چینی حکومت کی جانب سے ارب پتیوں اور جائیداد کی خریدوفروخت اور ٹیکنالوجی سے لے کر مالیاتی شعبے تک کاروباروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے
چینی حکومت کی جانب سے ارب پتیوں اور جائیداد کی خرید و فروخت اور ٹیکنالوجی سے لے کر مالیاتی شعبے تک کاروباروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے’اب میں اس بارے میں سوچتا ہوں کہ میں نے یقینی طور پر غلط شعبے کا انتخاب کیا ہے۔‘
ژاؤ چن (فرضی نام) چین کے مالیاتی مرکز، شنگھائی میں ایک پرائیویٹ ایکویٹی فرم میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ان کی زندگی مشکل سے گزر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملازمت کے پہلے سال میں انھیں تقریباً ساڑھے سات لاکھ یوآن (106200 ڈالر) ادا کیے گئے۔ انھیں یقین تھا کہ جلد ہی ان کی تنخواہ دس لاکھ یوآن تک پہنچ جائے گی۔
مگر اب ان کی آمدن تین برس پہلے کی اس کمائی کا نصف رہ گئی ہے۔ ان کی تنخواہ پچھلے سال منجمد کر دی گئی تھی اور سالانہ بونس کا سلسلہ، جو اس آمدنی کا بڑا حصہ تھا، ختم ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ مالیاتی شعبے کی ’چمک دمک‘ ختم ہو گئی ہے اور وہ کام جو کبھی انھیں اچھا لگتا تھا اب اس میں وہ صرف ایک ’فائنانس ریٹ‘ یا مالیاتی چوہے بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ وہ عرفیت ہے جس کسے ژاؤ اور ان کے ساتھیوں کوآن لائن پہچانا جاتا ہے۔
ایک زمانے میں چین کی ترقی کرتی ہوئی معیشت، جس نے لوگوں کو جوش دلایا تھا، اب سست روی کا شکار ہے۔ ملک کے صدر شی جن پنگ ایک طبقے کی ذاتی دولت میں اضافے اور بڑھتے ہوئی عدم مساوات جیسے چیلنجز کے بارے میں ہوشیار ہو گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ارب پتیوں اور جائیداد کی خرید و فروخت اور ٹیکنالوجی سے لے کر مالیاتی شعبے تک کاروباروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ مشکلات کو برداشت کرنے اور چین کی خوشحالی کے لیے کوشش کرنے کے حوالےسے سوشلسٹ طرز کے پیغامات سامنے آ رہے ہیں۔
یہاں تک کہ مشہور شخصیات کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنے رتبے کی تشہیر میں کمی لائیں۔
لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی اور ملک کے ساتھ وفاداری ذاتی عزائم سے برتر ہے۔
لاکھوں یوآن تنحواہیں لینے والے چینی ملازمین کو بتایا گیا کہ ’کمیونسٹ پارٹی اور چین کے ساتھ وفاداری ذاتی عزائم سے برتر ہے‘اس ’یو ٹرن‘ سے ژاؤ چن کے دلکش طرز زندگی کو یقینی طور پر دھچکا لگا ہے۔ انھوں نے اس مرتبہ تعطیلات گزارنے کے لیے یورپ کی جگہ ایک سستے متبادل یعنی جنوب مشرقی ایشیا کا انتخاب کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اب ’بربری یا لوئی ویتوں‘ جیسے انتہائی مہنگے برانڈز سے دوبارہ خریداری کے بارے میں ’سوچیں گے بھی نہیں۔‘
لیکن کم از کم ان جیسے عام کارکنان کے قانون کی گرفت میں آنے کا امکان کم ہے۔ بینک آف چائنا کے سابق چیئرمین سمیت مالیاتی شعبے کے درجنوں حکام اور بینکوں کے سربراہان کو حراست میں لیا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق، جمعرات کو پیپلز بینک آف چائنا کے سابق نائب گورنر، فان ییفی کو دو سال کی مہلت کے ساتھ موت کی سزا سنائی گئی۔ فان کو 386 ملین یوآن سے زیادہ رشوت لینے کا قصوروار پایا گیا تھا۔
مالیاتی شعبہ دباؤ میں ہے۔ اگرچہ چند کمپنیوں نے عوامی طور پر اس کا اعتراف کیا ہے، لیکن بینکنگ اور سرمایہ کاری کے اداروں میں تنخواہوں میں کٹوتی چینی سوشل میڈیا پر ایک گرما گرم موضوع ہے۔
حالیہ مہینوں میں کم ہوتی تنخواہوں کے بارے میں پوسٹس کو لاکھوں لوگوں کے دیکھا ہے اور ’فنانس سے کریئر کی تبدیلی‘ اور ’مالیاتی شعبہ چھوڑنا‘ جیسے ہیش ٹیگز پر چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے رائے دی ہے۔
مالیاتی شعبے سے وابستہ کچھ افراد نے کووڈ کی وبا کے آغاز سے ہی اپنی آمدنی میں کمی دیکھی لیکن بہت سے لوگ سوشل میڈیا کی ایک وائرل پوسٹ کو ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جولائی 2022 میں، ایک سوشل میڈیا صارف نے ایک بڑی مالیاتی کمپنی کے ملازم اپنے 29 سالہ شوہر کی ساڑھے 82 ہزار یوآن کے بارے میں شیخی بگھاری تو اس پر لوگوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔
ایک فنانس ورکر اور عام ملازم کی اجرت کے درمیان بہت بڑا فرق دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے کیونکہ ملک کے امیر ترین شہر شنگھائی میں اوسط ماہانہ تنخواہ صرف 12 ہزار یوآن سے کچھ زیادہ تھی۔
اس ردعمل نے مالیاتی شعبے میں آمدنی کے بارے میں اس بحث کو دوبارہ شروع کر دیا جو اسی سال کے اوائل میں ایک اور آن لائن صارف کی طرف سے شروع کی گئی تھی۔
یہ پوسٹس چینی صدر کی طرف سے ’مشترکہ خوشحالی‘ کے مطالبے کے چند ماہ بعد سامنے آئیں جو کہ دولت کے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کی پالیسی ہے۔
اگست 2022 میں، چین کی وزارت خزانہ نے نئے قواعد شائع کیے جن کے مطابق اداروں کو ’اندرونی آمدنی کی تقسیم کو بہتر بنانے اور تنخواہ کے نظام کو سائنسی طریقے سے ڈیزائن کرنے‘ کی ضرورت ہے۔
اگلے سال، ملک میں بڑی بدعنوانی پر نظر رکھنے والے ادارے نے ’فنانس کے شعبے کی اشرافیہ‘ اور ’صرف پیسہ اہم ہے‘ جیسے نظریات پر تنقید کی، جس سے ملک میں جاری انسداد بدعنوانی مہم کے لیے مالیات کا شعبہ ایک واضح ہدف بن گیا۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایک ریاستی کنٹرول والے بینک کے مینیجر، ایلکس (فرضی نام) کے مطابق، یہ تبدیلیاں بڑے پیمانے پر لیکن خفیہ طریقے سے ہوئیں۔
’آپ اس حکم کو تحریری شکل میں نہیں دیکھیں گے- یہاں تک کہ اگر کوئی سرکاری دستاویز ہے بھی تو یہ یقینی طور پر ہماری سطح کے ملازمین کے لیے نہیں ہے۔ لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ اب اس [تنخواہوں] کی حد مقرر ہے۔ ہم صرف یہ نہیں جانتے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ حد کیا۔‘
الیکس کا کہنا ہے کہ آجر بھی کریک ڈاؤن کی رفتار سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں: ’بہت سے بینکوں میں احکامات غیر متوقع طور پر تیزی سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘
شنگھائی چین کے مالیاتی شعبے کا مرکز ہےان کے مطابق ’وہ فروری میں سالانہ رہنما اصول جاری کریں گے اور جون یا جولائی تک، سمجھ جائیں گے کہ تنخواہوں کی ادائیگی ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے بعد وہ لوگوں کی تنخواہ میں کٹوتی کے لیے کارکردگی کے اہداف قائم کرنے کے طریقے تلاش کریں گے۔‘
ژاؤ چن کا کہنا ہے کہ ان کے کام کا بوجھ نمایاں طور پر کم ہوا ہے کیونکہ بازارِ حصص میں کاروبار شروع کرنے والی کمپنیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے، اور مقامی کاروبار بھی کریک ڈاؤن اور کھپت میں کمی کی وجہ سے محتاط ہو گئے ہیں۔
ماضی میں ژاؤ کے کام میں اکثر نئے منصوبے شامل ہوتے تھے جو اس کی کمپنی میں سرمایہ لاتے تھے۔ اب اس کا دن زیادہ تر ماضی کے منصوبوں کے ڈیٹا کو ترتیب دینے جیسے کاموں میں گزرتا ہے۔
’ٹیم کا مورال بہت پست ہو چکا ہے، افسران کی پشت کے پیچھے ہونے والی بحث زیادہ تر منفی ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ تین سے پانچ سالوں میں کیا کرنا ہے۔‘
اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آیا لوگ بڑی تعداد میں مالیاتی شعبے کو چھوڑ رہے ہیں یا نہیں، حالانکہ کچھ جگہ نوکریاں ختم ہوئی ہیں۔ اب چین میں نوکریاں بھی بہت کم ہیں، اس لیے مالیاتی شعبے کی کم تنخواہ والی نوکری بھی برقرار رکھنے کے قابل ہے۔
لیکن مایوسی واضح ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا ’اگر آپ ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی نوکری چلی گئی ہے۔‘
ژاؤ چن کہتے ہیں کہ مالیاتی شعبے کے ملازمین کے لیے چاہت میں کمی صرف حکام میں ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر چینی معاشرے میں بھی پائی جاتی ہے۔
’ہم تو اب بلائنڈ ڈیٹنگ کے لیے بھی مطلوب نہیں ہیں۔ جب وہ سنیں گے کہ آپ مالیاتی شعبے میں کام کرتے ہیں تو آپ سے کہا جائے گا کہ آپ نہ آئیں۔‘