اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے یمن سے آنے والے ایک میزائل کو تباہ کیا جو بظاہر یمن کے عکسریت پسند حوثی گروہ کی جانب سے گذشتہ روز اسرائیل کے یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر حملے کے ردِ عمل میں فائر کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے یمن سے آنے والے میزائلوں کو تباہ کیا ہے جو یمن کے عسکریت پسند حوثی گروہ کی جانب سے گذشتہ روز اسرائیل کے یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر حملے کے ردِ عمل میں داغے گئے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے الحدیدہ بندرگاہ پر کیے گئے حملے میں حوثیوں کی زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھ ہو گئی ہے جبکہ اس کے نتیجے میں 83 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کا یہ حملہ حوثیوں کی جانب سے جمعے کو اسرائیل کے شہر تل ابیب پر کیے گئے ایک ڈرون حملے کے بعد کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوا تھا۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے ایران کے حمایت یافتہ حوثی گروہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا ہے کہ حوثیوں کی اسرائیل سے لڑائی اب ’کھلی جنگ‘ ہو گی جس میں کسی ضابطے کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔
ان کی جانب سے یہ بیان بحیرہ احمر کی الحدیدہ بندرگاہ پر کیے گئے حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں ان کی مزید کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے ’یمن کے لوگوں کے ساتھ جنگ شروع کرنا آسان نہیں ہو گا‘ اور یہ کہ ان کا گروہ ’کسی بھی قسم کی جارحیت سے نہیں ڈرتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی اہداف اور تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے کا عمل فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے جاری رکھیں گے۔
یمن کے عسکریت پسند حوثی گروہکے سربراہ عبدالمالک الحوثی نے گروہ کی عسکری صلاحیتوں کی تعریف کی ہے اور حوثیوں کے المسیرہ ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ان کا گروپ اور یمن کے لوگ ’بہت خوش‘ ہیں کہ ان کا اسرائیل کے ساتھ براہِ راست تصادم ہو رہا ہے۔
ہمارا حدیدہ کی بندرگاہ پر حملے سے کوئی تعلق نہیں: سعودی عرب
اسرائیل کی جانب سے یمن کے شہر حدیدہ پر فضائی حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے بعد سعودی عرب کا بیان سامنے آیا ہے جس میں سعودی عرب نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کا حدیدہ کی بندرگاہ میں حوثی تنصیبات پر کیے جانے والے حملے سے کوئی تعلق نہیں۔
سعودی عرب کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی بھی فریق کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے یا در اندازی کی اجازت نہیں دیتا۔
سعودی عرب کی وزارت دفاع کے ترجمان ترکی المالکی نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ حدیدہ کی بندرگاہ پر حملے میں نہ سعودی عرب کا کوئی تعلق ہے نہ اس میں کسی قسم کی مدد فراہم کی گئی ہے۔
سعودی عرب کی وزارت دفاع کے ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب کسی فریق کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف امریکہ کی زیر قیادت بحری اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کیا تھا۔
19 جولائی کو تل ابیب پر یمنی حوثیوں کے ایک ڈرون حملے کے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے سنیچر کو حدیدہ کی بندرگاہ پر ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
حوثیوں سے متعلقہ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ایندھن کے ایک ڈپو میں آگ بھی لگ گئی۔
حوثیوں نے اسرائیل کے حالیہ حملوں کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے بدلے میں ایلات کی بندرگاہ پر کئی بیلسٹک میزائل فائر کیے ہیں۔
ان جھڑپوں کے تناظر میں اسرائیلی فوج نے اتوار کی صبح اعلان کیا کہ ملک کی فضائیہ نے یمن سے داغے جانے والے میزائل کو اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی مار گرایا ہے۔
اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق بحیرہ احمر کی بندرگاہ ایلات میں میزائل کے ٹکڑے لگنے کے خدشات کے پیش نظر فضائی سائرن بھی بجائے گئے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے فریقین سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی۔
جہاں ضرورت پڑے گی وہاں ہم ردِ عمل دیں گے: اسرائیل

ایران نے یمن پر اسرائیل کے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوآف گالانت نے یمن کی بندرگاہ پر ہونے والے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنے شہری کی ہلاکت کے بعد یمن کے شہر پر حملہ حوثیوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ اس وقت حدیدہ میں لگی آگ کے شعلے پورے مشرق وسطیٰ میں نظر آ رہے ہیں اور اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔
’حوثی ہم پر 200 بار سے زیادہ حملہ کر چکے ہیں۔ اب جبکہ پہلی بار جب انھوں نے ایک اسرائیلی شہری کو مارا تو ہم نے ان پر حملہ کیا ہے اور جہاں جہاں ضرورت پڑے گی وہاں ہم ردِ عمل دیں گے۔‘
حوثی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حملے میں تیل ذخیرہ کرنے کی تنصیبات اور ایک پاور پلانٹ کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ ’یمن کے حوثیوں نے اسرائیل کو نو ماہ مسلسل فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جس کے بعد اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے 800 کلومیٹر کے فاصلے سے عسکریت پسند گروہ حوثیوں کے فوجی اہداف کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا ہے۔‘
حوثیوں کے مرکزی نیوز چینل المسیرہ ٹی وی نے ابتدا میں یہ بتایا تھا کہ یہ حملے امریکی اور برطانوی افواج نے کیے ہیں تاہم بعد میں امریکی اور برطانوی افواج کا حوالہ ہٹا دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیلی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کو حوثیوں کی جانب سے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس پر حملے میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایرانی ساختہ ڈرون کا استعمال کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ فوجی دستوں نے ڈرون کے اپنی حدود میں آتے ہی اسے ریڈار پر دیکھ لیا لیکن ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے اسے گرایا نہیں جا سکا۔
ماضی میں اسرائیل پر داغے گئے تقریباً تمام حوثی میزائلوں اور ڈرونز کو ملک کے دفاعی نظام نے روک کر پسپا کر دیا تھا اور اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی اس سے پہلے تل ابیب تک پہنچ سکا ہو۔
یمن اسرائیل سے 1600 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کے کچھ حصوں پر قابض حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے اور غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بعد سے حوثیوں نے اسرائیل اور اس کی املاک پر حملے شروع کیے ہیں۔
حوثیوں کے فوجی ترجمان یحییٰ ساری نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعے کا حملہ ایک نئی قسم کے ڈرون سے کیا گیا جو نگرانی کے نظام سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اسرائیل کا تجارتی دارالحکومت سمجھے جانے والے تل ابیب کو ’غیر محفوظ علاقہ‘ قرار دیا ہے۔
یمن کے حوثی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل کے بحری جہازوں اور لڑاکا طیاروں پر بھی حملے کر رہے ہیں جس سے وہاں سے گزرنے والے متعدد بحری جہازوں کو جزوی نقصان پہنچ چکا جبکہ دو ڈوب بھی چکے ہیں۔
ان حملوں سے بچنے کے لیے کئی اہم تجارتی جہازوں نے اپنے راستے بدل لیے ہیں۔
اگرچہ اسرائیل نے اس سے پہلے حوثیوں پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن امریکہ اور برطانیہ مہینوں سے ان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں تاکہ اس گروہ کے بحری جہازوں پر حملوں کو روکا جا سکے۔