انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ممکنہ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ہوتے ہوئے آرٹیکل 370 کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ عمر عبداللہ ملک میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ہمیشہ کے لیے تو اقتدار میں نہیں رہیں گے۔‘

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 10 برسوں بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں نیشنل کانفرنس 42 نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے اور کانگریس سے اتحاد کے سبب حکومت بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔
کانگریس ان انتخابات میں چھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
خیال ہے کہ نیشنل کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ عمر عبداللہ دوسری مرتبہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوں گے۔
بی بی سی کے نامہ نگار رگھاویندر راؤ کو دیے گئے انٹرویو میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ممکنہ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے ہوتے ہوئے آرٹیکل 370 کی بحالی ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے ہمیشہ کہا ہے، پچھلے پانچ سالوں سے میں کہتا آیا ہوں کہ یہ امید کرنا کہ جن لوگوں نے ہم سے آرٹیکل 370 چھینا، وہ لوگ ہمیں اسے واپس دے دیں گے یہ تو بیوقوفی ہے۔‘
’ملک میں کبھی نہ کبھی تو حکومت بدلے گی، کبھی نہ کبھی تو ایک نئی حکومت آئے گی اور ایسی حکومت آئے گی جس کے ساتھ بیٹھ کر ہم کم سے کم بات کر پائیں گے۔‘
خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں انڈین آئین سے آرٹیکل 370 کا حذف کردیا تھا جس کے تحت اس کے زیرِ انتظام کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔
اس شق کے خاتمے کے بعد انڈیا کے تمام مرکزی قوانین ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کشمیر میں نافذ ہوگئے تھے۔
عمر عبداللہ ملک میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ہمیشہ کے لیے تو اقتدار میں نہیں رہیں گے، یہ تو بی جے پی والے بھی مانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے حکومت میں نہیں رہیں گے۔ کبھی نہ کبھی تو انھوں نے ہارنا ہوگا؟‘
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بی جے پی نے جموں کے علاقے میں 29 نشستیں جیتی ہیں، جبکہ 90 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے پاس 48 نشستیں ہیں۔
لیکن عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ ’یہ وہ اسمبلی نہیں ہے جس کا ہمیں حق ہے، یہ عارضی اسمبلی ہے اور اس اسمبلی کے ذریعے ہم اس اسمبلی تک پہنچیں گے جس کا وعدہ ہم سے اس ملک کے وزیرِ اعظم نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس ملے گا اور ہم اس کے انتظار میں ہیں۔‘

عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ ’حکومت بننے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس میں پہلی قرارداد یہی منظور ہونی چاہیے کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس ملے۔‘
نیشنل کانفرنس برسوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کی حامی رہی ہے۔
پاکستان میں رواں مہینے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جےشنکر بھی شرکت کریں گے۔
لیکن وہ واضح کرچکے ہیں کہ اس دورے کے دوران پاکستان اور انڈیا کے تعلقات زیرِ گفتگو نہیں آئیں گے۔
عمر عبداللہ اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بات چیت نہیں ہوگی، لیکن (انڈین وزیرِ خارجہ) پاکستان جا رہے ہیں۔ ایک چھوٹی شروعات ہے، کل تک وہ جانے کو بھی تیار نہیں تھے۔ یہ ایک چھوٹا ہی قدم سہی لیکن صحیح سمت کی جانب ہے۔‘
کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں نئی حکومت آرٹیکل 370 بحال کروا پائے گی؟
نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعت کانگرس آرٹیکل 370 کی اس کی اصل حالت میں بحالی کا مطالبہ نہیں رکھتی۔
کانگرس کا مؤقف رہا ہے کہ آرٹیکل 370 میں آئین کے مطابق ترمیم کی جانی چاہیے تھی اور وہ بی جے پی کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتے۔
انڈِین سیاسی تجزیہ کار ادتی مہتا کہتی ہیں کہ ’انتخابات سے قبل ہی نیشنل کانفرنس کے منشور میں ان کے نظریات واضح تھے۔
’اب ان کی تمام تر توجہ ریاستی حیثیت کی بحال پر مرکوز ہوگی اور اس معاملے پر دونوں جماعتیں متحد ہیں۔‘
’مرکزی حکومت نہ صرف سپریم کورٹ میں بلکہ انتخابی جلسوں میں بھی کہہ چکی ہے کہ وہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرے گی اور اب تمام نگاہیں ان ہی کی طرف ہوں گی۔‘
جموں اینڈ کشمیر سینٹر فار پیس اینڈ جسٹس سے منسلک اور سرینگر میں مقیم تجزیہ کار نادر علی بھی کسی حد تک ادتی سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
انھوں نے بی بی ہندی کو بتایا کہ ’آرٹیکل 370 کے حوالے سے جذبات اب بھی موجود ہیں اور میں یہ کہوں گا کہ کشمیریوں کے اس حوالے سے جذبات نہیں بدلیں گے۔‘
’لوگ سمجھتے ہیں کہ انھیں پہلے ریاستی حیثیت کی بحالی کو یقینی بنانا ہوا، اگر انھوں نے آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کیا تو ریاستی حیثیت کی بحال کا معاملہ مزید آگے بڑھ جائے گا۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی نئی حکومت مرکزی حکومت سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہے گی لیکن انھیں پارلیمان میں بی جے پی کی مخالف جماعتوں کی مدد کی بھی ضرورت ہوگی۔

نادر علی کے مطابق ’جب انھیں (ریاستی حکومت کو) وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتے ہیں تب پارلیمان میں کانگریس اور اس کا انڈیا اتحاد ریاستی حکومت کی مدد کر سکتا ہے۔‘
لوک سبھا کے سابق سیکریٹری جنرل پی ڈی ٹی اچاریا کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے جیسے معاملات میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی نئی حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ ’ان معاملات پر صرف پارلیمان ہی قانون سازی کر سکتا ہے۔‘
دیگر تجزیہ کار بھی اس نقطہ نظر پر متفق نظر آتے ہیں۔ سینیئر وکیل شادان فراصت کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں دیتے۔‘
’5 اگست 2019 کو جو تبدیلیاں ہوئی تھیں یا جو قانون بنائے گئے تھے وہ پارلیمان نے بنائے تھے، اس میں کوئی بھی ترمیم یا اس میں بحالی بھی صرف پارلیمان ہی کر سکتا ہے۔‘