مسلمان لڑکے کے ہاتھوں قتل کی منصوبہ بندی کی جھوٹی افواہیں واٹس ایپ پر وائرل کی گئیں جس کے بعد اُدے پور میں دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے مظاہرے شروع کر دیے، گاڑیوں کو نذر آتش کیا گيا اور املاک جلائی گئیں۔ اُدے پور کے باشندے اس بات سے حیران ہیں کہ ایک سادہ سی لڑائی نے کس طرح اس قدر طول پکڑا۔
دیوراج اپنے ہی ہم جماعت کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہوئےگذشتہ ماہ ایک ہم جماعت کے ہاتھوں 15 سالہ لڑکے کے قتل نے انڈیا کے ایک شہر میں ایسی مذہبی کشیدگی کو ہوا دی کہ اس میں دو خاندان بکھر کر رہ گئے۔
یہ واقعہ مغربی ریاست راجستھان کے سیاحتی شہر اُدے پور کا ہے۔
16 اگست کو حنا (فرضی نام) کو معلوم ہوا کہ اس کے نوعمر 15 سالہ بیٹے ذاکر (فرضی نام) پر ان کے سکول میں ایک ہم جماعت کو چاقو مارنے کا الزام ہے۔
ذاکر نے مبینہ طور پر اپنے بیگ سے چاقو نکالا اور ایک ہندو لڑکے دیوراج کو نشانہ بنایا جس کی تین دن بعد ہسپتال میں موت ہو گئی۔
اس واقعے نے غم و غصے کے ساتھ ساتھ کلاس رومز میں تشدد سے کیسے نمٹا جائے، اس پر بات چیت کو جنم دیا۔
اگرچہ اس واقعے کو بڑے پیمانے پر ملک بھر میں مذہبی عینک سے دیکھا گیا لیکن ریاستی پولیس نے اس واقعے میں کسی مذہبی زاویے کے ہونے کو مسترد کر دیا ہے۔ تفتیشی افسر چھگن پروہت نے بی بی سی کو بتایا: ’طالب علموں میں نوٹ بُک پر جھگڑا ہوا جو بگڑتا چلا گیا۔‘
بہر حال اس واقعے نے مذہبی تشدد کی لہر کو جنم دیا۔
جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں کہ مسلمان لڑکے ذاکر نے قتل کی منصوبہ بندی کی۔ یہ بات واٹس ایپ پر وائرل کی گئی اور اُدے پور میں دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے مظاہرے شروع کر دیے، گاڑیوں کو نذر آتش کیا گيا اور املاک جلائی گئیں۔ حکومت کی جانب سے کرفیو لگایا گیا اور انٹرنیٹ بند کر دیا گيا۔
چھگن پروہت نے کہا کہ ذاکر کو حراست میں لے کر انھیں نابالغ اصلاح مرکز بھیج دیا گیا جبکہ ان کے والد کو قتل کے لیے اُکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
چاقو مارنے کے واقعے کے بعد مظاہرے میں املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور متعدد گاڑیوں کو نذرآتش کر دیا گيااس واقعے کے اگلے دن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکمرانی والی ریاستوں میں ایک مانوس طریقے پر بلڈوزر نے حنا کے کرائے کے گھر کو منہدم کر دیا جس سے وہ اور اس کی چار بیٹیاں بے گھر ہو گئیں۔
حنا نے کہا کہ ’میرا بیٹا سزا کا مستحق ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ ایک بہتر انسان بننا سیکھے گا۔ لیکن اس کی وجہ سے پورے خاندان کو سزا دینے کی کیا ضرورت تھی؟‘
اگرچہ تشدد کم ہو گیا ہے، لیکن اُدے پور کے باشندے اس بات سے حیران ہیں کہ ایک سادہ سی لڑائی نے کس طرح اس قدر طول پکڑا کہ مذہبی منافرت اس قدر بھڑک گئی۔ اب بہت سے لوگوں کو خوف ہے کہ ان کے ایک زمانے میں مربوط ہندو مسلم محلوں کو مذہبی بنیادوں پر توڑا جا رہا ہے۔
حنا کے پڑوسیوں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’حالات بدتر ہو رہے ہیں اور ہم اسے محسوس کر سکتے ہیں۔‘
دیوراج کے خاندان کے لیے، اپنے بیٹے کو کھونے کے درد کے مقابلے میں باقی سب کچھ ہیچ ہے۔
ان کے والد پپو لال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ وہ خبر ہے جس سے ہر والدین خوفزدہ ہیں۔‘
دیوراج کے والد گھر سے ہزاروں میل دور کویت میں موچی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انھیں اس واقعے کا علم اس وقت ہوا جب ان کا بیٹا ہسپتال پہنچ چکا تھا اور جب تک وہ گھر پہنچتے، یہ اپنے ہوش میں نہیں تھا۔ وہ اپنے والد سے ملنے یا بات کرنے کا موقع ملنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
مسٹر لال نے کہا کہ اس صدمے نے ان کی بیوی اور انھیں ایک ایسی اداسی میں مبتلا کر دیا جس سے ان کے اندر غم و غصہ بڑھ گیا ہے۔
مسٹر لال نے کہا: ’ان کا گھر گِرا دیا گیا لیکن ہم نے اپنا بیٹا کھو دیا۔ گھر تو پھر بن سکتا ہے لیکن ہمارا بچہ؟ وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔‘
حنا کے گھر کو گرا دیا گیا اور خاندان کے خلاف کارروائی کی گئییہ واقعہ انڈیا اور ریاست راجستھان میں حکومت کرنے والی بی جے پی کے لیے ایک سیاسی زخم بن گیا ہے کیونکہ کچھ اپوزیشن رہنماؤں نے پارٹی پر سیاسی فائدے کے لیے مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ حنا جس گھر میں رہتی تھیں اسے گرا دیا گیا کیونکہ یہ غیر قانونی طور پر جنگل کی زمین پر بنایا گیا تھا۔ کارروائی سے ایک دن پہلے حنا کو نوٹس بھیجا گیا تھا۔
لیکن اس کے بھائی مختار عالم (فرضی نام) اس گھر کے اصلی مالک ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ کرایہ داروں کو آگاہ کر کے ان کے گھر کی مسماری کیسے ہوسکتی ہے۔ ’یہ میرا گھر تھا اور میں نے اسے بہت محنت سے بنایا تھا، وہ مجھے بتائے بغیر کیسے اسے مسمار کر سکتے ہیں؟‘
انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر ان کا مکان جنگلات کی زمین پر تھا تو علاقے میں جنگل کی زمین پر بنائے گئے باقی مکانات کیوں کھڑے ہیں۔
ادے پور کے محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار مکیش سینی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مناسب وقت پر‘ ان ڈھانچوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ابھی اس کے لیے ماحول ٹھیک نہیں ہے۔
ناقدین نے مکان کو مسمار کرنے کے وقت پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ کسی کو کسی دوسرے کے مبینہ جرم کے لیے کسی دوسرے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے سزا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اور آسام جیسی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بلڈوزر سے مبینہ ملزمان کے گھروں کے بلا تردد مسمار کیا جا رہا ہے۔ جبکہ افسران اسے اپنے امن و امان قائم کرنے کے اپنے سخت موقف کے شواہد کے طور پر فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
اس کے متاثرین میں ہندو خاندان شامل ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ مسماری غیر متناسب طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے، خاص طور پر مذہبی تشدد یا مسلمانوں کے خلاف احتجاج کے بعد۔
ایک ماہر سیاسیات عاصم علی نے کہا: 'اس کا اجتماعی سزا کے فرقہ وارانہ جواز کے علاوہ کوئی جواز نہیں جبکہ اتھارٹی عوامیت پسند سخت انصاف کے نفاذ کا کام کرتی ہے۔'
حکام کا کہنا ہے کہ ان کا گھر اس لیے گرایا گیا کہ وہ غیر قانونی طور پر جنگلات کی زمین پر تعمیر کیا گیا تھاانڈیا کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں جرائم کے الزام میں ملوث لوگوں سے منسلک جائیدادوں کو مسمار کرنے پر تنقید کی ہے اور کہا کہ وہ اس بارے میں رہنما خطوط جاری کرے گی۔
بی جے پی کے اُدے پور کے ایم پی منّا لال راوت نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ انہدام کا تعلق چاقو مارنے سے نہیں تھا۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ چاقو مارنے کا واقعہ اس لیے پیش آیا کہ ملزم طالب علم 'شدت پسندوں سے متاثر تھا' اور کہا کہ انھوں نے پولیس پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ قتل کسی 'بڑے رجحان' کا حصہ نہ بنے۔
اُدے پور میں سنہ 2022 کے بعد سے ایک ایسا سکون دیکھا گیا ہے جس کے اندر ہی اندر بے چینی ہے۔ اس وقت ایک ہندو شخص کا دو مسلمانوں نے سر قلم کر دیا تھا۔ انھوں نے اس حملے کی فلم بنائی اور اسے آن لائن پوسٹ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ کام ایک سیاست دان کی جانب سے توہین رسالت کی حمایت کے جواب میں ہے۔
اس قتل نے شہر میں کئی دنوں تک بڑے پیمانے پر احتجاج اور تشدد کو جنم دیا تھا۔
راجستھان پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’اس قتل کی یادیں آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ اسی لیے دو بچوں کی لڑائی فسادات میں بدل گئی۔ سیاست کی وجہ سے شہر کا امن خراب ہوا ہے۔'
لیکن مسٹر لال یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ لڑائی کو پہلے کس چیز نے اکسایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا اچھا لڑکا تھا۔ ’کوئی 15 سال کی عمر میں جتنا شرارتی ہو سکتا ہے وہ اتنا ہی شرارتی تھا، لیکن وہ پیارا اور معصوم بھی تھا۔‘
دیوراج کا گھر جہاں تعزیت کرنے والوں کا تانتا لگا ہوا ہےاس نے کمرے کے کونے میں دیوراج کی تصویر پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: ’اس نے سکول میں کبھی کسی سے لڑائی نہیں کی۔ وہ بڑا ہو کر پولیس میں جانا چاہتا تھا، انصاف کی آواز بننا چاہتا تھا۔‘
دیوراج کی موت کے بعد سے سینکڑوں لوگ تعزیت کے لیے اس خاندان کے چھوٹے سے گھر کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کا گھر زندگی سے بھرپور ایک محلے میں واقع ہے جہاں ہندو اور مسلمان برسوں سے ایک ساتھ سکون سے رہتے ہیں۔
لیکن مسٹر لال اور ان کی غمزدہ بیوی کے لیے تمام تعزیتیں بے معنی ہیں۔
انھوں نے تشدد یا اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے کے بارے میں بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب انتظامیہ کو دینا ہے۔ 'ہم صرف اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتے ہیں۔'
سکول کے معاملے کو سنبھالنے میں ناکامی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
مسٹر لال نے الزام لگایا کہ کوئی بھی ٹیچر دیوراج کے ساتھ ہسپتال نہیں گیا اور اسے اس کے دو ہم جماعت ساتھی موٹر سائیکل پر لے گئے۔
سکول کی پرنسپل ایشا دھرماوت نے اس الزام سے انکار کیا لیکن انھیں بعد میں غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے ہی طالب علموں سے کہا تھا کہ وہ دیوراج کو اپنی موٹر سائیکل پر لے جائیں تاکہ علاج میں کسی تاخیر سے بچا جا سکے اور وہ اور چار دیگر اساتذہ بھی فوراً ہسپتال پہنچے تھے۔
جیسے جیسے شہر معمول کی طرف لوٹ رہا ہے اس واقعے کے اثرات سب سے واضح طور پر اس سکول میں نظر آتے ہیں جہاں دونوں بچے پڑھتے تھے۔
سکول تقریبا ایک ہفتے بعد کھلا تو صرف ایک طالبعلم ہی وہاں پہنچا تھاچھرا مارنے کے واقعے کے بعد سکول ایک ہفتے تک بند رہا اور جس دن کھلا اس دن صرف ایک طالب علم سکول آیا تھا۔
وہ دو طالب علم جو دیوراج کے ساتھ ہسپتال گئے تھے پولیس نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ ان دونوں نے حفاظتی خدشات کے پیش نظر جلد ہی شہر چھوڑ دیا۔ اب بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے والے والدین ان کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ایک والدین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'بچوں کو اس وقت تک سیاست سے دور رکھا جانا چاہیے جب تک کہ وہ دنیا کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس واقعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔'
دریں اثنا، حنا اپنی زندگی کو ایک ساتھ جوڑنے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'میرا آدھا سامان ابھی بھی (مسمار کیے گئے مکان کے ملبے کے نیچے) دفن ہے۔ اور کوئی مجھے مکان کرائے پر نہیں دینا چاہتا۔'
وہ آج بھی اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے بیٹے کو چاقو کیسے ملا یا اور اس نے مبینہ طور پر اسے اپنے دوست پر کیوں استعمال کیا۔ کیا یہ اس کی گرتی ہوئي دماغی صحت کا نتیجہ تھا، یا بچکانہ دشمنی تھی یا کچھ اور؟ وہ اس بارے میں نہیں جانتی۔
لیکن وہ اتنا جانتی ہے کہ انھیں ہمیشہ کے لیے اس تشدد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت اور ایک خوفناک والدین کے طور پر دیکھا جائے گا۔
'میرا سب کچھ چھین لیا گیا ہے، اب اگر لوگ میرے بچے کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں تو پھانسی پر لٹکا دیں، میں اور کیا کہوں؟'
(ملزم اور اس کے خاندان کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں کیونکہ انڈین قوانین نابالغ مجرموں کی شناخت کی اجازت نہیں دیتے۔)