عمان میں امام بارگاہ پر حملہ: ’گولیاں اس طرح برس رہی تھیں جیسے بارش ہو، بس قسمت تھی کہ مجھے گولی نہیں لگی‘

عمان کے دارالحکومت مسقط میں امام بارگاہ پر ہونے والے حملے میں چار پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں، بی بی سی نے اس وقت وہاں موجود پاکستانی رضاکاروں اور عینی شاہدین سے حملے کے متعلق مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔
عمان
Getty Images
جس امام بارگارہ پر ہوا، وہ مسقط کی وادی الکبیر میں واقع ہے اور اس کے اردگرد لوگوں کی رہائش گاہیں اور گھر بھی موجود ہیں (فائل فوٹو)

’حملے کے دوران ہال کے باہر گلی میں دو بچوں کو دیوار اور گاڑی کے پیچھے چھپا دیکھا تو ان کو محفوظ مقام پر پہنچانے کے لیے دوڑا لیکن بچوں نے میرے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ جب میں تھوڑا آگے ہوا تو نظر آیا کہ ایک کم عمر لڑکے نے ایک زخمی شخص کا سر اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔‘

یہ کہنا ہے کہ عمان کے دارالحکومت مسقط میں گذشتہ روز حملے کا نشانہ بننے والی امام بارگاہ علی بن ابو طالب میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے پاکستانی سید شاندار علی شاہ بخاری کا، جن کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے ہے اور وہ کئی سال سے عمان میں مقیم ہیں۔

سید شاندار علی شاہ بخاری کہتے ہیں کہ ’میں نے جب صورتحال دیکھی تو ایک لمحے میں اندازہ ہو گیا کہ اس شخص نے ان بچوں کو بچانے کے لیے دیوار اور گاڑی کی اوٹ میں کر دیا اور اپنے جسم پر کئی گولیاں کھا لی تھیں۔‘

عمان کے حکام کا کہنا ہے کہ دارالحکومت مسقط کے قریب ایک امام بارگاہ پر حملے اور سکیورٹی آپریشن میں کل نو افراد کی ہلاکت ہوئی، جس میں ایک پولیس اہلکار اور تین حملہ آور شامل ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں عمانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امام بارگاہ پر ’دہشت گرد حملے میں گولیاں لگنے سے‘ چار پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ 30 پاکستانی ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ تین خودکش بمباروں نے عمان کے دارالحکومت مسقط کے علاقے وادی الکبیر میں اس وقت حملہ کیا جب لوگ عاشورہ کی مجلس کے لیے جمع تھے۔‘

بی بی سی نے مسقط کی وادی الکبیر میں واقع امام بارگاہ پر حملے کے وقت وہاں رضا کارانہ خدمات انجام دینے والے رضا کار سید شاندار علی شاہ بخاری سمیت دیگر چند عینی شاہدین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حملے کے وقت وہاں کیا صورتحال تھی۔

’مجھے چھوڑو، ان بچوں کو بچا لو‘

سید شاندار علی شاہ بخاری کہتے ہیں کہ حملہ ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ ’شدید زخمی شخص نے آنکھیں کھولیں اور کراہتے ہوئے کہا کہ میں نہیں بچ سکتا۔ خدرا ان بچوں کو بچا لو۔‘

’میں نے اس زخمی شخص کو حوصلہ دیا اور بچوں کو زبردستی اٹھایا اور خواتین کے ہال کی طرف چلا گیا جہاں پر گیٹ نہیں کھول رہے تھے۔ میں نے آواز دے کر بتایا کہ دو بچے ہیں ان کو سنبھال لیں۔ پھر اندر سے گیٹ کھولا گیا اور دو رضا کار میرے ساتھ آئے۔‘

سید شاندار علی شاہ بخاری کا کہنا تھا کہ ’زخمی نے ہمیں بتایا کہ وہ چل نہیں سکتا۔ ہم نے اس کو اٹھایا اور کچھ دیر ہی چلیں ہوں گے کہ دھڑا دھڑا فائرنگ شروع ہوئی اور جس شخص کو ہم نے اٹھایا ہوا تھا اس کے سر میں گولی آ کر لگی۔ اس فائرنگ سے ہم بھی زمین پر گر پڑے۔‘

سید شاندار علی شاہ بخاری نے بتایا کہ بچوں کو بچاتے ہوئے ہلاک ہونے والے شخص سیلمان نواز تھے۔

واضح رہے کہ عمان میں پاکستان کے سفارت خانے نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے جن پاکستانیوں کی شناخت ظاہر کی ہے، اس میں سلیمان نواز کا نام بھی شامل ہے۔

سید شاندار علی شاہ بخاری کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد جب وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے تو اس دوران سیلمان کے بھائی انھیں تلاش کرتے ہوئے وارڈ میں آئے۔

’وہسلیمان کی تصویر دکھا کر ان کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں نے سلیمان کی تصویر کو دیکھا تو پہچان لیا۔‘

سید شاندار علی شاہ بخاری کے ساتھی سید مناظر جعفری کا کہنا تھا کہ ’سلیمان شاید کم ہی امام بارگاہ آتے تھے۔ ہم لوگ گاڑیاں پارک کروانے کے بعد مردوں کو خواتین کے ہال کی طرف نہیں جانے دیتے مگر یہ خواتین کے ہال کے قریب پہنچ گئے تھے۔ جس پر میں نے ان سے گزارش کی کہ اس جگہ مردوں کو اجازت نہیں تو وہ میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے واپس آگئے تھے۔‘

اس حملے میں ہلاک ہونے والے سلیمان نواز کے بڑے بھائی محمد شہباز جو خود بھی اس وقت عمان میں موجود ہیں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سلیمان غیر شادی شدہ تھے اور اس دن امام بارگاہ وہ اپنے دو بھتیجوں اور بھابی کے ساتھ گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس دن ان کے ساتھ موجود خاتون میری اہلیہ ہیں جبکہ وہ دو بچے ان کے بھتیجے تھے، جس میں ایک میرا بیٹا اور ایک میرے کزن کا بیٹا ہے۔‘

محمد شہباز کہتے ہیں کہ بچے سلیمان کے بہت قریب تھے تو اس دن ہم نے بچے اس کے حوالے کیے اور کہا کہ بچوں کو سنبھالو۔

’جب یہ واقعہ ہوا تو یہ بچے ہم سے بچھڑ گئے اور رات گئے تک ان کا کچھ پتا نہیں تھا۔ رات کے 12 بجے خواتین کے ہال سے پتا چلا کہ بچے تو مل گے ہیں۔ جن میں میرا بیٹا زخمی بھی تھا مگر سلیمان کا کوئی پتا نہیں تھا۔‘

محمد شہباز کہتے ہیں کہ ’ہمیں بعد میں بچوں نے بتایا کہ کس طرح سید شاندار علی شاہنے ان بچوں کو گولیوں سے بچایا اور ان کو ہال میں چھوڑا۔ ہال میں کچھ اور خواتین نے ان بچوں کو سنبھالا اور پھر بعد میں میری اہلیہ بھی مل گئیں۔‘

’قیصر میرے سامنے گرا‘

سید شاندار علی شاہ بخاری اس حملے کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے مزید بتاتے ہیں کہ وہ دوبارہ کسی نہ کسی طرح خواتین کے ہال کے اندر گئے تو اس وقت ان کے سامنے ان کے بہت اچھے دوست قیصر عباس جو صوبہ پنجاب ہی کے رہنے والے تھے، خواتین کے ہال سے نکلتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنے اور پھر نہ اٹھ سکے۔

سید شاندار علی شاہ بخاری کے مطابق قیصر عباس غالباً کسی کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

عمان میں پاکستان کے سفارت خانے نے جن پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے ان میں سید قصیر عباس بھی شامل ہیں۔

سید شاندار علی شاہ بخاری کہتے ہیں کہ ’میرا سید قیصر عباس سے برسوں کا تعلق تھا۔ وہ ہر اہم مجلس اور محرم میں امام بارگارہ آتا تھا۔ جس بھی رضا کارانہ کام کی ضرورت ہوتی، وہ کرتا تھا۔ وہ انتہائی ملنسار انسان تھا۔‘

عمان
Getty Images
پاکستانی سفیر کے مطابق عمان میں تقریباً چار لاکھ سے زائد پاکستانی شہری مقیم ہیں

یہ بھی پڑھیے

’گولیاں ایسی برس رہی تھیں جیسے بارش ہو‘

جس امام بارگارہ پر حملہ ہوا، وہ مسقط کی ’وادی الکبیر‘ میں واقع ہے اور اس کے اردگرد لوگوں کی رہائش گاہیں اور گھر بھی موجود ہیں۔

سید شاندار علی شاہ بخاری کا کہنا تھا کہ اس امام بارگاہ میں دو ہال اور ایک مسجد ہے۔ ایک ہال مردوں اور دوسرا خواتین کے لیے ہے۔ خواتین والے ہال کے سامنے بڑی پارکنگ ہے۔

’ہر محرم اور اہم مجالس کے موقع پر ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے ہم کس طرح گاڑیوں کی پارکنگ کو اچھے سے کروا سکیں تاکہ کسی کے گھر کا راستہ بند نہ ہو اور کوئی تنگ نہ ہو۔‘

سید شاندار علی شاہ بخاری کا کہنا تھا کہ واقعے والے روز میں پارکنگ کے گیٹ پر کھڑا تھا اور اپنے رضا کار ساتھیوں کو ہدایات دے رہا تھا۔ یہ کوئی سوا دس بجے کا وقت ہو گا کہ اچانک بہت تیز آواز سنی۔ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ عمان میں کوئی فائرنگ کر سکتا ہے اس لیے مجھے لگا کہ یہ کوئی زوردار پٹاخہ ہے۔‘

’پھر میں نے دیکھا کہ ایک شخص کالے کپڑے پہنے اپنا ہاتھ پکڑے دوڑ رہا ہے۔ میں اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ کیا ہوا اور یہ آواز کیسی ہے تو اس نے کہا کہ مجھے گولی لگی ہے۔‘

سید شاندار علی شاہ بخاری کا کہنا تھا کہ ’اسی اثنا میں ہم نے ایسی آوازیں سنیں جیسے برسٹ چل رہے ہو۔ گولیاں ہمارے اردگرد گر رہی تھیں۔ میں عورتوں اور بچوں کو زخمی ہوتے دیکھ سکتا تھا۔ اسی دوران میں نے اپنے رضا کار ساتھیوں کے ساتھ مل کر بچوں اور عورتوں کو ہال کے اندر دھیکلنا شروع کر دیا تھا۔ گولیاں اس طرح برس رہی تھیں جسے بارش ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جن عورتوں اور بچوں کو ہال کے اندر دکھیل سکتے ہیں ان کو اندر دکھیل کر ہال کا دروازہ بند کیا تو حملہ آوروں نے دیواروں اور دروازے کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا۔

عمان، مسقط
Getty Images

گھروں کی چھتوں سے فائرنگ

سید شاندار علی شاہ بخاریکہتے ہیں کہ اس دوران میں نے دروازے کے اندر سے دیکھا کہ سامنے موجود دو گھروں پر دو دو افراد موجود ہیں جن کے پاس بڑی بندوقیں تھیں اور وہ فائرنگ کے ساتھ نعرے بھی لگا رہے تھے۔

سید شاندار علی شاہ بخاری کہتے ہیں کہ زائرین نے تو کالے کپڑے پہن رکھے تھے جبکہ مجھ سمیت دیگر رضاکاروں نے اپنی شناخت کے لیے جیکٹس پہن رکھی تھیں۔

’اس جیکٹ میں ریفلیکٹر تھے، جو چمکتے ہیں۔ جب میں عورتوں سے مردوں کی ہال کی طرف جا رہا تھا تو حملہ آور مجھے تاک کر نشانہ بنا رہے تھے۔ بس یہ قسمت ہی تھی کہ مجھے جسم میں کوئی گولی نہیں لگی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب میں مردوں کے ہال میں تھا تو دروازے سے دیکھا کہ اس ہال کے سامنے بھی ایک گھر کی چھت سے دو افراد فائرنگ کر رہے تھے۔‘

’مردوں والے ہال کے پاس پولیس کی ایک گاڑی بھی تھی۔ میں ان پولیس اہلکاروں کے پاس گیا اور ان کو بتایا کہ خواتین کی طرف بہت فائرنگ ہو رہی ہے۔ انھوں نے مجھے تسلی دی کہ پولیس نفری بلا لی گئی ہے۔‘

شاندار بخاری کا کہنا تھا کہ اس دوران ہم زخمیوں کو اپنی گاڑیوں میں ہسپتال پہچانے کی کوشش کررہے تھے اور کئی جرات مند لوگوں نے برستی گولیوں میں زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔

’گولی میری کار کی چھت پر لگی اور سوراخ کر کے نکل گئی‘

ایک اور عینی شاہد رضوان محمود کے مطابق ’میں ابھی پارکنگ میں پہنچا اور دروازہ کھول کر نیچے اترنے لگا تو گولی میری کار کی چھت پر لگی اور سوراخ کر کے نکل گئی۔ جس کے بعد بہت زیادہ فائرنگ ہوئی اور میں کار کی سائیڈ ہی میں لیٹ گیا تھا۔‘

شاندار بخاری کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کے بعد پولیس کی کچھ گاڑیاں آئیں تو حملہ آورں نے ان گاڑیوں پر بھی فائرنگ کی جس سے میں نے پولیس اہلکار زخمی ہوتے دیکھے۔

واضح رہے کہ عمان پولیس نے اپنے ایک اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

شاندار بخاری کا کہنا تھا کہ ہم ہال کے اندر ایک گھنٹے تک رکے رہے۔ ’اس دوران عمان کی سپیشل کمانڈوز نے آپریشن کیا اور ایک گھنٹے بعد لوگوں کو پہلے قریب ہی قائم ایک کیمپ اور پھر وہاں سے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US