بنگلہ دیش میں جاری پرتشدد مظاہروں میں کم از کم 25 افراد ہلاک، ملک میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کے کوٹہ نظام کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں اب تک کم از کم 25 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ملک میں کئی دن سے جاری احتجاج کی وجہ سے جمعرات کے روز رات نو بجے سے انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
ڈھاکہ، مظاہرے
Getty Images

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کے کوٹہ نظام کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں اب تک کم از کم 25 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں پولیس چوکی کے انچارچ بچوچو میاں نے تصدیق کی ہے کہ ہسپتال میں گیارہ لاشوں کو لایا گیا جبکہ دیگر مقامی ہسپتالوں سے آنے والی معلومات کے مطابق ڈھاکہ میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ملک میں جاری مظاہروں کی وجہ سے جمعرات کے روز رات نو بجے سے انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے طلبا کئی دن سے سرکاری نوکریوں میں 1971 میں پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے اہلخانہ کے لیے مختص کوٹہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے نظام کے تحت سرکاری نوکریوں کا ایک حصہ خواتین، اقلیتوں اور معزوروں کے لیے مختص کیا جاتا ہے جس میں سے ایک تہائی ان افراد کے اہلخانہ کو دیا جاتا ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے تاہم طلبا کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔

اس احتجاج میں شریک طلبا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کو وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے حالیہ بیان نے تعیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دیا۔

بنگلہ دیش میں یہ نام ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

متعدد طلبا رہنماؤں نے کہا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے رضاکاروں سے موازنہ کر کے ان کی توہین کی ہے۔ ان کے مطابق اس موازنے کی وجہ سے ہی عوامی لیگ کے اراکین کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ احتجاج کرنے والوں پر حملہ آور ہوں۔

تاہم حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا اور انھوں نے طلبا کو رضاکار نہیں کہا۔

بنگلہ دیش
Getty Images

ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبا کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا۔

پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے نیم عسکری فورس، بارڈر گارڈز بنگلہ دیش کو ڈھاکہ اور چٹاگانگ سمیت پانچ مرکزی شہروں میں تعینات کر دیا ہے۔

عبد اللہ کوٹہ نظام کی مخالفت کرنے والی تحریک کے منتظمین میں سے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم عوامی لیگ کے اراکین کو تشدد کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ انھوں نے مظاہرین کو ہلاک کیا۔ پولیس نے عام طلبا کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہوں کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

تاہم اس نظام کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اور عوامی لیگ کی حمایت کرنے والے اس نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد، جو ملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب کی بیٹی ہیں، جنوری میں چوتھی بار انتخابات جیت چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

2018 میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ایسے ہی احتجاج کے بعد کوٹہ نظام کو ختم کر دیا تھا لیکن ایک عدالت کی جانب سے جون میں حکم کے بعد اسے حال ہی میں بحال کر دیا گیا اور یوں ایک نئی احتجاجی تحریک نے جنم لیا۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ چٹاگانگ میں تین جبکہ ڈھاکہ میں دو افراد مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے۔ شمال میں رنگ پور شہر میں بھی ایک طالب علم گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔

میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے تین طالب علم ہیں تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

دوسری جانب حکومت نے حزب مخالف یعنی اپوزیشن کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ملک کے وزیر قانون انیس الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اپوزیشن کی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی طلبا یونین کوٹہ مخالف تحریک میں گھس چکی ہیں اور انھوں نے ہی تشدد کا آغاز کیا۔‘

بنگلہ دیش کی عدالت نے گزشتہ ہفتے کوٹہ نظام معطل کر دیا تھا لیکن مظاہرین کا مطالبہ ہے اسے مستقل بنیادوں پر ختم کر دیا جائے۔

وزیر قانون کے مطابق سات اگست کو مقدمہ کی پیشی میں طلبا کے پاس اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہو گا۔

تاہم منگل کی رات مقامی پولیس نے اپوزیشن جماعت بی این پی کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارا جسے بی این پی نے ایک ڈرامہ اور طلبا کے لیے پیغام قرار دیا کہ وہ گھروں کو واپس چلے جائیں۔

وزیر اطلاعات محمد علی عرفات نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ عوامی لیگ کی طلبا یونین نے تشدد کا آغاز کیا۔ ان کا دعوی ہے کہ مسائل کی شروعات اس وقت ہوئی جب کوٹہ مخالف طلبا نے ڈھاکہ میں ایک ہال کے رہائشیوں کو پریشان کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر یونیورسٹی میں ایسا ماحول ہو گا تو حکومت کو تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں امن برقرار رہے۔‘

ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کو کسی قسم کے تشدد اور دھمکی سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US