امریکی صدر بائیڈن انتخابی دوڑ سے دستبردار: ’ یہ فیصلہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے دوبارہ انتخاب کے لیے اپنی امیدواری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ فیصلہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔‘ جو بائیڈن کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے انتخابات میں چار ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر بائیڈن کو انتخابات سے دستبردار ہونے کے لیے چند ہفتوں سے دباؤ کا سامنا تھا جس کا آغاز ایک ٹی وی مباحثے سے ہوا جس نے ان کی صحت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا۔
biden
Getty Images

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں سال نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن کی دوڑ سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے دوبارہ انتخاب کے لیے اپنی امیدواری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ فیصلہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔‘

جو بائیڈن کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے انتخابات میں چار ماہ رہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر بائیڈن کو انتخابات سے دستبردار ہونے کے لیے چند ہفتوں سے دباؤ کا سامنا تھا جس کا آغاز ایک ٹی وی مباحثے سے ہوا جس نے ان کی صحت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا۔

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے پیغام میں انھوں نے کہا کہ بطور صدر خدمات انجام دینا ان کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک خط میں 81 سالہ ڈیموکریٹ بائیڈن نے کہا کہ ’صدر کی حیثیت سے آپ کی خدمت کرنا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگرچہ میرا ارادہ دوبارہ انتخاب لڑنے کا رہا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ میں دستبردار ہو جاؤں اور اپنی بقیہ مدت کے لیے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز کروں۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں اپنے فیصلے کے بارے میں قوم سے مزید تفصیل سے بات کریں گے۔

اتوار کی شام اس اعلان کے بعد صدر بائیڈن نے صدارتی دوڑ کے لئے نائب صدر کمالا ہیرس کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔

صدر بائیڈن نے اپنی نائب صدر کملا ہیرس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک’غیر معمولی خاتون‘ ہیں۔

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ میں انھوں نے مزید کہا کہ بطور صدر خدمات انجام دینا ان کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے امریکی عوام کی جانب سے مجھ پر اعتماد ظاہر کرنے پر اپنے پرخلوص دلی جذبات کا اظہار کرنے دیں۔ میں نے ہمیشہ یقین رکھا کہ امریکہ کچھ نہیں کر سکتا تھا اگر ہم متحد نہ ہوتے۔ ہمیں صرف یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم ریاستہائے متحدہ امریکہ ہیں۔‘

جو بائیڈن کے اس اعلان کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کو اب نومبر میں انتخابات کے لیے ایک نیا امیدوار تلاش کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ہو گی اور صدر کے امیدوار کے متبادل کے طورپر نائب صدر کملا ہیرس اس وقت سب سے آگے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وہ کوویڈ کی تشخیص کے بعد ڈیلاویئر میں اپنے گھر واپس آئے تھے تاہم جمعے کے روز انھوں نے کہا تھا کہ وہ ’اگلے ہفتے انتخابی مہم دوبارہ شروع کرنے کے منتظر ہیں۔

واضح رہے کہ اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جون کے آخر میں ایک مباحثے میں خراب کارکردگی کے بعد صدر بائیڈن کے لیے انتخابی دوڑ سے دستبرداری کے مطالبات بڑھنے لگے تھے۔

قبل ازیں صدر بائیڈن نے یہ بھی کہا تھا کہ انھیں صرف خدا ہی انتخابی مہم سے دستبردار کر سکتا ہے لیکن بعد ازاں انہوں نے کہا تھا کہ صحت کی خرابی کی وجہہ وہ دستبردار ہونے پر غور کریں گے۔

جو بائیڈن اور کملا ہیرس
Reuters

اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نےبطور صدارتی امیدوار ڈیموکریٹس کی تشویش کو دور کرنے کی کوششوں میں اے بی سی نیوز کے پرائم ٹائم انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ صرف خدا ہی انھیں دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کی دوڑ سے باہر نکلنے کے لیے راضی کر سکتا ہے۔

جولائی کے اوائل میں اے بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو کے دوران صدر بائیڈن نے اپنی ذہنی استعداد کی جانچ کا امتحان (cognitive test) لینے اور اس کے نتائج کو عوام کے سامنے لانے سے ایک بار پھر انکار کی تھا۔

81 سالہ جو بائیڈن نے پروگرام کے میزبان جارج سٹیفانوپولس کو بتایا تھا کہ ’میرا ہر ایک دن ایک علمی امتحان ہوتا ہے اور ہر روز میرا (ذہنی استعداد کا) ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جو کچھ میں کرتا ہوں وہ ایک امتحان ہے۔‘

اپنے اس انٹرویومیں ایک بار پھر بعض ڈیموکریٹک عہدیداروں اور عطیہ دہندگان کی اس سوچ کو مسترد کیا تھا جنھوں نے پچھلے ہفتے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جو بائیڈن کے مباحثے کے بعد انھیں اپنا متبادل سامنے لانے کے لیے دباؤ میں لانا شروع کیا تھا۔

صدر بائیڈن نے گذشتہ ہفتے اپنی خراب کارکردگی کا ذمہ دار تھکن اور بخار کو ٹھہرایا تھا۔

اپنے 22 منٹ کے انٹرویو کے دوران انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ صدر بننے یا جیتنے کا اہل ہے۔‘

جو بائیڈن نے اس دوران ڈیموکریٹس کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں میدان کھو دینے کے اندیشوں کو یہ کہہ کر کم کرنے کی کوشش کی کہ اب بھی ان کا ٹرمپ کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہے۔

جو بائیڈن نے اتحادیوں کی جانب سے صدارتی دوڑ سے باہر نکلنے کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔‘

جو بائیڈن نے انتخابی دوڑ سے باہر ہونے پر مجبور کیے جانے سے متعلق سوالات کو بار بار مسترد کیا اور کہا کہ ’اگر خدا خود نیچے (زمین پر) آئے اور کہے کہ اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ تو ہی میں دوڑ سے باہر ہوں گا۔ اور خدا یہ کہنے نیچے نہیں آیا۔‘

صدر بائیڈن نے پچھلے ہفتے صدارتی مباحثے کے برعکس زیادہ واضح طور پر سوالات کے جوابات دیے، لیکن ان کی آوازمیں کمزوری نمایاں تھی۔

صدر بائیڈن
Getty Images
اے بی سی نیوز کے پرائم ٹائم انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ صرف خدا ہی انھیں دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کی دوڑ سے باہر نکلنے کے لیے راضی کر سکتا ہے۔

جو بائیڈن چند دنوں سے زور و شور سے اپنے اس اعتماد کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے جسے ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے بحث کے بعد وہ کھو رہے تھے۔

نیویارک میں سابق صدر ٹرمپ کی سزا اور دوسرے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے بائیڈن نے اپنے حریف کو ’ایک ہی فرد کے جرائم کا تسلسل ‘ قرار دیا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے چند روز قبل اقرار کیا تھا کہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ صدارتی مباحثے کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ صدارتی دوڑ کا حصہ رہیں گے۔

انھوں نے وسکونسن کے ریڈیو سٹیشن سے بات کرتے ہوئے مباحثے کے دوران اپنی کارکردگی کو ’ایک غلطی‘ قرار دیا تھا تاہم انھوں نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ انھیں ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ وائٹ ہاؤس میں گزاری ان کی صدارتی مدت کے مطابق کریں۔

ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان صدارتی مباحثے میں کیا ہوا تھا؟

اگرچہ کچھ عرصے سے بہت سے امریکیوں کو صدر جو بائیڈن کی عمر اور ان کی صحت کے بارے میں بہت سے خدشات لاحق تھے تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والے مباحثے نے ان خدشات کو ختم کرنے کے بجائے مزید تقویت بخش دی تھی۔

27 جون کی شام کی شام ہونے وال صدارتی مباحثےمیں صدر بائیڈن ایک واضح اور آسان ہدف کے ساتھ داخل ہوئے تھے تاہم وہ اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام نظر آئے۔ پوری بحث کے دوران وہ ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیے اور ان کی باتیں بھی مبہم تھیں۔

بحث کے دوران بائیڈن کی ٹیم نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر زکام کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی آواز خراب اور مبہم سنائی دی رہی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی لیکن بظاہر یہ ایک بہانہ لگ رہا تھا۔

تقریباً 90 منٹ تک جاری رہنے والے مباحثے کے دوران مسلسل ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے جو بائیڈن اپنی باتوں پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے۔ ان کی جانب سے دیے جانے والے کچھ جوابات تو انتہائی بےتکے تھے۔

مباحثے کے دوران ایک سوال کا جواب انھوں نے یہ کہہ کر ختم کردیا کہ، ’ہم نے آخرکار میڈیکیئر کو ہرا دیا۔‘ قابلِ ذکر بات یہ ہے میڈیکیئر امریکی حکومت کے زیر انتظام بزرگوں کی صحت کی دیکھ بھال کا پروگرام ہے۔

اس مباحثے کے فوراً بعد جو بائیڈن کی سابقہ کمیونیکیشن ڈائریکٹر کیٹ بیڈنگ فیلڈ سی این این پر موجود تھیں۔ انھوں نے صاف الفاظوں میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ بحث کسی بھی صورت جو بائیڈن کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوئی۔

ان کے مطابق جو بائیڈن کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ثابت کرنا تھا کہ بطورِ صدر کام کرنے کے لیے ان میں نہ صرف توانائی ہے بلکہ وہ صحت مند بھی ہیں لیکن بائیڈن ایسا کرنے میں ناکام رہے۔

جیسے جیسے بحث آگے بڑھی، اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش میں کسی شکست خوردہ باکسر کی طرح جو بائیڈن نے بھی کھیل کی رفتار میں تبدیلی لانے کی کوشش کی اور اپنے حریف پر تیزی سے وار کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ وار تو اپنے ہدف پر لگے جنھوں نے شاید سابق صدر کو غصہ بھی دلا دیا۔

ٹرمپ نے بائیڈن کے ایک اور جواب کے بعد طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’مـجھے نہیں سمجھ آئی کہ انھوں نے اس جملے کے آخر میں کیا کہا ہے، اور میرے خیال میں شاید یہ خود بھی نہیں جانتے۔‘

دوسری جانب بحث کے دوران سابق صدر ٹرمپ بڑی حد تک نظم و ضبط کے ساتھ کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے اور انھوں نے ایسے کسی بھی موضوع میں پڑنے سے اجتناب کیا جس سے بحث پٹڑی سے اتر سکتی تھی جیسا ان کے ساتھ سنہ 2020 میں ہونے والے مباحثوں کے دوران ہوا۔

ٹرمپ کافی حد تک تمام گفتگو کو صدر بائیڈن کے ریکارڈ پر مرکوز رکھنے میں کامیاب رہے۔

ٹرمپ
Getty Images

News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts