اتوار کو اروند کیجریوال نے اچانک اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفی دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’صرف سپریم کورٹ کا فیصلہ کافی نہیں ہے۔ میں عوام کے پاس جاؤں گا اور جب وہ مجھے ایماندار مانیں گے تبھی میں واپس اس کرسی پر آؤں گا۔‘

دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے آج اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ وہ گذشتہ چھ مہینے سے جیل میں تھے اور گذشتہ ہفتے ہی سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔
اتوار کو انھوں نے اچانک اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفی دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’صرف سپریم کورٹ کا فیصلہ کافی نہیں ہے۔ میں عوام کے پاس جاؤں گا اور جب وہ مجھے ایماندار مانیں گے تبھی میں واپس اس کرسی پر آؤں گا۔‘
ان کی جگہ ان کی ایک وزیر اور قریبی ساتھی آتشی کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا ہے۔
کیجریوال کی حکومت پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے ریاست میں شراب کی فروخت سے متعلق حکومت کی ایکسائز پالیسی میں تبدیلیاں کر کے سارے ٹھیکے جنوبی انڈیا کی بعض شراب کی کمپنیوں کو سستے داموں پر دیے جس کے عوض ان کمپنیوں نے انھیں مبینہ طور پر سو کروڑ روپے بطور رشوت دیے۔
ایجنسی نے الزام عائد کیا کہ یہ پیسہ چند سال پہلے گوا کے الیکشن میں انتخاب لڑنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بعد میں سی بی آئی نے بھی ان کے خلاف ایک مقدمہ درج کر لیا۔ اس معاملے میں ان کے نائب وزیر اعلیٰ اور ایک دیگر وزیر اور پارٹی کے ایک ترجمان سمیت کئی بزنس مین اور دیگر لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ ایجنسیاں ڈیڑھ سال سے جاری تفتیش کے باوجود پیسے کے لین دین کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکیں۔ اس معاملے میں ابھی تک ان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی ہے۔

اس وقت دلی کی منتخب حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ بدعنوانی کے الزامات اور پھر کیجریوال اور ان کے کئی وزرا کی گرفتاریوں نے عام آدمی پارٹی (آپ) کی حکومت کی مشکلات اور بڑھا دی تھیں۔
کیجریوال ایک ایسے سیاست دان ہیں جو مودی ہی کی طرح ایک قوم پرست رہنما ہیں لیکن مودی اور بی جے پی کے برعکس ان کی قوم پرستی میں سبھی شامل ہیں اور وہ کسی کو نشانہ نہیں بناتے۔
ان کی حکومت انڈیا کی واحد ایسی ریاست ہے جس کے سالانہ بجٹ میں خسارے کے بجائے بجٹ سرپلس ہوا کرتا تھا۔ ان کی قیادت میں دلی کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے کل بجٹ کا جتنا حصہ مختص کیا وہ شاید انڈیا کی کسی ریاست نے نہیں کیا ہے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب انھیں وزیر اعظم مودی کے متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خطرہ محسوس کرنے لگی تھی۔ کیجریوال سیاست میں آنے سے پہلے انکم ٹیکس کمشنر تھے۔
اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر انھوں نے دلی کی غریب بستیوں میں دس برس کام کیا ہے۔ استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر مجھے پیسے کمانے ہوتے تو انکم ٹیکس کمشنر کی نوکری بہت اچھی تھی۔ بہت پیسے کما سکتا تھا لیکن میرے اندر ملک کے لیے کچھ کرنے کی تمنا تھی اس لیے میں سیاست میں آیا ہوں۔‘
سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے انھیں ضمانت پر رہا کیا ہے اور اس میں ایسی شرطیں رکھی گئی ہیں جس کے تحت وہ وزیراعلیٰ کے طور پر کوئی ذمہ داری ادا نہیں کر پاتے۔
انھیں سرکاری کاغذات پر دستخط کرنے کی ممانعت تھی۔ وہ وزیرِ اعلیٰ کے طور پر کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ان حالات میں ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور ایک بار پھر عوام کے درمیان جائیں اور ان کی ہمدردیاں حاصل کریں۔

’بی جے پی اور کانگریس کے پاس کوئی نہیں جو کیجریوال کو چیلنج کر سکے‘
بی جے پی کی رہنما اور دلی سے رکن پارلیمان بانسری سوراج نے کیجریوال کے استعفیٰ اور آتشی کو نیا وزیر اعلیٰ نامزد کیے جانے پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’آتشی تو محض ایک چہرہ ہے۔ اس سے کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔ کیجریوال کی حکومت کرپٹ تھی اور کرپٹ رہے گی۔‘
تجزیہ کار آرتی جے رتھ کہتی ہیں کہ ’اروند کیجریوال کی سیاست کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک مظلوم کی طرح پیش کرتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’وہ ہمیشہ ہی ایسی سیاست کھیلتے آئے ہیں اور یہی ان کی طاقت ہے۔ وہ یہی کہیں گے کہ مجھے بی جے پی کام نہیں کرنے دے رہی ہے۔ میں نے محلہ کلینک کھولا، میں نے بہترین سرکاری سکول بنائے، رعایت پر بجلی دی، فری پانی دیا لیکن بی جے پی کی حکومت مجھے کام نہیں کرنے دیتی۔‘
ان کی پارٹی ایک کرپشن مخالف پارٹی کے طور پر تشکیل دی گئی تھی۔ ان کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں ان سے کیجریوال کی ساکھ کو کچھ نقصان ضرور پہنچا ہے۔
تاہم آرتی کہتی ہیں کہ ’سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ڈیڑھ سال کی تفتیش کے باوجود نہ کوئی ثبوت تلاش کر پائی نہ یہ پتہ چلا کہ مبینہ لین دین کا پیسہ کہاں سے آیا اور کس کے پاس گیا۔ تو ان سب سے کیجریوال کو تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہو رہا ہے لیکن پچھلے ایک برس سے دلی میں کوئی کام نہيں ہوا ہے۔ اس سے ان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ کیجریوال ایک بہت اچھے کمیونیکیٹر ہیں۔ وہ عوام سے رابطہ بنا لیتے ہیں۔ اگر وہ سڑک پر اترتے ہیں تو وہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری بات جو ان کے حق میں ہے وہ یہ کہ دلی میں بی جے پی کے پاس اور نہ ہی کانگریس کے پاس کوئی ایسا مقامی رہنما ہے جو کیجریوال کو چیلنج کر سکے۔
آشوتوش ایک صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے ابتدائی دنوں میں وہ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ انھوں نے کئی برس تک اروند کیجریوال کے ساتھ کام کیا ہے۔ بعد میں اختلافات کے سبب انھوں نے آپ پارٹی چھوڑ دی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اروند کیجریوال جیل میں تھے لیکن پارلیمانی انتخابات میں انھیں لوگوں کی ہمدردی اور حمایت نہیں مل سکی تھی۔ مجھے نہیں لگتا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے سے انھیں کوئی بڑا فائدہ ہو گا لیکن اس سے انھیں کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بدعنوانی کے الزامات سے کیجریوال اور آپ پارٹی کی جو شبیہ تھی اسے نقصان پہنچا ہے۔ اس کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا بہت مشکل ہے۔ لوگ دس برس کے ان کے دورِ اقتدار میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ وہ اپنے راستے سے بھٹک چکے ہیں۔ وہ جن قدروں اور اصولوں کو لے کر چلے تھے وہ بہت پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔‘

’سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی‘
اروند کیجریوال سیاست کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ وہ جو قدم اٹھاتے ہیں وہ ان کے حریفوں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات آئندہ سال فروری میں ہونے والے تھے۔
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاست میں جلد سے جلد الیکشن کروائے۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت دلی میں صدر راج نافذ کر سکتی ہے۔ انتخابات جتنی دیر سے ہوں گے کیجریوال کو بی جے پی اور مودی کے خلاف مہم چلانے کا اتنا ہی زیادہ وقت مل جائے گا۔
وہ آئندہ چند دنوں میں دلی کی سڑکوں پر اتر جائیں گے۔ ان کا منصوبہ ایک طویل مہم کا ہے۔ وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انھیں دلی کے ایک بڑے طبقے میں عوام کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا ہدف دلی کے اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر بی جے پی کو شکست دینا ہے۔
شاید بی جے پی ان کی اس اچانک حکمت عملی کے لیے تیار نہیں تھی۔ کیجریوال نے دلی میں بی جے پی کو تین بار شکست دی ہے۔ ایک بار پھر سیاسی شطرنج کی بساط بچھ گئی ہے۔ یہ کیجریوال کے لیے سیاسی اعتبار سے جینے اور مرنے کی لڑائی ہے۔
دلی میں شکست کیجریوال کے سیاسی مستقبل کو مصیبت میں ڈال سکتی ہے لیکن کيجریوال کا کہنا ہے کہ ’جنگ انھوں (بی جے پی) نے شروع کی ہے ختم دلی کے عوام کریں گے۔‘