کالعدم حزب التحریر جسے شیخ حسینہ کے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں منظر عام پر آنے کا موقع ملا

حزب التحریر کا دعویٰ ہے کہ تنظیم کے کارکن 5 اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے میں سڑکوں پر طلبہ کے ساتھ احتجاج کر رہے تھے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے تنظیم کے ترجمان امتیاز سلیم نے بتایا کہ حزب التحریر ایک نظریاتی اسلامی سیاسی تنظیم ہے نہ کہ کوئی عسکریت پسند یا دہشتگرد تنظیم۔
حزب التحریر
BBC
بنگلہ دیش میں حکومت کے خاتمے کے دو دن بعد 7 اگست کو پارلیمنٹ کے سامنے حزب التحریر کا احتجاج

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد کالعدم تنظیم حزب التحریر ایک دفعہ پھر توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔

تنطیم کی جانب سے بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ میں ایک درخواست جمع کروائی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 2009 میں عوامی لیگ کی حکومت کی جانب سے حزب التحریر پر لگائی گئی پابندی ہٹائی جائے۔ درخواست میں اس مطالبے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف عوام کی بغاوت میں تنظیم کے کارکنوں کا بھی ہاتھ تھا۔

حال میں تنظیم ںے ڈھاکہ میں واقع قومی پریس کلب میں ایک پریس کانفرینس کی اور اس میں تنظیم پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

حزب التحریر کا دعویٰ ہے کہ تنظیم کے کارکن 5 اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے میں سڑکوں پر طلبہ کے ساتھ احتجاج کر رہے تھے۔

بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے تنظیم کے ترجمان امتیاز سلیم نے بتایا کہ حزب التحریر ایک نظریاتی اسلامی سیاسی تنظیم ہے، نہ کہ کوئی عسکریت پسند یا دہشتگرد تنظیم۔

’سنہ 2009 تک تنظیم کے باقاعدہ دفاتر ہوا کرتے تھے اور یہاں مختلف سیاسی شخصیات اور صحافیوں وغیرہ کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔‘

تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ان پر تشہیری مواد تقسیم کرنے پر پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کیونکہ انھوں نے عوامی لیگ حکومت کی 2009 میں فوج کے خلاف ’سازش‘ کو بے نقاب کیا تھا۔

حزب التحریر کے ترجمان امتیاز سلیم نے کہا ’ہمیں صرف ایک پریس نوٹ ملا۔ اس پر کوئی سیریئل نمبر درج نہیں تھا نہ ہی اس میں کسی قانون کا ذکر تھا جس کے تحت ہمیں کالعدم قرار دیا گیا۔‘

'ہمیں صرف طاقت کے ذریعے آمرانہ انداز میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے سے روک دیا گیا ہے۔'

انھوں نے کہا کہ ’جمات اسلامی کو بھی اسی طرح کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ انھیں بھی صرف ایک نوٹیفیکیشن دیا گیا تھا۔ لیکن ہمارے کیس میں انھوں نے وہ بھی نہیں کیا۔ اگر جماعت اسلامی پر پابندی ہٹا دی جائے تو ہم انھیں مبارک باد پیش کریں گے۔‘

’تاہم ہم چاہیں گے کہ ہمارے ساتھ بھی اسی طرح انصاف ہو۔‘

حزب التحریر
BBC
کالعدم تنظیم حزب التحریر کے ترجمان امتیاز سلیم

جب 2009 میں حزب التحریر پر پابندی عائد کی گئی

نظریاتی طور پر حزب التحریر کا مقصد پوری دنیا میں ’اسلامی خلافت‘ قائم کرنا ہے۔ وہ جمہوریت کے مخالف ہیں۔ حزب التحریر چاہتی ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں آئین تخلیق کی جائے۔ اس حوالے سے تنظیم کے پاس آئین کا ایک مسودہ بھی موجود ہے۔

حزب التحریر پر مختلف اوقات میں دنیا کے کچھ عرب ممالک، جرمنی، ترکی اور پاکستان میں پابندی لگائی گئی جبکہ جنوری 2024 میں برطانیہ میں بھی اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔

مختلف ممالک میں پابندی کے حوالے سے تنظیم کا بیان ہے کہ مختلف سیاسی حقائق کی وجہ سے دنیا کے بعض ممالک میں حزب التحریر کی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ تاہم یہ تنظیم امریکہ اور کینیڈا سمیت کئی ممالک میں قانونی طور پر کام کررہی ہے۔

حزب التحریر
BBC
2009 میں وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ پریس نوٹ

بنگلہ دیش میں 22 اکتوبر 2009 کو عوامی لیگ کی حکومت کی جانب سے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا اور حزب التحریر پر پابندی کا اعلان کیا۔ پریس نوٹ میں تنظیم کو ’امن و امان اور عوامی تحفظ کے لیے خطرہ‘ قرار دیا گیا۔

انسانی حقوق کے کارکن نور خان لٹن ایک عرصے سے بنگلہ دیش میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب حزب التحریر پر پابندی لگائی گئی تو عوامی لیگ کی حکومت نے تنظیم پر کئی الزامات لگائے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’تنظیم کے خلاف ملک کے اندر اور بیرون سے متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں۔ تاہم اس وقت یہ کہنا ممکن نہیں کہ ان شکایات کی تحقیقات ہوئی تھیں یا نہیں۔ حکومت نے ایک پریس نوٹ جاری کر کے حزب التحریر کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی۔‘

’تاہم اس کے باوجود ہم نے ملک بھر میں حزب التحریر کے پوسٹر، کتابچے اور مختلف اوقات پر اس کے ارکان کی گرفتاریاں دیکھیں۔ حزب التحریر پر ایسے وقت پابندی عائد کی گئی تھی جب ملک کے اندر کئی عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم تھیں اور مسلح حملوں کے واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے تھے۔‘

حزب التحریر
BBC
حزب التحریر کے آئین کا مسودہ

بنگلہ دیش میں کالعدم حزب التحریر کی کھلے عام سرگرمیاں

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے دو دن بعد 7 اگست کو حزب التحریر کے کارکن بنگلہ دیش کی قومی پارلیمنٹ کے سامنے میٹنگ کرتے ہوئے دیکھے گئے۔

کارکن وہاں سیاہ اور سفید رنگوں والے جھنڈوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ انھوں نے بینرز اور کتابچے بھی پکڑے ہوئے تھے جن میں خلافت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسی دن تنظیم کے کارکنوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے سامنے بھی میٹنگ کی۔

اس کے علاوہ حزب التحریر نے ڈھاکہ میں اور ڈھاکہ کے باہر مختلف جلسوں اور جلوسوں کا عوامی پروگرام بھی بنایا ہے۔

تنظیم نے مختلف مقامات پر لوگوں کو ان جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لینے کے لیے سٹال لگا کر مدوع کیا۔

جب اگست میں ملک میں سیلاب آیا تو حزب التحریر نے ڈھاکہ میں ایک بڑا احتجاجی مارچ منعقد کیا۔ مارچ میں انھوں نے ایک بینر پکڑا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’انڈیا کا آبی حملہ‘۔

حزب التحریر نے 9 ستمبر کو ڈھاکہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بلائی اور تنظیم پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔اس صورتحال کو حکومت کے خاتمے کے بعد حزب التحریر کی سیاست میں آنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

حزب التحریر
BBC
حکومت کے خاتمے کے بعد سے حزب التحریر کھل کر سامنے آ گئی ہے

تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکنوں نے حکومت گرانے کی طلبہ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ تنظیم کے ترجمان امتیاز سلیم نے بتایا کہ سرکاری اور نجی یونیورسٹیز میں پڑھنے والے ان کے کارکنان تنظیم کے بینر کے بغیر میدان میں کھڑے تھے۔

امتیاز سلیم کا کہنا تھا کہ ’جین زی کو حزب التحریر میں شامل کرنا ہماری فکری اور سیاسی قیادت کا حصہ ہے۔ ہم یقینی طور پر طلبہ تحریک کا حصہ تھے اور طلبہ کے ساتھ میدان میں تھے۔ تاہم یہ تحریک ایک عوامی بغاوت ہے۔ اسے کسی بھی سیاسی جماعت سے منسوب کرنا درست نہیں۔ اس لیے ہم جب میدان میں اترے تو ہم نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ہمارا بینر کہیں نظر نہ آئے۔‘

تاہم انھوں نے فیلڈ میں کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد اور ان میں سے کتنوں کی ہلاکت ہوئی یہ بتانے سے گریز کیا۔ انھوں نے کہا کہ حزب التحریر پابندی کے خاتمے سے قبل یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی کہ بنگلہ دیش میں تنظیم کی اعلیٰ قیادت کون ہے۔

حزب التحریر
BBC
5 ستمبر کو حزب التحریر نے وزارت داخلہ سے اپنی تنظیم پر پابندی واپس لینے کی اپیل کی

اس بارے میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا کیا موقف ہے؟

گذشتہ حکومت کے دوران وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری کردہ بیان میں حزب التحریر کو ایک ’ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم‘ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت کے دوران تنظیم کی جو سختی تھی اس میں نرمی آئی ہے۔

کئی لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ حزب التحریر کو بنگلہ دیش میں ماضی میں کبھی اتنا متحرک اور فعال نہیں دیکھا گیا۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد تنظیم کے کئی رہنما جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ تاہم عبوری حکومت یہ واضح نہیں کر رہی کہ وزارت داخلہ حزب التحریر کے تنظیم پر پابندی ہٹانے کے مطالبے اور اس کی عوامی سرگرمیوں کو کیسے دیکھ رہی ہے۔

اس سلسلے میں جب بی بی سی نے سیکرٹریٹ میں امور داخلہ کے مشیر سے ملاقات کی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے بات کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ کسی بھی میڈیا کو انٹرویو نہیں دیں گے۔ اگلے دن بھی مشیر داخلہ نے کالعدم تنظیم کے موضوع سے گریز کیا حالانکہ وزارت میں بریفنگکے دوران ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تھا۔

عبوری حکومت کے مشیر اور طلبہ تحریک کے کوارڈینیٹرز میں سے ایک ناہد اسلام نے حزب التحریر کے حوالے سے حکومت کے موقف پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ حزب التحریر ایک کالعدم تنظیم ہے اور اس کی یہ حیثیت برقرار ہے۔

’حکومت اب امن و امان کے ماحول کو بحال کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور پولیس کو فعال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔‘

ناہد اسلام نے بتایا کہ حکومت کے پاس موجودہ صورتحال کے پیش نظر حزب التحریر کے حوالے سے کوئی فیصلہ یا منصوبہ نہیں ہے۔

’لیکن اگر حزب التحریر یا کوئی تنظیم اپنا موقف واضح کرنا چاہتی ہے تو ان کے پاس موقع ہے۔ وہ حکومت سے مذاکرات کریں۔ مذاکرات کے ذریعے یہ معمالہ کسی مرحلے میں پہنچ جائے گا۔ تاہم جب تک ان پر پابندی ہے تب تک ان کا عوامی سطح پر سرگمیاں انجام دینا قانون کے خلاف ہو گا۔‘

بنگلہ دیش
BBC
عبوری حکومت کے مشیر ناہد اسلام

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نور خان لٹن نے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر نہیں چاہتے کہ کسی سیاسی تنظیم پر پابندی لگائی جائے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی تنظیموں کے بارے میں معاشرے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

’جب اس طرح کی تنظیمیں بنگلہ دیش میں آگے آنے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ یقینی طور پر ایک تشویشناک بات ہے کیونکہ ہم نے انھیں عوامی سطح پر سیاست میں اس طرح کبھی نہیں دیکھا ہے۔ شروع سے ہی ان پر دباؤ رہا ہے یا پھر ان تنظیموں نے خود ہی کوئی ایسی سرگرمی انجام دی ہے جو پوری طرح خفیہ نہیں تھی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’خاص طور پر ان تنظیموں کے پوسٹرز میں ہم نے ہمیشہ جمہوریت کی بجائے دوسرے الفاظ کا استعمال دیکھا ہے۔ پابندی سے پہلے اور پابندی کے بعد بھی میں نے زیادہ تر یہی دیکھا ہے کہ یہ تنظیمیں فوج کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے بیانات پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس لیے جب ہم کالعدم تنظیموں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں ان پہلوؤں پر بھی غور کرنا چاہیے۔‘

حزب التحریر
BBC
نور خان لٹن

بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے میڈیا کے بیانات میں حزب التحریر کو ایک ’کالعدم عسکریت پسند تنظیم‘ کہا جاتا تھا۔

تنظیم سے وابستہ افراد کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے عسکریت پسندوں کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔

عبوری حکومت کے مشیر ناہد اسلام کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت عسکریت پسندی کے مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔

بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ان کی حکومت دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف سخت موقف اختیار کرے گی۔

ناہد اسلام نے کہا ’ہم نے دیکھا ہے کہ عسکریت پسندی کو مسئلہ بنا کر کئی بار بے گناہ لوگوں کو سزا دی گئی ہے۔ پچھلی حکومت نے ہمیشہ عسکریت پسندی کے مسئلے کو اپنے اقتدار کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔‘

’اگر عوامی لیگ چلی جاتی ہے تو یہاں عسکریت پسندی بڑھ جائے گی۔ ہمیں ان حساس معاملات کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ تاہم ہم کسی بھی قسم کی عسکریت پسند، دہشت گرد اور ریاست مخالف سرگرمیوں کو معاف نہیں کریں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US