’بیٹے کے لیے دلہن دیکھنے گیا تھا، واپس آیا تو پتا چلا بیٹا ہی نہیں رہا‘

بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور اس دوران قانون نافذ کرنے والی فورسز اور حکومتی حامیوں کی طلبا کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں ہیں جن میں اب تک کم از کم 133 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
بنگلہ دیش احتجاج
Getty Images

’میں اپنے بیٹے کے لیے دلہن ڈھونڈنے گیا تھا، واپس آیا تو پتا چلا کہ بیٹا ہی زندہ نہیں رہا۔۔۔‘

یہ الفاظ کہتے ہوئے ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے عبدالرزاق کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔

عبدالرزاق کے اکلوتے بیٹے حسیب اقبال ان 130 سے زیادہ افراد میں سے ایک تھے جو بنگلہ دیش میں گذشتہ ہفتے کوٹہ اصلاحات تحریک کے دوران ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں مارے گئے۔

بنگلہ دیش میں ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور حکومت کے حامیوں کی ان طلبا کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔

پرتشدد مظاہروں کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کا حکم دیا ہے جس کے مطابق ’1971 کی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو ملازمتوں کا اب صرف پانچ فیصد حصہ ملے گا‘ تاہم مظاہرین نے مارے جانے والے طلبہ کو انصاف ملنے تک ملک گیر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

ان جھڑپوں میں اب تک کم از کم 133 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جن میں سے اکثریت حسیب جیسے نوجوانوں ، طالب علموں اور کارکنوں کی ہے۔

27 سالہ حسیب اقبال ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتے تھے۔ ان کے اہلخانہ کے مطابق وہ گذشتہ جمعہ کی دوپہر وہ ڈھاکہ کے علاقے میرپور میں واقع اپنی رہائش گاہ سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے باہر نکلے تھے۔

حسیب کے ضعیف والد نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’ہمیں ایک ساتھ نماز کے لیے جانا تھا۔ لیکن چونکہ مجھے تھوڑی دیر ہو رہی تھی اس لیے وہ اکیلا ہی مسجد کے لیے نکل پڑا۔‘

عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ کہ ’مجھے اس دن نماز کے بعد ایک دعوت ملی تھی جو دراصل بیٹے کے لیے دلہن دیکھنے کی تقریب تھی۔ اسی لیے میں جلدی سے گھر آیا اور دعوت کے لیے چلا گیا۔‘

نماز کے تقریباً تین گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب حسیب اقبال گھر واپس نہیں آئے تو ان کے اہلِ خانہ کی پریشانی بڑھنے لگی۔

عبدالرزاق کہتے ہیں ’گھر واپس آنے کے بعد میں نے سنا کہ میرا بیٹا ابھی تک واپس نہیں آیا ہے۔ باہر پُرتشدد مظاہرے جاری تھے جس وجہ سے ہماری پریشانی بڑھی اور ہم نے ہر جگہ حسیب کی تلاش شروع کی۔‘

شام کو اچانک ایک لڑکے نے فون کیا ’انکل حسیب کو غسل دے دیا ہے آکر اس کی لاش لے جاؤ‘

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تلاش کے بعد بھی حسیب کے خاندان کو ان کا کوئی سراغ نہیں ملا مگر شام کو ان کی ہلاکت کی خبر آ گئی۔

عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ ’شام کو اچانک ایک لڑکے نے فون کیا اور کہا: انکل حسیب کو غسل دے دیا ہے آکر اس کی لاش لے جاؤ۔‘

لواحقین کو لاش جس حالت میں ملی اس وقت حسیب اقبال کا پورا جسم کفن سے ڈھکا ہوا تھا۔

عبدالرزاق کہتے ہیں ’ہمیں بتایا گیا کہ اس کی ہلاکت دوپہر کے وقت ہوئی۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’پولیس نے اس کی لاش انجمن مفید الاسلام کو بھیج دی جنھوں نے حسیب کو غسل دیا اور کفن پہنایا۔‘

’انجمن مفید الاسلام‘ بنگلہ دیش میں ایک فلاحی تنظیم ہے جو لاوارث یا نامعلوم افراد کی لاشوں کے کفن دفن کا انتظام کرتی ہے۔

ہلاکت کے فوراً بعد حسیب کی شناخت نہیں ہو پائی تھی اور پولیس نے ان کی لاش کو ’لاوارث‘ قرار دے دیا تھا۔

پھر انجمن والوں نے حسیب کی شناخت کرکے ان کے گھر کا فون نمبر کیسے ڈھونڈ نکالا؟

عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ ’جب حسیب کی لاش کو انجمن مفید الاسلام لیجایا گیا تو وہاں پر ہمارے علاقے کے کچھ لڑکے حسیب کو دیکھ کر پہچان گئے۔ انھوں نے ہی مجھے فون کر کے خبر دی۔‘

’پولیس میں رپورٹ درج کروانے سے کیا ہو گا؟ میرا بیٹا تو واپس نہیں آئے گا نا‘

حسیب کے جاننے والوں اور رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک خاموش طبع نوجوان تھے اور چونکہ وہ بے روزگار بھی نہیں تھے اس لیے ان کا کوٹہ اصلاحات کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ پھر وہ تشدد میں کیسے مارے گئے؟

عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ ’ڈاکٹر نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ حسیب کی موت سانس کی تکلیف کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ شاید میرا بیٹا جھڑپوں کے دوران پولیس کے آنسو گیس گولوں کا نشانہ بنا ہو۔‘

لیکن تدفین سے قبل حسیب اقبال کے رشتہ داروں نے ان کے سینے کے پاس ’سیاہ‘ نشانات دیکھے۔

رزاق بتاتے ہیں ’ہم پورے جسم کو تو نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ یہ کفن میں لپٹا ہوا تھا لیکن اس کے سینے کے اوپری حصے پر ایک سیاہ نشان نظر آرہا تھا۔‘

تاہم انھوں نے اس حوالے سے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کروائی۔

وہ کہتے ہیں اس سے کیا ہوگا؟ میرا بیٹا تو واپس نہیں آئے گا نا۔‘

بھرائی ہوئی آواز میں وہ کہتے ہیں ’میرا اکلوتا بیٹا، میری نسل کا چراغ۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں اسے اس طرح کھو دوں گا۔‘

getty
Getty Images

’ہم نے اسے بار بار کہا کہ ہنگاموں کے دوران باہر نہ نکلے‘

21 سالہ معروف حسین کشتیا پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین ہفتے قبل نوکری کی تلاش میں ڈھاکہ آئے تھے۔

گذشتہ جمعہ کی سہ پہر بڈہ کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران حسین کو کمر میں گولی لگی اور بعد میں ہسپتال میں وہ جانبر نہ ہو سکے۔

معروف حسین بھی اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کی والدہمینہ خاتون روتے ہوئے کہتی ہیں ’انھوں نے میرے اکلوتے بیٹے کو گولی مار کر مار ڈالا۔ میرا معروف واپس نہیں آئے گا۔‘

مینہ کی آخری بار جمعہ کی صبح تقریباً گیارہ بجے اپنے بیٹے سے بات ہوئی تھی۔

انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’ہم نے اسے بار بار کہا کہ ہنگاموں کے دوران باہر نہ نکلے۔ اس نے کہا: ماں فکر نہ کریں میں کمرے میں ہوں۔‘

تقریباً چار گھنٹے بعد اہلِخانہ کو پتہ چلا کہ معروف حسین کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔

معروف کے والد محمد شریف بتاتے ہیں ’اس کے ایک دوست نے مجھے ڈھاکہ سے فون کیا اور کہا کہ آپ جلدی سے ڈھاکہ آ جائیں۔ معروف زخمی ہوا ہے۔‘

تاہم شریف کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بیٹے کو گولی لگی ہے۔

’ہم نے یہ سن کر فوری طور پر ڈھاکہ میں ایک رشتہ دار سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ہمارا لڑکا زخمی ہے۔ انھیں پوچھ گچھ کرنے پر پتا چلا کہ معروف کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔‘

مگر حال ہی میں ڈھاکہ آنے والے حسین کو گولی کیسے لگی؟

getty
Getty Images

محمد شریف کے مطابق ’میرا بیٹا جن لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا انھوں نے بتایا کہ جب دوپہر کو لڑائی شروع ہوتی تو سب لوگ جا کر گیٹ کے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو معروف بھی دوسروں کی طرح گھر کی طرف بھاگا۔ اسی وقت اسے پیٹھ میں گولی لگی۔

محمد شریف کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق گولی لگنے کے بعد ان کا بیٹا کافی دیر تک سڑک پر پڑا رہا۔ جب تک اسے ہسپتال لے جایا گیا، وہ مر چکا تھا۔

وہ بتاتے ہیں ’ہسپتال لے جانے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ معروف پہلے ہی مر چکا تھا۔‘

معروف حسین دو بھائی بہنوں میں بڑے تھے۔ ان کے والد پیشے کے اعتبار سے پھل فروش ہیں۔

انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ انھوں نے اپنی تمام جمع پونجی اپنے بیٹے کی تعلیم پر خرچ کر دی۔

روتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’میں نے کتنی محنت سے اپنی ساری جمع پونجی لڑکے کی تعلیم پر خرچ کی۔ کیا خواب دیکھے تھے کہ میرا لڑکا کام کرے گا، خاندان کا خیال رکھے گا، اور ہمیں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہونے دے گا۔میرا وہ لڑکا نوکری کی تلاش میں گولی کھا کر مر گیا۔‘

’بھائی میں آگ میں پھنس گیا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ میں زندہ بچوں گا‘

بھوانی پور سے تعلق رکھنے والے سلیم منڈل پیشے کے اعتبار سے مزدور تھے۔ وہ ایک ماہ قبل ڈھاکہ آئے تھے اور نارائن گنج میں ڈھاکہ چٹاگانگ ہائی وے کے قریب ایک زیر تعمیرعمارت میں کام کر رہے تھے۔

ان کا قیام بھی اسی عمارت کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں تھا۔

گذشتہ سنیچر کی سہ پہر اس علاقے میں سکیورٹی فورسز اور حکومت کے حامیوں کی کوٹہ اصلاحات پر احتجاج کرنے والے مظاہرین سے جھڑپ ہوئی جس کے بعد عمارت میں تعمیراتی کام روک دیا گیا۔

اس صورتحال میں سلیم اور دیگر مزدورعمارت کی دوسری منزل پر اپنے کمروں میں چلے گئے اور پھر عمارت کی نچلی منزل پر آگ لگ گئی۔

سلیم کے بڑے بھائی وج منڈل بتاتے ہیں ’جب سہ پہر ساڑھے چار بجے کے قریب آگ لگی اس وقت بہت سے مزدور سو رہے تھے۔‘

کچھ ہی دیر میں آگ عمارت کی تیسری منزل تک پھیل گئی۔ آگ میں پھنسے سلیم نے گھر فون ملایا۔

وج منڈل نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا ’روتے ہوئے سلیم صرف اتنا کہہ رہا تھا کہ بھائی میں آگ میں پھنس گیا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ میں زندہ بچوں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فون پر بات کرتے ہوئے ہمیں احساس ہوا کہ سلیم باہر نہیں نکل سکتا۔‘ جائے وقوعہ سے سلیم منڈل سمیت تین افراد کی جلی ہوئی لاشیں برآمد ہوئیں۔

سلیم کا ایک بھتیجا بھی ان کے ساتھ تھا جس کا نام انیک تھا۔ اس نے جان بچانے کے لیے دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی اور اب شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل ہے۔

getty
Getty Images

پولیس کو شبہ ہے کہ عمارت کی نچلی منزل پر جمع سوکھی لکڑی کو آگ لگائی گئی تھی۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آگ کس نے لگائی۔

27 سالہ سلیم کی موت کی خبر ان کے گھر تک پہنچی تو ان کی بیوی بے ہوش ہو گئیں۔

وج منڈل بتاتے ہیں ’وہ روتے روتے بےہوش ہو گئی۔ بعد میں ڈاکٹر آئے اور نیند کی گولیاں دیں۔‘

سلیم کی ایک چار سالہ بیٹی ہے۔ وج منڈل کہتے ہیں ’اب یہ چھوٹی بچی کسے ڈیڈی کہے گی؟ ہمارے پاس کوئی زمین، دولت یا جائیداد نہیں ہے۔ اس کے خاندان کا خرچ کیسے چلے گا؟‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US