کرکے جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور اب متعلقہ افراد کو دیکھنا ہو گا کہ اس شخص کے پاس موجود رقم یا جمع شدہ دولت ان کی جائز آمدنی سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔
جہانگیر عالم کون ہیں؟

چھدسمبر 2023 کو سرکاری خبر رساں ایجنسی باس نے رپورٹ کیا کہ ’وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے سب کو جہانگیر عالم کے متعلق خبردار کر دیا گیا ہے۔ وہ کافی عرصے سے خود کو وزیراعظم کا پرسنل اسسٹنٹ بتا کر غیر اخلاقی حرکتیں کر رہے تھے۔‘
وزیر اعظم کے پریس ونگ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے باس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’جہانگیر عالم کا وزیر اعظم یا وزیر اعظم کے دفتر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
باس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم آفس نے تمام لوگوں سے درخواست کی ہے کہ جہانگیر عالم کے حوالے سے ضرورت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد لیں۔
جہانگیر عالم کے والد کا نام رحمت اللہ تھا جو وفات پا چکے ہیں۔ ان کا تعلق نواکھلی ضلع میں خیلپارہ یونین کے نہرخیل گاؤں سے ہے۔ جہانگیر عالم اب چٹ خیل ضلع میں عوامی لیگ کے نائب صدر ہیں اور گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں انھوں نے عوامی لیگ سے ٹکٹ مانگی تھی۔
انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’میں نے نواکھلی-1 سیٹ کے لیے ٹکٹ مانگی تھی۔‘ بعد میں وہ پارٹی سے الگ ہو گئے۔
جہانگیر بتاتے ہیں کہ وہ عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے پارٹی صدر کے ذاتی معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ دسمبر 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد وہ وزیراعظم کے ذاتی معاون کے طور پر کام کرنے لگے۔
اس دوران ان کے مقامی سیاست میں شامل ہونے کی خبریں آنے لگیں اور ایسی خبریں بھی وزیراعظم کے دفتر تک پہنچیں کہ جہانگیر کے پاس اچانک بہت سی دولت آ گئی ہے اور وہ ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں۔ پھر گذشتہ سال کے آخر میں وزیراعظم نے انھیں نکالنے کا اعلان کیا۔
جہانگیر نے کرپشن کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگا کہ 400 کروڑ روپے کا معاملہ کسی اور کا ہے اور ان سے متعلقہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کرپشن نہیں کی۔ مجھے نکالے جانے کے بعد میں نے باضابطہ طور پر اپنے پاس موجود شناختی کارڈ سمیت سب کچھ جمع کرا دیا تھا۔‘
جہانگیر کہتے ہیں کہ ’میرے 14 گروپوں کے پیسے اور اثاثوں کو ملا کر بھی چار سو کروڑ ٹکا نہیں بنیں گے۔‘
کیا کارروائی کی جا سکتی ہے؟
اینٹی کرپشن کمیشن (اے سی سی) کے وکیل خورشید عالم خان کا کہنا ہے کہ اے سی سی اسی صورت میں کارروائی کر سکتی ہے جب وزیراعظم خود ایسے معاملے کا انکشاف کریں جس کے بعد کسی کو اے سی سی میں رپورٹ درج کروانا ہو گی یا اے سی سی خود سے بھی تفتیش کا آغاز کر سکتی ہے۔
انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’اے سی سی کا ایسے معاملوں میں کارروائی کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے۔ میرے خیال میں انھیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔‘
ان کے مطابق ایک چپڑاسی کی کمائی 400 کروڑ روپے ہونا ایک غیر معمولی بات ہے۔ لیکن پھر بھی پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ ان کی جائز آمدن سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ پھر اے سی سی قانون کے مطابق کارروائی کر سکتی ہے۔
اینٹی کرپشن آرگنائزیشن ٹی آئی بی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار الزمان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم خود حیران اور پریشان ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وزیراعظم نے اس معاملے پر بات کرکے جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’بدعنوانی کو بالکل برداشت نہ کرنے کی پالیسی کو یقینی بنانا ہو گا اور کسی کو بدعنوانی کے لیے جوابدہ ٹھہرانا اس پالسیی کی تصدیق ہے۔‘
افتخار الزمان کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ حکومت اس شخص کے احتساب کو یقینی بنائے گی یا نہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ایکشن لینے سے ہی وزیراعظم کے بیان کی حقیقت کا پتہ چل سکے گا۔
انھوں نے کہا کہ حکمران جماعت کا منشور بھی بدعنوانی ختم کرنے کی بات کرتا ہے اور اب ان کے پاس موقع ہے کہ اسے ثابت کریں۔
وزیراعظم نے کیا کہا ہے؟
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں بدعنوانی کے خلاف اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے پرسنل اسسٹنٹ کا ذکر کیا۔
انھوں نے کہا ’وہ میرے گھر میں کام کرتا تھا۔ میرا چپڑاسی تھا اور اب وہ 400 کروڑ روپے کا مالک ہے۔ وہ ہیلی کاپٹر کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے اتنے پیسے کیسے بنائے؟‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتی کہ جہانگیر عالم کی کرپشن کا انکشاف ہونے سے ان کی حکومت کی ساکھ خراب ہو گی۔
انھوں نے کہا ’میری ذمہ داری ہے کہ میں بد عنوانی کی روک تھام کر کے ملک کی حالت سدھاروں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کرپشن اتنی زیادہ تھی کہ کوئی کام نہ ہو سکتا تھا مگر اب صورتحال بدل گئی ہے اور آگے بھی کرپشن بالکل برداشت نہیں کی جائے گی۔‘
اتفاق سے حالیہ دنوں میں سابق پولیس چیف بے نظیر احمد اور این بی آر افسر مطیع الرحمان سمیت متعدد افراد کی اکھٹی کی گئی دولت اور اثاثے میڈیا پر آچکے ہیں۔ عدالت کے حکم پر کچھ لوگوں کے اثاثے ضبط بھی کیے گئے ہیں۔