نتن یاہو کی معافی، حماس کی ’دھمکی‘ اور بین الاقوامی دباؤ: اسرائیل میں حکومت کے خلاف مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں اور آگے کیا ہو سکتا ہے؟

اسرائیل میں سات اکتوبر کے بعد حکومت اور خصوصی طور پر وزیر اعظم بنیامین تنن یاہو کے خلاف یہ سب سے بڑا احتجاج ہے جس میں شامل شرکا کے مطالبات میں حماس سے معاہدہ، جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی شامل ہیں۔ لیکن اس احتجاج کے پیچھے کون ہے اور نتن یاہو کی حکومت کے ساتھ ساتھ غزہ جنگ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
Israel Protest
Getty Images

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ہفتے کے دن غزہ میں چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد انھیں زندہ واپس لانے میں ناکامی پر شہریوں سے معافی مانگی ہے جبکہ ملک بھر میں ان کی حکمت عملی کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری جانب حماس کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہو سکا تو مذید اسرائیلی یرغمالی اپنے خاندانوں تک ’کفن میں لپٹے ہوئے واپس پہنچیں گے۔‘

نتن یاہو کی جانب معافی کی بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں احتجاج کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے اور برطانیہ نے حال ہی میں کچھ اسلحہ کی فروخت یہ کہتے ہوئے معطل کر دی ہے کہ اسے بین الاقوامی قانون کے خلاف استعمال کیے جانے کا خطرہ تھا۔

یاد رہے کہ اسرائیل کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد احتجاج کر رہے ہیں اور گذشتہ روز ملک بھر میں ہونے والی ہڑتال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد پہلی بڑی ہڑتال تھی۔ حال ہی میں جنوبی غزہ میں چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد سے احتجاج شروع ہوئے ہیں۔

مگر اب کیوں؟

اسرائیل، ہڑتال
Reuters

احتجاج کرنے والوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی راہ میں حائل ہیں۔

حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ نے طویل عرصے سے نتن یاہو کی حکمت عملی کو ناپسند کیا ہے لیکن ان کا غصہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سنیچر کو اسرائیلی فوج کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں زیرِ زمین سُرنگ سے چھ مغویوں کی لاشیں ملی تھیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان مغویوں کو فوجی اہلکاروں کے اس مقام پر پہنچنے سے پہلے قتل کیا گیا تھا۔

ان چھ افراد کی شناخت کارمل گاٹ، ایڈن یورشالمی، ہرش گولڈبرگ پولن، الیگزینڈر لوبانو، آلموگ ساروسی اور ماسٹر سجتاوری دانینو کے نام سے ہوئی ہے۔

ان میں تین افراد کے متعلق رپورٹ کیا گیا ہے کہ انھیں جولائی میں زیر بحث آنے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں چھوڑا جانا تھا۔

اسرائیل میں مظاہرین نے نتن یاہو کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’سربراہ بھی تم ہو الزام بھی تمھیں پر جائے گا۔‘

سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے حملے کے تقریباً 10 ماہ بعد بھی 97 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں جن میں سے 33 سے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔

مظاہرین کیا چاہتے ہیں؟

غزہ، جنگ
Getty Images

حماس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدے اور اس کے تحت 97 یرغمالیوں کی جلد از جلد رہائی مظاہرین کی پہلی ترجیح ہے۔

شیرون لیفشٹز، جن کے والد اوڈڈ ان یرغمالیوں میں سے ایک ہیں جو ابھی تک غزہ میں قید ہیں نے بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ ’چھ یرغمالیوں کا قتل، ہم اسی بات سے خوفزدہ تھے‘ اور اسی لیے حماس کے ساتھ ’معاہدے تک پہنچنے میں تاخیر‘ کی جا رہی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کا پیغام واضح ہے کہ وہ ایسا کرتے رہے گے جب تک کہ حماس کے ساتھ معاہدہ نہ ہو جائے اور ’ہمارے لوگ اپنے گھروں کو واپس نہ آ جائیں اور اس جنگ کو ختم نہ کر دیا جائے۔‘

یرغمالیوں کے خاندانوں کے فورم نے کہا ہے کہ ’تمام چھ افراد کو حماس کی قید میں تقریباً 10 ماہ تک بدسلوکی، تشدد اور بھوک برداشت کرنے نے بعد گذشتہ چند دنوں میں قتل کیا گیا ہے۔‘

ان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’معاہدے میں تاخیر ان کی اور دیگر بہت سوں کی موت کا سبب بنی ہے۔‘

احتجاج کون کروا رہا ہے؟

اسرائیل، ہڑتال
Reuters

جب یہ خبر پھیلی کہ حماس کی قید میں چھ قیدیوں کی لاشیں غزہ سے ملی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ پہلے زندہ تھے، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جس کے فوراً بعد ہی مزید مظاہروں اور عام ہڑتال کی کال دی گئی۔

ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ہستادروت اس ہڑتال کے پیچھے ہے اور اسے اسرائیل میں اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یرغمالیوں کی خاندانوں کے فورم نے عام عوام سے اس ہڑتال میں حصہ لینے اور ’ملک کو جام کر دینے‘ کی درخواست کی جس کے نتیجے میں ملک کی کئی اہم شاہراؤں اور دفاتر میں تعطل دیکھا گیا۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم یائیر لیپڈ نے ان مظاہروں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام شہری جن کے دل یرغمالیوں کی ہلاکت کے خبر سن کر ٹوٹ گئے ہیں ان مظاہروں میں شرکت کریں۔

اسرائیلی حکومت کا ردعمل کیا ہے؟

بنیامن نتن یاہو نے ان تمام الزامات کو رد کیا ہے کہ انھوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حماس پر عائد کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ یرغمالیوں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو پکڑ نہیں لیتا۔

حماس کے اہلکار عزت الرشق نے یرغمالیوں کی ہلاکتوں کے لیے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے پر رضامندی سے انکار کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن براہ راست یہ نہیں بتایا کہ یرغمالیوں کی موت کیسے ہوئی۔

اسرائیل میں سڑکوں، بینکوں، سکولوں اور ہوائی اڈوں پر بڑے پیمانے پر خلل پڑنے کے بعد، اسرائیل کی لیبر کورٹ نے فیصلہ دیا کہ عام ہڑتال مقامی وقت کے مطابق 14:00 بجے ختم ہونی چاہیے، لیکن مظاہرین نے اسے شام تک جاری رکھنے کا عزم کیا۔ یہ ہڑتال اصل میں دو دن تک جاری رہنے والی تھی۔

اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزلال سموٹرچ جنھیں ان کے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے جانا جاتا ہے نے اس ہڑتال کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عدالتی فیصلہ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلانٹجنھوں نے متعدد بار وزیر اعظم نتن یاہو پر جنگ بندی معاہدے کے لیے بات چیت کرنے پر زور دیا ہے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے اسرائیل کی سیکورٹی کابینہ سے مطالبہ کیا کہ وہ نیتن یاہو کے مذاکراتی مطالبات کی توثیق کو واپس لے۔

انھوں نے لکھا کہ ’ان یرغمالیوں کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے جنھیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے، مگر وہ یرغمالی جو اب بھی حماس کی قید میں ہیں انھیں گھر واپس ضرور لایا جائے۔‘

Israel Protest
Getty Images

اسرائیلی ان مظاہروں پر کیا کہتے ہیں؟

کئی شہروں اور میونسپلٹیوں کی جانب سے مظاہروں میں حصہ نہ لینے کے اعلان کے باوجود ہزاروں اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے۔

تل ابیب سے تامارا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ ہڑتال کے حق میں نہیں ہیں لیکن ہمیں اپنے یرغمال بنائے گئے افراد واپس چاہیے، مگر اب سب کچھ بند نہیں کر سکتے، ہمیں زندہ بھی رہنا ہے۔‘

نیوا بھی جو تل ابیب میں رہتی ہیں کا کہنا ہے کہ ’وہ ہڑتال کے باوجود اتنی ساری دکانیں کھلی دیکھ کر حیران ہیں۔‘ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عوام اس وقت انتہائی مزاحمتی موڈ میں ہے لیکن نتن یاہو سن ہی نہیں رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس تمام صورتحال میں کچھ تو تبدیل ہونا ہے ہم ہی ہمیشہ خوف میں کیوں زندہ رہیں۔‘

نتن یاہو کی حکومت پر کیا اثر پڑے گا؟

سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیل میں ہونے والے سب سے بڑے ان مظاہروںکا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ اس طویل متوقع جنگ بندی معاہدے کو محفوظ بنایا جا سکے۔

لیکن وزیر اعظم کے لیے عوامی سطح پر بہت زیادہ غصے کی وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ مظاہرے ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔

برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ اور وزیر خارجہ الیسٹر برٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کیونکہ (نیتن یاہو) اپنی کابینہ میں شامل کچھ لوگوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو نہیں چاہتے کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدہ کریں اور انھوں نے خود ایک ایساراستہ اختیار کیا ہے جہاں وہ صرف اپنے وعدے کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہے، حالانکہ یہ ناممکن ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts