لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ حزب اللہ کے خلاف پہلے پیجر اور پھر واکی ٹاکی حملوں میں اب تک 32 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ کشیدگی ’ڈرامائی طور پر بڑھنے کا سنگین خطرہ ہے۔ انھوں نے تمام فریقوں سے ’زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے‘ کی درخواست بھی کی۔
حزب اللہ جنازہ
Reuters

لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ حزب اللہ کے خلاف پہلے پیجر اور پھر واکی ٹاکی حملوں میں اب تک 32 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

لبنان کی وزارت صحت کے مطابق بدھ کے روز واکی ٹاکی پھٹنے کے تازہ حملوں میں 20 افراد ہلاک جبکہ 450 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اس سے قبل منگل کے روز ہونے والے پیجر دھماکوں میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال کئی پیجرز پھٹنے سے دو بچوں سمیت 12 افراد ہلاک اور 2800 زخمی ہوئے، جن میں ایران کے سفیر بھی شامل ہیں۔ حزب اللہ ان حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتا ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

اکتوبر 2023 سے جاری غزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئی ہیں جس سے خطے میں مزید کشیدگی کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس پیشرفت کو تشویشناک قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ کشیدگی ’ڈرامائی طور پر بڑھنے کا سنگین خطرہ ہے۔ انھوں نے تمام فریقوں سے ’زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے‘ کی درخواست بھی کی۔

اب تک ان حملوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

کب، کہاں اور کیا ہوا؟

منگل کی شام قریب ساڑھے تین بجے لبنان کے مختلف علاقوں میں پیجرز پھٹنے سے دھماکے شروع ہو گئے۔ یہ غیر واضح ہے کہ اب تک کتنے پیجرز پھٹے ہیں۔

لبنان میں ایک سپر مارکیٹ کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کے بیگ میں موجود پیجر میں دھماکہ ہوا۔ یہ شخص زمین پر گِرتا اور درد سے چلاتا ہے جبکہ آس پاس کے لوگ جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ دھماکے قریب ایک گھنٹے تک ہوتے رہے۔ اس کے فوراً بعد لبنان بھر کے ہسپتالوں میں زخمیوں کی آمد شروع ہو گئی۔

لبنان کی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ پیجر پھٹنے کے واقعات میں اکثر لوگوں کو چہرے، ہاتھ یا پیٹ پر چوٹیں آئی ہیں۔

اس کے بعد بدھ کے روز لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی مضافات میں واقع وادی بقاع اور جنوبی لبنان کے علاقے میں حزب اللہ کے زیر استعمال واکی ٹاکی پھٹنے کے واقعات ہوئے۔ واضح رہے کہ ان علاقوں کو حزب اللہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

بدھ کے روز بی بی سی کی ٹیم پیجر دھماکوں میں مرنے والے چار افراد کے جنازے میں شریک تھی جب لبنان کے مقامی وقت کے مطابق شام بانچ بجے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی گئی۔

اس کے بعد وہاں موجود سوگواروں میں افراتفری اور پریشانی دیکھی گئی اور اس کے بعد ملک کے دوسرے حصوں سے بھی دھماکوں کی اطلاعات سامنے آنے لگیں۔

متاثرین کون ہیں؟

حزب اللہ کے میڈیا آفس کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے والی ٹاکی حملوں میں 16 برس کے ایک لڑکے سمیت ان کے 13 جنگجو مارے گئے ہیں۔

دوسری جانب منگل کے روز پیجر دھماکوں سے ہلاک ہونے والوں میں سے دو افراد حزب اللہ کے دو ارکان پارلیمنٹ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ حزب اللہ کے ایک رکن کی بیٹی بھی ہلاک ہو گئی۔

زخمیوں میں لبنان میں ایران کے سفیر مجتبیٰ امانی بھی شامل ہیں۔ ایرانی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا کہ انھیں معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

لبنان کے صحت عامہ کے وزیر فراس ابیاد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو چہرے اور ہاتھوں پر زخم آئے ہیں۔

بی بی سی کے نیوز آور پروگرام میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر لوگوں کو ’چہرے اور خاص طور پر آنکھوں پر زخم آئے ہیں اور کچھ کے ہاتھ اور انگلیاں بھی کٹے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں پہنچنے والے لوگوں کی اکثریت سویلین لباس میں ہے اس لیے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ آیا ان کا تعلق حزب اللہ سے ہے یا نہیں۔‘

وزیر کا کہنا تھا ’لیکن متاثرین میں بہت سے بوڑھے اور بچے شامل ہیں، اس کے علاوہ بہت سے طبی کارکنان زخمی ہیں۔‘

برطانیہ میں قائم گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق لبنان سے باہر پڑوسی ملک شام میں اسی طرح کے دھماکوں میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

دھماکے
AFP

حزب اللہ کے زیرِ استعمال پیجرز کیسے پھٹے؟

تجزیہ کاروں نے ان حملوں پر سخت حیرت کا اظہار کیا ہے کیونکہ حزب اللہ اپنے حفاظتی اقدامات پر بہت فخر کرتی ہے۔

دوسری جانب کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ہیک کیے جانے کی وجہ سے پیجرز کی بیٹریاں زیادہ گرم ہو سکتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے یہ پھٹ گئے لیکن بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کا امکان نہیں، دھماکوں کی فوٹیج بیٹریوں کے زیادہ گرم ہونے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ پیجرز کے ساتھ ان کی تیاری کے دوران یا ٹرانزٹ کے دوران چھیڑ چھاڑ کی گئی اور وہ اسے ’سپلائی چین حملے‘ کا نام دیتے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار برائے سائبر امور جو ٹائیڈی کہتے ہیں کہ سائبر سکیورٹی کی دنیا میں سپلائی چین کے حملے بڑھتی تشویش کا باعث بنے ہیں اورحال ہی میں ہیکرز کی جانب سے مصنوعات تک رسائی حاصل کرنے کی وجہ سے بہت سے ہائی پروفائل واقعات پیش آئے ہیں۔

لیکن یہ حملے عام طور پر سافٹ ویئر پر کیے جاتے ہیں۔ ہارڈ ویئر سپلائی چین میں حملوں کا امکان کم ہوتا ہے کیونکہ ڈیوائس پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوتا۔

جو ٹائیڈی کے مطابق ’اگر یہ سپلائی چین حملہ تھا تو اس کے لیے بڑا آپریشن کیا گیا ہوگا۔ کسی فیکٹری میں پیجرز کو کھولا گیا ہوگا اور ان میں تبدیلی کی گئی ہوگی۔‘

سکیورٹی ماہر دمتری الپرووچ نے اس واقعے کو ’تاریخ کا سب سے بڑا سپلائی چین حملہ‘ قرار دیا۔

لبنان میں سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں داخل ہونے سے مہینوں پہلے ہییہ پیجرز کم مقدار میں دھماکہ خیز مواد سے بھرے ہوئے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے برطانوی فوج کے ہتھیاروں کے ایک سابق ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر قیاس کیا ہے کہ ان آلات کے پھٹنے کی وجہ ریموٹ کنٹرول طریقے سے ان تک رسائی ہے۔

برطانوی فوج کے سابق اہلکار اور ہتھیاروں کے ماہر نے کہا کہ ممکنہ طور پر پیجرز میں 10 سے 20 گرام فوجی گریڈ کا دھماکہ خیز مواد تھا۔ ان کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو ایک جعلی الیکٹرونک پرزے کے اندر چھپایا گیا ہوگا۔

موساد پر ایک کتاب کے مصنف یوسی میلمن کے مطابق ان دھماکوں سے تاثر ملتا ہے کہ یہ ’موساد کا آپریشن تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کسی نے حال ہی میں ان پیجرز میں دھماکہ خیز مواد یا وائرس نصب کیا جو کہ نہ صرف حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر بلکہ دیگر ارکان بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔

یوسی میلن کا کہنا تھا کہ ’موساد کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ بار بار حزب اللہ تک پہنچ سکتی ہے۔‘ مگر وہ کہتے ہیں کہ ان دھماکوں سے سٹریٹیجک سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

مصر کے سکیورٹی ماہر میجر جنرل محمد نور نے اسے ایک ’اختراعی سائبر واقعہ‘ قرار دیا اور یہ رائے دی کہ وائر لیس ڈیوائسز کو کبھی بھی محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ مصری وزارت داخلہ میں یہ سخت ہدایات تھیں کہ دہشتگردی یا فرقہ وارانہ واقعے کی اطلاع کے لیے ہمیشہ لینڈ لائن استعمال کی جائے۔

BBC
BBC

حزب اللہ پیجرز اور واکی ٹاکی کیوں استعمال کرتی ہے؟

حزب اللہ اسرائیل کی طرف سے لوکیشن ٹریکنگ سے بچنے کے لیے ایسے آلات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔

بدھ کے روز واکی ٹاکی حملوں کی تفصیلات ابھی سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن دھماکوں کے بعد سامنے آنے والی فوٹیجز میں تباہ شدہ ڈیوائسز پر جاپانی کمپنی ’آئی کام‘ (Icom) کا لیبل نظر آتا ہے۔

لبنان کے سرکاری خبر رساں ادارے این این اے کے مطابق وادی بقاع میں ایک شخص موبائل فون فروخت کرنے والی دکان میں واکی ٹاکی پھٹنے سے ہلاک ہوا۔

یہ وی ایچ ایف ریڈیو واکی ٹاکی جاپان کی الیکٹرانکس مصنوعات تیار کرنے والے کمپنی آئی کام (ICOM) کا وہ ماڈل ہے، جو اب تیار نہیں کیا جاتا۔

این این اے کے مطابق اسی ماڈل کا ایک واکی ٹاکی بعلبک قصبے میں ایک گھر میں پھٹا۔ فوٹیج میں گھر میں موجود میز اور دیوار کو پہنچنے والے نقصان کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ڈیوائس کے تباہ شدہ حصوں پر بھی ’آئی کام‘ کا لیبل نظر آتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹر سے بات کرنے والے سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ واکی ٹاکیز پانچ ماہ قبل حزب اللہ نے خریدے تھے۔

بی بی سی نے اس کمپنی کے برطانیہ میں موجود دفتر سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ پریس کے حوالے سے تمام معاملات جاپان میں موجود دفتر دیکھتا ہے۔ بی بی سی نے جاپان کے دفتر سے بھی رابطہ کیا تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب منگل کے روز پھٹنے والے پیجرز کے ٹکڑوں پر نظر آنے والے لیبل جس ماڈل کی طرف اشارہ کرتے ہیں اسے Rugged Pager AR-924 کہتے ہیں۔

تائیوان کی پیجر تیار کرنے والی کمپنی ’گولڈ اپولو‘ نے کہا ہے کہ لبنان میں استعمال ہونے والے پیجر ان کی کمپنی نے تیار نہیں کیے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کمپنی کے بانی سو چنگ کوانگ نے تائیوان کے شہر نیو تپائی میں کمپنی کے دفتر میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ پیجر یورپ کی بی اے سی (BAC) نامی ایک کمپنی نے تیار کیے ہیں جس کے پاس ’گولڈ اپولو‘ کا برانڈ استعمال کرنے کا لائسنس موجود ہے۔

کمپنی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ AR-924 ماڈل کے پیجر بی اے سی (BAC) نے تیار اور فروخت کیے تھے۔

’گولڈ اپولو‘ کے مطابق بی اے سی (BAC) کمپنی یورپی ملک ہنگری کے شہر بوداپسٹ میں واقع ہے۔

بدھ کو جب بی بی سی گولڈ اپولو سے بات کرنے پہنچی تو مقامی پولیس کمپنی کے دفاتر کا گھیراؤ کر رہی تھی، دستاویزات کا معائنہ کر رہی تھی اور عملے سے پوچھ گچھ کر رہی تھی۔

پیجرز چھوٹے وائرلیس آلات ہیں جو عام طور پر سیل فون کے بہت زیادہ عام ہونے سے پہلے مختصر ٹیکسٹ میسجز یا الرٹس بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔پیجر ڈیوائس کے ذریعے الرٹ بھی بھیجے جاتے ہیں۔

واکی ٹاکی
Getty Images

پیجر بذریعہ وائر لیس نیٹ ورک سگنل بھیجتا ہے۔ اسے اکثر ہسپتال اور سکیورٹی کمپنیاں استعمال کیا کرتی تھیں۔

سنہ 1996 میں حماس کے بم میکر یحییٰ عیاش کا فون ان کے ہاتھ میں پھٹنے اور ان کے قتل کے بعد سے حزب اللہ نے موبائل فونز کا استعمال ترک کر دیا تھا۔

حزب اللہ کے ایک کارکن نے اے پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ یہ پیجرز کا ایک نیا برانڈ تھا جسے گروپ نے پہلے استعمال نہیں کیا تھا۔

لبنان کے ایک سکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ تقریباً پانچ ماہ قبل ملک میں 5000 پیجرز لائے گئے تھے۔

سی آئی اے کی سابق تجزیہ کار ایملی ہارڈنگ نے کہا ہے کہ سکیورٹی کی یہ صورتحال حزب اللہ کے لیے یقیناً انتہائی شرمناک ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اتنے بڑے پیمانے پر حملے نہ صرف جسمانی طور پر نقصان دہ ہیں بلکہ یہ ان کے تمام حفاظتی آلات پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

پیجر
Getty Images

ان حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

ابھی تک کسی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم لبنان کے وزیر اعظم اور حزب اللہ نے ان کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔

وزیر اعظم نجیب میقاتی کا کہنا ہے کہ یہ دھماکے لبنان کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی اور ہر لحاظ سے ایک جرم ہیں۔

بدھ کے روز واکی ٹاکی حملوں کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ملک کے شمال سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں افراد کو اپنے گھروں میں باحفاٌت واپس لائیں گے۔

وزیر دفاع یوو گلانت نے کہا کہ اسرائیل اس ’جنگ میں ایک نئے مرحلے کا آغاز کر رہا ہے جبکہ ملک کے شمالی حصے میں اسرائیلی فوج نے اپنے ایک دستہ کو تعینات کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک سکیورٹی ذریعے نے ان کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ قرار دیا۔

ایک بیان میں ان حملوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے حزب اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو اس مجرمانہ جارحیت کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتی ہے جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو اس ’مجرمانہ جارحیت‘ کی سزا ضرور ملے گی۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی اور اسرائیلی حکام نے ایگزیوس کو بتایا کہ ان دھماکوں کی منصوبہ بندی ابتدائی طور پر حزب اللہ کے خلاف بھرپور حملے کا پہلا مرحلہ تھی۔

لیکن حالیہ دنوں میں اسرائیل کو تشویش ہونے لگی کہ شاید حزب اللہ ان کے منصوبے سے آگاہی رکھتی ہے اسی لیے جلد ہی یہ دھماکے کیے گئے۔

اسرائیلی حکام نے ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن زیادہ تر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے۔

لنکاسٹر یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر سائمن میبن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس اپنے ہدف کو ٹریک کرنے کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہے‘ تاہم انھوں نے ان حملوں کو بے مثال قرار دیا۔

برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کی ماہر لینا خطاب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیل کئی مہینوں سے حزب اللہ کے خلاف سائبر آپریشن کر رہا ہے۔ لیکن یہ سکیورٹی میں سب سے بڑی مداخلت ہے۔‘

EPA
EPA

کیا حزب اللہ اسرائیل تنازع مزید بڑھے گا؟

اس سے ملتے جلتے حملوں کی تاریخ موجود ہے جیسے 1996 میں اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی شاباک نے حماس کے ایک کارکن کے فون میں دھماکہ خیز مواد نصب کر کے انھیں ہلاک کیا تھا۔

حزب اللہ خطے میں اسرائیل کے پرانے دشمن ایران کا اتحادی ہے۔ یہ گروپ کئی مہینوں سے اسرائیل کے ساتھ نچلی سطح پر جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے اور اکثر اسرائیل کی شمالی سرحد پر راکٹ اور میزائل فائر کا تبادلہ کرتا رہتا ہے۔ دونوں طرف سے سرحد کے قریب رہنے والی تمام کمیونٹیز بے گھر ہو چکی ہیں۔

یہ دھماکے اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے ملک کے شمال میں رہائشیوں کی بحفاظت واپسی کو جنگ کا ہدف بنانے کے چند گھنٹے بعد ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے دورہ پر آئے ہوئے امریکی اہلکار سے کہا کہ اسرائیل ’اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے جو ضروری ہو گا کرے گا۔‘

اس سے قبل پیر کو اسرائیل کی ملکی سلامتی کے ادارے نے کہا تھا کہ اس نے حزب اللہ کی جانب سے ایک سابق سرکاری اہلکار کو قتل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔

اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین کشیدگی کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ اب تک دونوں فریقوں نے مکمل جنگ سے گریز کیا ہے تاہم خدشہ ہے کہ حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں کیونکہ حزب اللہ منگل کے دھماکوں کا جواب دینے کی دھمکی دے چکی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts