دنیا بھر میں جب کوئی اپنی چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین ممالک کی فہرست بناتا ہے تو اس میں بیشتر لوگوں کی فہرست سے افغانستان غائب ہوتا ہے اور اگر کسی کی فہرست میں ہوتا بھی ہے تو سرفہرست ممالک میں شامل نہیں ہوتا ہے۔
اگرچہ دوسرے ممالک کی خواتین زیادہ آزادی کے ساتھ سیر کر سکتی ہیں لیکن مقامی عورتوں کے لیے ایسا نہیں ہےدنیا بھر میں جب کوئی بیرونِ ملک چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین ممالک کی فہرست بناتا ہے تو اس میں بیشتر لوگوں کی فہرست سے افغانستان غائب ہوتا ہے۔
اس کے پس پشت دہائیوں سے جاری تنازعات ہیں کیونکہ سنہ 1970 ک دہائی میں ’ہپی ٹریلز‘ کے ایک حصے کے طور پر اس کے عروج کے زمانے کے بعد سے بہت کم سیاحوں کی وسطی ایشیا کے اس ملک میں قدم رکھنے کی ہمت ہوئی ہے۔
افغانستان میں سیاحت کی جو چھوٹی سی صنعت موجود تھی اس کا مستقبل بھی 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے باعث غیر یقینی کا شکار ہو گيا تھا۔
لیکن اگر آپ سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ افغانستان میں ناصرف سیاحت موجود ہے بلکہ وہ غیر معمولی طریقے سے عروج پر بھی ہے۔
’آپ کا اگلا سفر افغانستان ہونا چاہیے: پانچ وجوہات‘ کے عنوان سے پرجوش انفلوئنسرز کو وہاں کی چمکتی جھیلوں، پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے، اور پر رونق اور مصروف بازاروں میں لطف اندوز ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
بعض نے 20 سال قبل بامیان میں بدھا کے مجسموں کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’افغانستان 20 سال میں اتنا محفوظ کبھی نہیں رہا۔‘
ان سنہرے دعوؤں اور دلکش ویڈیوز کے باوجود مسافروں کو لاحق خطرات کے بارے میں سوالات بھی موجود ہیں۔ لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ افغانستان کی سیاحت کی صنعت کس وجہ سے ترقی کر رہی ہے۔
یہ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنے والی مقامی آبادی ہے یا طالبان کی حکومت ہے جو دنیا کے بیانیے کو اپنے حق میں بدلنا چاہتی ہے؟
ڈاکٹر فرخندہ اکبری کا خاندان 1990 کی دہائی میں، جب طالبان پہلی بار افغانستان میں برسراقتدار آئے تھے، اپنے ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ٹک ٹاک پر ان ویڈیوز کو دیکھنا کسی ستم ظریفی سے کم نہیں ہے جہاں ایک طالبان گائیڈ اور طالبان اہلکار سیاحوں کو بدھ مت مذہب سے منسلک مجسموں کی تباہی کی جگہ کا دورہ کرنے کے لیے ٹکٹ دے رہے ہیں۔‘
’یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان مجسموں کو تباہ کیا تھا۔‘
کسی بین الاقوامی ٹور کمپنی کے ساتھ آپ چند ہزار ڈالر میں افغانستان کی سیر کر سکتے ہیں’ابھی تو یہ اچھوتی جگہ ہے‘
ساشا ہینی نے جن ممالک کا دورہ کیا ہے ان کی فہرست پہلی نظر میں چھٹیاں گزارنے کے مثالی مقامات کی فہرست کی طرح نہیں لگتی ہیں کیونکہ ان کی فہرست میں شامل ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر خبروں میں ہوتے ہیں۔
لیکن پھر یہ علم ہوتا ہے کہ ہینی اور دنیا بھر میں ان جیسے ہزاروں لوگوں نے ان مقامات کو کیوں پسند کیا ہوگا۔ شاید وہ مشہور سیاحتی مقامات اور فائیو سٹار ہوٹل کے عیش و آرام سے زیادہ سے زیادہ دور اور پوری طرح سے منفرد مقامات کے سبب ان کا انتخاب کرتے ہیں۔
اور شاید انھی وجوہات کی بنا پر افغانستان نے ان کا دل جیت لیا۔
برطانیہ میں برائٹن کی پارٹ ٹائم ٹریول گائیڈ نے کہا کہ ’یہ سب بالکل اچھوتا ہے۔ اگر آپ حقیقی زندگی دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے لیے پرکشش ہو سکتا ہے۔‘
طالبان کو اس سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ حالانکہ ان کی وجہ شہرت ہی باہر کے لوگوں، خاص طور پر مغربی باشندوں کے متعلق مشکوک اور بعض اوقات مخالف ہونا ہے۔
اس کے باوجود وہ قدرے ہچکچاہٹ اور پر تکلف انداز میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہے ہیں۔ ان کی بندوقوں اور لہراتی داڑھیوں کے ساتھ تصاویر خاص طور پر ٹک ٹاک پر وائرل ہو رہی ہیں۔ خیال رہے کہ ٹک ٹاک پر سنہ 2022 سے افغانستان میں پابندی ہے۔
ایک سطح پر اس کا جواب آسان ہے۔ طالبان کو رقم کی ضرورت ہے کیونکہ وہ وسیع پیمانے پر پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکارہیں۔ انھیں افغانستان کی سابقہ حکومت کو دیے گئے فنڈز تک رسائی سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق سنہ 2021 میں افغانستان جانے والے سیاحوں کی تعداد صرف 691 تھی جو بڑھ کر پچھلے سال 7000 سے زیادہ ہو گئی ہے۔
بظاہر یہ ملک زیادہ تر بین الاقوامی کمپنیوں کی طرف سے پیش کردہ ہزارہا مقامات میں سے ایک میں شامل ہوتا ہے لیکن ایک کشش یہ بھی ہے کہ آپ چند ہزار ڈالر میں ’حقیقی افغانستان‘ کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
کابل میں طالبان حکومت کے ٹورزم ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ محمد سعید نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ ان کا خواب ہے کہ ان کا ملک سیاحت کا مرکز بن جائے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی نظریں خاص طور پر چینی سیاحوں پر مرکوز ہیں۔
افغان ٹور گائیڈ روح اللہ نے تین سال قبل افغانستان میں ٹور گائیڈ کا کام شروع کیا اور ان سے مطمئن گاہکوں نے ان کے ساتھ مسکراتے ہوئے تصاویر لی ہیں جنھیں درجنوں بار شیئر کیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سیاحت سے بہت ساری ملازمتیں اور مواقع پیدا ہوتے ہیں۔‘
کسی بھی سیاح کے لیے بامیان سیر کے لیے اچھی جگہ ہو سکتی ہے جہاں کبھی بڑے بڑے بدھا کے مجسمے ہوتے تھے’تبدیلی کے بعد‘
سنہ 2021 میں طالبان کے آنے کو وہ ’تبدیلی‘ کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تبدیلی کے بعد ان کے ایک دوست نے ٹور گائیڈ کے طور پر نوکری کی پیشکش کی۔ اس سے پہلے وہ افغان وزارت خزانہ میں آٹھ سال کام کر چکے تھے۔
اور انھیں اپنے اس فیصلے پر افسوس نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہینی جیسے ٹور گروپس کو ڈرائیوروں اور مقامی گائیڈز کی ضرورت ہے اور وقت کے ساتھ سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس لیے کام کی کوئی کمی نہیں ہے۔
ایسے میں بڑی تعداد میں نوجوان، جو سب کے سب مرد ہیں، کابل میں طالبان کی منظور شدہ مہمان نوازی کی کلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔ وہ تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ کلاسز لے رہے ہیں۔
روح اللہ کہتے ہیں: ’ہم اس سال بہت زیادہ سیاحوں کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ ایک پرامن وقت ہے۔ اس سے پہلے افغانستان کے تمام حصوں میں سفر کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن ابھی کے لیے، یہ واقعی ممکن ہے۔‘
جنگجو گروپ دولت اسلامیہ سے وابستہ عسکریت پسند گروپ آئی ایس خراسان کی جانب سے مئی میں بامیان کے ایک بازار میں تین ہسپانوی سیاحوں اور ایک افغان کا قتل غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ اس میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
برطانیہ کا دفتر خارجہ وہاں کسی بھی قسم کے سفر کے خلاف مشورہ دیتا ہے کیونکہ یہ ملک ان کے حملوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ویسٹ پوائنٹ میں قائم کامبیٹنگ ٹیررزم سینٹر کے مطابق آئی ایس کے نے صرف 2023 میں ملک میں 45 حملے کیے ہیں۔
بلاشبہ اب افغانستان کی سیکیورٹی میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکی حملے کے بعد 20 سالہ جنگ کے دوران، جس نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا تھا، طالبان خود زیادہ تر پرتشدد واقعات کے ذمہ دار تھے۔
مثال کے طور پر سنہ2021 کے پہلے تین مہینوں میں اقوام متحدہ کی ریکارڈ کی گئی 1,783 عام شہریوں کی ہلاکتوں میں سے 40 فیصد سے زیادہ کے لیے طالبان کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ صرف طالبان ہی نہیں تھے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسی عرصے میں 25 فیصد ہلاکتوں کے لیے امریکی حمایت یافتہ افغان حکومتی فورسز ذمہ دار تھیں۔
بدھا کے بلند و بالا مجسمے’اصول جانیں اور کھیل سیکھیں‘
سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ہینی کے ساتھ جو سیاح افغانستان کے دورے پر آئے وہ سب خواتین تھیں۔ اور وہاں صرف وہی تینوں خواتین نہیں تھیں۔
ینگ پایونیر ٹورز شمالی کوریا اور دیگر ایسے ہی مقامات پر چھٹیاں منانے کا طویل تجربہ رکھتا ہے اور وہ افغانستان کے لیے خصوصی طور پر خواتین کے دورے بھی منعقد کرواتا ہے۔ روح اللہ نے تنہا سفر کرنے والیخواتین کو ’بغیر کسی پریشانی کے‘ ملک کی سیر کرائی ہے۔
طالبان کی اپنی خواتین آبادی کے لیے سخت قوانین ہیں۔ ان کے دفاتر میں کام کرنے پر پابندیاں ہیں اور انہیں ثانوی تعلیم سے بھی باہر رکھا گيا ہے۔ یہاں تک کہ بند امیر نیشنل پارک میں بھی ان کا داخلہ ممنوع ہے لیکن باہر سے آنے والی خواتین کو داخل ہونے سے روکتے نہیں دیکھا گیا ہے۔
روون بیئرڈ سنہ 2016 سے ملک میں سیاحتی گروہ لا رہے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں ’خواتین اور مردوں کا مختلف درجہ ہے‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ کوئی بری چیز ہو۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مرد عورتوں سے بات نہیں کر سکتے لیکن خواتین کر سکتی ہیں۔ ہماری خواتین سیاحوں کو خواتین کے ایک گروپ کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے اپنے تجربات اور ملک کے بارے میں مزید جاننے اور سننے کا موقع ملا۔‘
لیکن ہر ایک کو چند قوانین پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہینی اور ان کے گروپ کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ان اصولوں کو پورا کرنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہوگی، بشمول یہ کہ وہ کس طرح کا لباس پہنیں، کیسے کام کریں اور وہ کس سے بات کر سکتی ہیں، اور کس سے نہیں کر سکتی ہیں۔
طالبان ہمیشہ موجود ہوتے ہیں اور اپنی بندوقوں کے ساتھ دور سے دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے ہینی یا ان کے گروپ کی دیگر خواتین سے بات نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو قوانین کو جاننا ہوگا اور کھیل کو سیکھنا ہوگا۔‘
ہینی کے لیے ان خواتین کے ساتھ بات کرنا جو ’ناقابل یقین حد تک خوش تھیں‘ ان کے دورے کی خاص بات تھی۔ اس کے ساتھ ہی انھیں وہاں ’پیارے‘، سخی اور خوش آمدید کہنے والے لوگ نمایاں طور پر ملے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں خواتین گلیوں کے مناظر سے نمایاں طور پر غائب ہیں۔ اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک سیاح نے کہا کہ لوگوں کو فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ اندر ہیں اور وہ وہی کام کر رہی ہیں جو دنیا بھر کی خواتین کرنا پسند کرتی ہیں یعنی خریداری۔

طالبان کے رویے پر ’اخلاقی جدوجہد‘
ڈاکٹر اکبری کہتی ہیں کہ سیاحوں کا خیال ہے کہ ’یہ دنیا کا اتنا پسماندہ حصہ ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘
وہ اب آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سیاح سوچتے ہیں کہ ’ہم بس وہاں جاتے ہیں اور اس کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ویوز اور لائکس حاصل کرتے ہیں۔ اور ان کی اس بات سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں: ’سیاسی اور سماجی بیداری کی کمی کے ساتھ سیاحت غیر اخلاقی ہے‘ جو طالبان کو زندگی کی حقیقتوں پر پردہ ڈالنے کی اجازت دیتی ہے۔
ڈاکٹر اکبری بتاتی ہیں: ’میرے خاندان میں کوئی مرد سرپرست نہیں ہے تو خواتین ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا سفر نہیں کر سکتیں۔ ہم نصف آبادی کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے پاس کوئی حقوق نہیں ہیں۔۔۔ ہم ایک ایسی حکومت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس نے صنفی بنیاد پر نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘
’اور ہاں، وہاں ایک انسانی بحران ہے: مجھے خوشی ہے کہ سیاح جا کر دکان سے کچھ خرید سکتے ہیں اور اس سے مقامی خاندان کی مدد ہو سکتی ہے، لیکن اس کی قیمت کیا ہے؟ یہ بات طالبان کی حکومت کو معمول پر لانے والی بات ہے۔‘
ہینی نے اعتراف کیا کہ دورہ کرنے سے پہلے انھیں خواتین کے بارے میں طالبان کے موقف پر ’اخلاقی جدوجہد‘ کرنی پڑی تھی۔
وہ کہتی ہیں: ’یقیناً، میں ان کے حقوق کے بارے میں بہت شدت سے محسوس کرتی ہوں۔ یہ بات میرے ذہن میں آئی تھی لیکن پھر ایک مسافر کے طور پر میرے خیال میں یہ ممالک جانے کے لائق ہیں، اور ان کی بات سنی جانی چاہیے، ہمارے خیالات ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھنا پسند ہے۔ میں اپنا فیصلہ خود کر سکتی ہوں۔‘
بیئرڈ کا استدلال ہے کہ لوگوں کو اپنے نتائج خود نکالنے دیں۔‘
طالبان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق کو نسبتا بہت کم کر دیا گيا ہےناٹنگھم یونیورسٹی سکول آف بزنس میں مارکیٹنگ اور سیاحت کی پروفیسر مارینا نویلی کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی طرف سے شیئر کیے گئے حد سے زیادہ مثبت نظریے کو یقینی طور پر پریشانی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا: ’میں کسی منزل کی سنسنی خیزی کے بارے میں بہت محتاط رہتی ہوں‘ کیونکہ کچھ لوگ ’ایک ایسی تصویر پینٹ کر سکتے ہیں جو بچگانہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بعض اوقات سیاح بھی ایک مثبت پیغام بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسائل (اب بھی موجود) نہیں ہیں۔‘
بین الاقوامی سیاحت کے اخلاقی بورڈ پر بیٹھی پروفیسر نویلی کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ کرنا بھی آگے نہیں لے جاتا ہے۔
’مجھے اس کے ساتھ مسئلہ ہے کیونکہ یہ ان ممالک کو اور بھی الگ تھلگ کر دیتا ہے۔‘
اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ لکیر کہاں کھینچی جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ شمالی کرۂ ارض میں سیاحتی مقامات کی بہتات ہے لیکن وہاں کی حکومتیں قابل اعتراض طرز عمل رکھتی ہیں۔
تاہم فائدے کے امکانات بھی قابل غور ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سعودی عرب میں سیاحت کی بڑھتی ہوئی صنعت خواتین کے لیے معاشرے میں وسیع کردار کا باعث بنی ہے۔
پروفیسر نویلی کہتی ہیں: ’میرے خیال میں سیاحت امن کے لیے، ثقافتی تبادلے کے لیے ایک قوت ہو سکتی ہے۔‘
اگرچہ سیاحت کی یہ صلاحیت ڈاکٹر اکبری جیسی خواتین اور افغانستان میں ان کے خاندان اور دوستوں کے لیے راہ آسان نہیں بناتی۔
وہ کہتی ہیں: ’طالبان چاہتے ہیں کہ سیکیورٹی کے اس جعلی برش سے وہ صاف ہو جائیں۔‘