اب آر ایس ایس کو کھلی چھوٹ ملنے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ انڈین حکومت کی ایک وزارت نے چپکے سے سرکاری ملازمین سے انڈیا کی سب سے بڑی ’غیر سیاسی‘ آر ایس ایس میں شمولیت اور اس کے پروگرامز میں شرکت پر 58 سال سے عائد پابندی ہٹا لی۔

انڈین حکومت کی ایک وزارت نے خاموشی سے سرکاری ملازمین سے انڈیا کی سب سے بڑی ’غیر سیاسی‘ آر ایس ایس میں شمولیت اور اس کے پروگرامز میں شرکت پر 58 سال سے عائد پابندی ہٹا لی ہے تاہم جماعت اسلامی سمیت دیگر دو جماعتوں میں جانے پر پابندی اب بھی برقرار ہے۔
اگرچہ اس کا نوٹیفیکیشن رواں ماہ کے اوائل میں ہی جاری کیا گيا تھا لیکن یہ اس وقت تک منظر عام پر نہیں آ سکا جب تک کہ کانگریس کے ایک ترجمان جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پر اس کی کاپی جاری کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔
بہرحال سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کے بعد اب اسے ڈیپارٹمنٹ آف پرسونیل اینڈ ٹریننگ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا ہے اور اسے ’متفرقات‘ کے عنوان کے تحت دیکھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
جے رام رمیش نے اس کی ایک کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’گاندھی جی کے قتل کے بعد سردار پٹیل، انڈیا کے پہلے وزیر داخلہ، نے فروری سنہ 1948 میں آر ایس ایس پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد اچھے رویے کی یقین دہانی کے بعد اس پر عائد پابندی اٹھا دی گئی تھی۔ اس کے بعد بھی آر ایس ایس نے کبھی ناگپور میں ترنگا (انڈین قومی پرچم) نہیں لہرایا۔‘
https://twitter.com/Jairam_Ramesh/status/1815071945257611491
انھوں نے مزید لکھا کہ ’1966 میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے سرکاری ملازمین پر بجا طور پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ (لیکن) 4 جون 2024 کے بعد خود ساختہ غیر حیاتیاتی وزیر اعظم (مودی) اور آر ایس ایس کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ہیں (اور) 9 جولائی سنہ 2024 کو 58 سال سے عائد پابندی جو مسٹر واجپائی کے وزیر اعظم کے دور میں بھی نافذ تھی ہٹا دی گئی۔ میرے خیال میں اب بیوروکریسی بھی نیکر میں آ سکتی ہے۔'
نیکر میں آنے کا مطلب آر ایس ایس کے ڈریس کوڈ یعنی خاکی نیکر اور سفید شرٹ ہے لیکن چند سال قبل نیکر کو پتلون سے بدل دیا گیا ہے۔
دوسری جانب آر ایس ایس کے ترجمان سنیل امبیکر نے کہا کہ ’حکومت کا موجودہ فیصلہ مناسب ہے اور انڈیا کے جمہوری نظام کو مضبوط کرتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم کی ملک اور سماج کی خدمت کی 99 سالہ تاریخ ہے۔ سنیل امبیکر نے کہا کہ ’اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے اُس وقت کی حکومت نے سرکاری ملازمین پر سنگھ یعنی آر ایس ایس جیسی تعمیری تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر بے بنیاد پابندی لگا دی تھی۔‘
لیکن آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے پابندی کے ہٹائے جانے کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے منافی قرار دیا۔
انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں ایکس پر لکھا کہ ’آر ایس ایس پر پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کہ اس نے اصل میں آئین، قومی پرچم اور قومی ترانے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ آر ایس ایس کا ہر رکن جو حلف لیتا ہے اس میں وہ ہندوتوا کو ملک سے اوپر رکھتا ہے۔ کوئی بھی سرکاری ملازم اگر وہ آر ایس ایس کا رکن ہے تو وہ قوم کا وفادار نہیں ہو سکتا۔‘
حزب اختلاف کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اپنے ایک ٹویٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اس سے سرکاری ملازمین کی غیر جانبداری متاثر ہو گی۔
ان کے مطابق ’مودی جی نے سرکاری ملازمین کے آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں شرکت پر سنہ 1966 سے عائد پابندیوں کو 58 سال بعد ہٹا دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بی جے پی کس طرح آر ایس ایس کا استعمال کر کے تمام آئینی اور خود مختار اداروں پر ادارہ جاتی طور پر قابض ہو رہی ہے۔‘
انھوں نے ایکس پر مزید لکھا کہ ’سرکاری ملازمین پر سے آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہٹا کر مودی جی نظریاتی بنیادوں پر سرکاری دفاتر اور ملازمین کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سرکاری دفاتر میں سرکاری ملازمین کی غیرجانبداری کے احساس اور آئین کی بالادستی کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔‘
وزیر اعظم مودی کی وزیر اعلی کی حیثیت سے آر ایس ایس کے پروگرام میں شمولیتنوٹیفیکیشن میں کیا ہے؟
ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ کی وزارت نے نو جولائی سنہ 2024 کو ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں 30 نومبر 1966، 25 جولائی 1970 اور 28 اکتوبر 1980 کو جاری کردہ میمورینڈمز (یادداشتوں) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ہدایات کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ متنازع میمورینڈم سے ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، آر ایس ایس ایس، کا ذکر ہٹا دیں۔‘
واضح رہے کہ انڈیا میں سرکاری ملازمین کے لیے دوران ملازمت کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی بھی ممنوع تھی لیکن اس میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ترمیم کی گئی اور سرکاری ملازمین کو بھی سیاسی جماعتوں کا حصہ بننے کی اجازت دے دی گئی۔
تاہم وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر موجود آل انڈیا سروسز (کنڈکٹ) رولز-1968 میں ’متفرق ایگزیکٹو ہدایات کے عنوان کے تحت ’آر ایس ایس، جماعت اسلامی، آنند مارگ اور سی پی ایم (ایل) جیسی بعض تنظیموں میں شرکت پر پابندی‘ کا ذکر جوں کا توں برقرار رہا لیکن اب اس میں سے آر ایس ایس کا ذکر ہٹا لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ آنند مارگ ایک پرانی جماعت ہے جو اب فعال نہیں رہی ہے جبکہ سی پی ایم ایل بائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ہے۔جماعت اسلامی سمیت ان جماعتوں پر پابندی تو عائد نہیں ہے مگر سرکاری ملازمین پر یہ پابندی ضرور عائد ہے کہ وہ ان تین جماعتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتے ہیں۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق حالیہ حکومتی فیصلہ ملک بھر کی عدالتوں میں دائر درخواستوں کے سلسلہ میں سامنے آیا ہے۔ مثال کے طور پر نو جنوری کو ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے ہماچل پردیش کوآپریٹو بینک کے سینیئر مینیجر سریش جسوال کے تبادلے پر روک لگا دی، جن کا اس بنیاد پر قبل از وقت تبادلہ کر دیا گیا تھا کہ ’وہ آر ایس ایس کے سرگرم رکن‘ ہیں۔
اسی طرح سنہ 2017 میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی جبل پور بینچ نے ڈیموکریٹک لائرز فورم کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضی کو خارج کر دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ریاستی حکومت کے اہلکاروں نے جنوری میں بلدیاتی انتخابات سے قبل جبل پور کے ایک گیسٹ ہاؤس میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔
بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی آر ایس ایس کی شاکھا میں شاملاس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
مبصرین اس فیصلے کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
بی جے پی سیاسی تنظیم ہے جسے شروع سے ہی آر ایس ایس جیسی غیر سیاسی تنظیم کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے لیکن انتخابات سے قبل بی جے پی کے سابق صدر جے پی نڈا کے ایک بیان نے دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی کا انکشاف کیا تھا۔
جے پی نڈا نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بی جے پی کو ماضی میں آر ایس ایس کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے پاس تنظیم سازی نہیں تھی لیکن اب وہ ’سکشم‘ ہے یعنی انتخابات کو خود اپنے بل بوتے پر سنبھالنے کے قابل ہے۔
ان کے اس بیان سے آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدیداروں میں تلخ کلامی نظر آئی۔
اور جب چار جون کو انتخابات کے نتائج آئے جس میں بی جے پی کو امید سے کم سیٹیں ملیں اس کے بعد آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اسے بی جے پی میں در آنے والے تکبر سے تعبیر کیا تھا۔ انھوں نے منی پور میں جاری تشدد پر بی جے پی خاموشی اور چین کے ساتھ تعلقات کی جانب بھی اشارہ کیا تھا۔
ہم نے اس کے متعلق دہلی کی جامیہ ملیہ اسلامیہ میں استاد پروفیسر سہراب سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’حکومت کے اس فیصلے سے چند باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ حکومت کا جو ہندوتوا کا عالمی نظریہ ہے یہ عین اس کے مطابق ہے۔
’یہ جس طرح سے سیکولرزم، جمہوریت اور آئین پر مبنی ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کو چیلنج کر کے جس ’نئے بھارت‘ کی بنیاد ڈال رہا ہے اس کی بنیاد ’میجیوریٹیرین ازم‘ یا اکثریت پسندی ہے۔‘
ان کے مطابق ہندوتوا اور آر ایس ایس کے نظریات اکثریت پسندی میں پیوستہ ہیں جو کہ اکثریت پسندی والی سیاست سے ہی آتی ہے، اس کا رول آف لا سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوتوا کے نظریات سب کو شامل کرنے میں یقین نہیں رکھتی۔ یہ ایک طرح سے ’ایکسکلوسو پالیٹکس‘ کو نافذ کر رہی ہے جس میں ’پالیٹکس آف سلیکٹیوٹی‘ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیمی، پی ایف آئی جیسے قوتوں کو ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسری قوتیں جو سوشلزم کے نظریات کے تحت کام کرتی ہیں انھیں نکسلزم کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ آر ایس ایس جیسی نظریاتی تنظیم جس کی تاریخ متنازع ہے اور جو شروع سے ہی دی آئیڈیا اف انڈیا، رول آف لا، اور آئین کو چیلنج کرتی آ رہی اسے جائز ٹھہرایا جا رہا ہے۔
پروفیسر سہراب نے کہا کہ ’اس طرح کے اقدام ضرور دستور کے خلاف ایک طرح کی نظریاتی دہشتگردی ہے۔‘
انھوں نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ انڈیا جیسے ملک میں جہاں مختلف نظریات کے حامل رہتے ہیں اس کے لیے یکساں قانون واضح کرے۔ یہ ’سلیکٹویٹی‘ بتاتی ہے اس دیش سے قانون کی حمکرانی ختم ہو رہی ہے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے یا آر ایس ایس سے کہے کہ وہ آفاقی جمہوری نظریات کی روشنی میں خود کی از سر نو تعریف کرے۔‘
یہ بھی پڑھیے
آر ایس ایس کی خواتین ونگصحافی اور سیاسی مبصر راہل دے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آر ایس ایس محض ایک سماجی تنظیم نہیں ہے۔ انھوں نے ستیہ ہندی میں شائع اپنے مضمون میں لکھا کہ ’سنگھ ایک ثقافتی-سماجی تنظیم کم اور سیاسی تنظیم زیادہ ہے۔ اسے چھپانا ناممکن ہے۔
’بی جے پی اس کا عوامی سیاسی ادارہ ہے۔ بی جے پی اور اس کی حکومتوں میں سنگھ کے عہدیداروں کی باقاعدگی سے تقرری کی جاتی ہے، سنگھ-حکومت-پارٹی میں تال میل اور رہنمائی کے لیے تنظیمی وزیر بنائے جاتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’سنگھ کی سفارش کے بغیر مرکز اور بی جے پی کی ریاستوں میں تعلیم، ثقافت، انتظامیہ، مالیات سمیت تمام اہم اور طاقتور محکموں اور اداروں میں تقرریاں نہیں ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جس پابندی کو 58 سالوں میں کسی بھی حکومت نے نہیں ہٹایا، ان حالات میں سرکاری ملازمین پر سے اس رسمی پابندی کو ہٹانے کا مطلب ہے تمام 40 لاکھ مرکزی ملازمین اور ایک کروڑ سے زیادہ ریاستی ملازمین کو سنگھ میں شامل ہونے، فعال ہو کر ان کا کام کرنے کے لیے کھلی سرکاری حوصلہ افزائی کرنا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ سنگھ پریوار کے لیے جشن کا موقع ہے لیکن اس کے دائرہ اثر سے باہر دیگر انڈینز کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ہماری جمہوریت کے سب سے پائیدار ستون، بچی کھچی انتظامی نظام کی بے خوفی، غیر جانبداری اور صرف عوامی مفاد میں کام کرنے کے عزم کو تباہ کر دے گا۔‘
مصنف صبا نقوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’سرکاری ملازمین کو آر ایس ایس میں شامل ہونے کی اجازت دینے والا یہ حکم مودی حکومت میں ایک دہائی تک جاری نہیں کیا گیا لیکن یہ اتحاد کے دور میں آیا ہے جب کچھ سیٹوں اور ریاستوں میں بی جے پی کے امیدواروں کے لیے آر ایس ایس کیڈروں کے کام نہ کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اندرونی جھگڑے کی باریکیوں کو سمجھنا اہم۔۔۔‘
نشٹولا ہببر نے دی ہندو میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان آنے والی دوریوں کو پاٹنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے یہاں تک لکھا کہ ’اس حکم کے علاوہ منگل کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں آر ایس ایس کے گزرے ہوئے (سرکردہ) افراد کے نام سے منسوب چند فلاحی پروگراموں کے اعلانات دیکھے جا سکتے ہیں۔‘