روپ کنور ستی کیس میں نامزد تمام ملزمان 37 سال بعد بری: ’18 سالہ لڑکی کو شمشان گھاٹ پر جلتا دیکھنا خوفناک منظر تھا‘

انڈیا کی ریاست راجستھان کی عدالت نے مشہور روپ کنور ستّی کیس کے مزید آٹھ ملزمان کو بری کر دیا گیا جس پر خواتین کی 14 تنظیموں کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ستّی کے رواج کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

انڈیا کی ریاست راجستھان کی ایک عدالت نے روپ کنور نامی خاتون کو ’ستّی‘ کیے جانے کے کیس میں نامزد مزید آٹھ ملزمان کو بری کر دیا گیا جس پر خواتین کی متعدد نمائندہ تنظیموں کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ ستّی کی رسم کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

خواتین کی نمائندہ تنظیموں نے راجستھان کے وزیر اعلیٰ بھجن لال سے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی درخواست کی ہے۔

37 برس قبل راجستھان میں پیش نے والے اس واقعے میں ستّی (کسی خاتون کا اپنے خاوند کی ہلاکت کے بعد خود بھی موت کو گلے لگا لینا) ہونے والی روپ کنور نامی اس خاتون کی عمر صرف 18 سال اور چند ماہ تھی۔

37 سال بعد سامنے آنے والے فیصلے میں ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔

گذشتہ 37 برسوں کے دوران روپ کنور ستّی کیس میں پکڑے گئے تمام ملزمان ایک، ایک کر کے ملزمان بری ہو چکے ہیں۔

خواتین کی تنظیموں نے کیا کہا؟

فیصلے کے بعد خواتین کی 14 تنظیموں کے ایک گروپ نے مشترکہ بیان میں راجستھان کے وزیر اعلیٰ بھجن لال سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملزمان کو بری کیے جانے والے فیصلے کے خلاف سرکاری سطح پر اپیل فائل کریں تاکہ عوام کا نظامِ انصاف پر یقین قائم رہے۔

تنظیموں نے کہا کہ ابتدائی طور پر 31 جنوری 2004 کو 17 سے زائد افراد کو بری کر دیا گیا تھا۔ ’یہ معاملہ انتہائی لاپرواہی کا تھا۔‘

اُس وقت وزیر اعلی وسندھرا راجے کا مؤقف تھا کہ اس معاملے میں مزید قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔

تنظیموں نے کہا ہے کہ ’ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، 14 تنظیموں اور لوگوں کے ساتھ ہم نے راجستھان ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی۔ ہماری درخواست گذشتہ 20 سالوں سے زیر التوا ہے۔‘

ستّی کی رسم ہے کیا؟

’ستی‘ سنسکرت کے لفظ ’ست‘ سے مشتق ہے جس کے دو معنی ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف برمنگھم میں دینیات اور مذہب کے شعبے سے وابستہ انڈین سکالر شاردا سوگیرتھ راجہ کے مطابق اس کا پہلا معنی بااخلاق، نیکو کار، باعصمت، اچھی خاتون ہونا ہے۔

اس کا اطلاق ایک خاتون پر بھی ہوتا اور اس عمل پر بھی ہوتا ہے، جس میں ایک خاتون اپنے خاوند کی موت کے بعد اس کے ساتھ ہی اُس کی چتا پر اپنی مرضی سے زندہ جلتی یا پھر زندہ درگور ہو جاتی ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب دیوی ستی سے ہے جو ہندوؤں کے دیوتا شیو کی بیوی ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ان کے والد نے ان کے خاوند کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو انھوں نے اپنی جان دے دی۔

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی آزادی سے لے کر سنہ 1987 تک تقریباً 40 ستی کے واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 28 تو راجستھان کے سیکڑ ضلعے میں ہی رونما ہوئے لیکن روپ کنور کیس کو جو شہرت ملی وہ کسی کو نہیں ملی۔

چند ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ علاقوں میں اس لیے بھی اس رسم کی ترغیب دی جاتی تھی کہ وہاں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں بیوہ خواتین کی زندگی زیادہ مشکل تھی اور اس سے آسان مرنا ہوتا تھا جبکہ ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ چونکہ بیوہ کا جائیداد میں حق ہوتا تھا اس لیے گھر کے افراد بیوہ پر ستی ہونے کے لیے دباؤ ڈالتے تھے تاکہ خاندان میں دولت کی تقسیم نہ ہو۔

’روپ کنور پڑھی لکھی تھیں، قدامت پرست نہیں تھیں‘

اُس وقت کے ذرائع ابلاغ کی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ روپ کنور ستی نہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے خودکشی کی تھی۔

اُن کی شادی صرف سات ماہ قبل مل سنگھ نامی شخص سے ہوئی تھی جو شادی کے وقت بی ایس سی کے طالبعلم تھے اور اپنے خاندان کے ساتھ دیورالا میں رہتے تھے۔

روپ کنور کے سُسر استاد تھے جبکہ روپ کنور خود بھی ان پڑھ لڑکی نہیں تھیں۔ انھوں نے جے پور کے ایک پرائیویٹ سکول سے میٹرک کیا تھا۔

وہ کسی بھی طرح سے بنیاد پرست نہیں لگتی تھیں اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایسا کر سکتی ہیں۔ اپنی شادی کی تصاویر میں روپ کنور روایتی گھونگھٹ کے بغیر نظر آتی ہیں۔

تاہم بعدازاں ایسے دعوے سامنے آئے کہ کہ وہ ہر روز چار گھنٹے دیوی ستّی کی پوجا کرتی تھیں، گیتا پڑھتی تھیں اور پوجا پاٹ کرتی تھیں۔

روپ کنور کے معاملے میں پہلے یہ کہا گيا کہ وہ اپنی مرضی سے ستی ہوئيں لیکن بعد میں تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ آٹھ مہینے کے دوران بمشکل 20 دن ہی رہی تھیں، اور ایسے میں ان کا ستی ہونا جبری عمل تھا۔

گاؤں کے سرپنچ سمیت کئی عوامی نمائندے اب اس معاملے پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔

تاہم ایک بزرگ جو اُس وقت علاقے میں ایک استاد تھے، کہتے ہیں کہ ’ایک 18 سالہ لڑکی کی لاش کو شمشان گھاٹ پر جلتا دیکھنا ایک خوفناک منظر تھا۔‘

’یہ بھی حیران کُن تھا کہ اس دن دور دور سے لوگ اس تماشے کو دیکھنے کے لیے بے تابی سے گاؤں آئے تھے۔‘

روپ کنور کے والد بال سنگھ راٹھور نے بھی ستّی کیے جانے کی تقریب میں حصہ لیا تھا۔ اس دن ملک بھر سے تقریباً دو لاکھ لوگ ستّی مقام پر آئے تھے۔

ریاست کے ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’اس وقت کے وزیر داخلہ گلاب سنگھ شکتی وات ستی کی اس تقریب میں حکام کی مداخلت کے خلاف تھے اور اسے مذہبی معاملہ قرار دیتے تھے۔ ان کا واضح حکم تھا کہ پولیس اس معاملے میں مداخلت نہ کرے۔‘

منگو سنگھ شیخاوت، جو فوج میں تھے اور اس وقت گاؤں کے سرپنچ تھے، کہتے ہیں کہ اب گاؤں میں سب کچھ پرامن ہے اور ستّی کے واقعے جیسا کچھ نہیں ہے۔

اس واقعے کے بعد پولیس نے روپ کنور کے سُسر سمیر سنگھسمیت خاندان کے دیگر افراد اور خاندان کے مردوں کے سر منڈوانے والے حجام بنسیدھر اور آخری رسومات ادا کرنے والے پجاری بابل لال کو گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن بعد میں سب کے سب بری کر دیے گئے۔

عدالت میں کیا ہوا اور اُس وقت کی حکومت کا روّیہ کیا تھا؟

ستّی کے مقدمات کے لیے قائم خصوصی عدالت میں استغاثہ کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا۔

ملزمان کے وکیل امان چن سنگھ شیخاوت کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو بری کیا گیا ہے وہ واقعے کے وقت کم عمر تھے اور ان میں سے بعض طالبعلم تھے جن کے خلاف بعدازاں کوئی ثبوت نہیں ملے۔

اسی عدالت نے 31 جنوری 2004 کو بی جے پی لیڈر راجندر سنگھ راٹھور اور کانگریس لیڈر پرتاپ سنگھ کھچاریاوس اور روپکنور کے بھائی گوپا سنگھ راٹھور سمیت 25 لوگوں کو بری کر دیا تھا۔

واقعے کے فوراً بعد گرفتار کیے گئے لگ بھگ 32 لوگوں کو اکتوبر 1996 میں نیم کا تھانے، سیکر کی اے ڈی جے عدالت نے بری کر دیا تھا۔

ریاست کی راجپوت برادری اس معاملے پر کافی مشتعل تھی اور ان کا ماننا تھا کہ یہ ان کا مذہبی معاملہ ہے اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور ایم ایل اے بھی اس معاملے میں راجپوت برادری کے ساتھ شامل ہوئے۔

لیکن اس وقت کے بی جے پی لیڈر اور ذات کے لحاظ سے راجپوت ہونے کے باوجود بھیرو سنگھ شیخاوت اس کے خلاف ڈٹے رہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک بُری روایت ہے اور جدید معاشرے کو ایسی روایات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔

بھیرو سنگھ شیخاوت نے راجپوت برادری کی طرف سے نکالے گئے مارچ میں بھی شرکت نہیں کی۔ اس پر انھوں نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔

اس دور کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق اس وقت کے وزیر اعلیٰ ہردیو جوشی نے قبول کیا تھا کہ ستّی کے بعد خاندان کو رسومات ادا کرنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔

ریاستّی وزیر داخلہ گلاب سنگھ شکاوت نے پورے واقعے کو مذہبی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ بوٹا سنگھ چاہتے تھے کہ حکومت اس نوعیت کی رسومات کو کو فوری طور پر روکے۔

جب جوشی نے بوٹا سنگھ کے مشورے کو ماننے سے انکار کر دیا تو تنازع بڑھ گیا اور جوشی کے خلاف اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو کئی شکایتیں کی گئیں۔ راجیو گاندھی بھی ہردیو جوشی سے بہت ناراض ہوئے۔

مرکز کے دباؤ کے بعد بنایا گیا قانون

یکم اکتوبر 1987 کو ریاستّی حکومت ستّی کی رسم کو روکنے کے لیے ایک آرڈیننس لائی۔

یہ قانون خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے نافذ کیا گیا تھا۔

آرڈیننس کے تحت بیوہ کو بالواسطہ یا بلالواسطہ طور پر ستّی کرنے پر اُکسانے والوں کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور ایسے واقعات کی برسرعام تعریف کرنے والوں کو سات سال قید اور زیادہ سے زیادہ 30 ہزار روپے جرمانے کی سزاؤں کا کہا گیا ہے۔

آخر کار ستّی کے مخالفین اور مرکزی وزیر داخلہ بوٹا سنگھ کے شدید دباؤ کے بعد حکومتِ راجستھان نے 1987 میں ایک قانون بنایا جو جنوری 1988 میں نافذ ہوا۔

لیکن 1988 میں روپ کنور کی ستّی کی پہلی برسی پر، دیروالا میں اس جگہ پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جہاں روپ کنور کو ستّی کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

اس لیے یہ واقعہ ایک بار پھر ملک اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں میں آ گیا۔

راجستھان کی سیاست میں ووٹوں کے لحاظ سے یہ بہت نازک معاملہ تھا۔ لیکن حد اس وقت ہو گئی جب راجپوت برادری نے ننگی تلواریں لے کر جے پور کی سڑکوں پر مارچ کیا۔

پابندی کے باوجود 15 ستمبر کی رات سے ہی لوگ دیورالا گاؤں میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ باہر سے بھی ہزاروں لوگ چونری مہوتسو کے لیے گاؤں میں جمع ہوئے۔

روپ کنور ستّی کیس نے راجستھان میں کانگریس حکومت کی ساکھ کو داغدار کیا تھا اور ملک بھر میں اس پر تنقید ہوئی تھی۔

اس حوالے سے لوگوں نے اپنی سطح پر مختلف دعوے کیے۔ لوگوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ روپ کنور نے یہ سب اپنی مرضی سے کیا ہے۔

دیورالا کا اب کیا ماحول ہے؟

حالانکہ روپ کنور کے ستّی واقعے کی کہانیاں دیورالا گاؤں کے کونے کونے میں سُنی جا سکتی ہیں لیکن کسی سے بات کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

چار ستمبر 1987 کو سیکر کے دیورالہ نامی علاقے میں پیش آنے والے روپ کنور ستّی کے واقعے کے بعد دیورالا میں اس وقت خاموشی چھا گئی جب ستّی کی رسم کو روکنے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت نے گذشتہ بدھ کے روز اس کیس میں ملوث آٹھ ملزمان کو بری کر دیا۔

لوگوں کی ذہنی حالت ایسی ہے کہ ماضی میں بھی کئی ٹی وی چینلز پر مباحثوں میں حصہ لینے والے خوفزدہ ہیں اور وہ اب مزید کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ بولیں گے تو یا تو سماج کے لوگ ناراض ہو جائیں گے یا پولیس انھیں ہراساں کرے گی۔

لیکن ملک اور دنیا میں راجستھان اور ملک کی جدیدیت پر سیاہ داغ چھوڑنے والے ستّی کے اس واقعے کے 37 سال بعد بھی اس واقعے کی تمام یادیں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔

تاہم، کوئی یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اس گاؤں میں 18 سال اور چند ماہ کی ایک نوجوان لڑکی روپ کنور کو اس کے شوہر کے ساتھ چتا میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US