بابا صدیقی کا قتل اور ممبئی انڈر ورلڈ کا تذکرہ: لارنس بشنوئی گینگ سے مبینہ تعلق رکھنے والے گرفتار ملزمان کون ہیں؟

1990 کی دہائی میں ممبئی میں سیاست دانوں، کاروباری شخصیات اور بالی وڈ کے مشہور ستاروں کی انڈرورلڈ کے ہاتھوں ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ عام تھیں۔ تاہم صدیقی کا قتل اس بدترین دور کے بعد ایسا پہلا بڑا واقعہ ہے۔
تصویر
Getty Images

انڈیا کے شہر ممبئی کے مصروف علاقے میں ایک سیاستدان کے قتل کے بعد پورے ملک میں ہی خوف کی لہر دوڑ اٹھی ہے۔ 66 سالہ بابا ضیا الدین صدیقی کو سنیچر کی رات اُس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا جب وہ اپنے بیٹے کے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔ انھیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اُن کی موت واقع ہو گئی۔

ضیا الدین صدیقی ایک بااثر سیاست دان تھے جو ریاست مہاراشٹرا میں برسرِاقتدار اتحادی حکومت میں شامل تھے۔ بابا صدیقی کی بالی وڈ کے کئی اداکاروں سے دوستی تھی اور وہ ماہِ رمضان کے دوران اپنی بڑی افطار پارٹیوں کے لیے بھی مشہور تھے اور انہی وجوہات کی بنا پر اُن کے قتل کے بعد سیاسی بیان بازی اور ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔

اب تک اس قتل کی وجوہات اور پس پردہ مقاصد واضح نہیں ہیں تاہم اس واردات نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سنہ 1990 کی دہائی کی یاد تازہ کر دی ہے جب سیاستدانوں اور فلمی ستاروں کو ممبئی کا انڈر ورلڈ اکثر نشانہ بنایا کرتا تھا۔

پولیس نے اب تک صدیقی کے قتل کے الزام میں تین افراد کو حراست میں لیا ہے اور اُن سے تفتیش جاری ہے۔ مقامی خبروں کے مطابق حراست میں لیے جانے والے افراد کا تعلق ایک ایسے بدنام زمانہ گینگ سے ہے جس کا سرغنہ جیل میں قید ہے۔

گھڑی ساز کا بیٹا جو وزیر بنا

انڈیا
Getty Images
بابا صدیقی کے بالی وڈ کے بہت سے معروف ادکاروں سے دوستانہ مراسم تھے

انڈیا کی مشرقی ریاست بہار میں پیدا ہونے والے صدیقی پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ممبئی آئے تھے۔ صدیقی کے والد گھڑی ساز تھے۔

1980 کی دہائی میں صدیقی نے سیاست کے میدان میں بطور طالب علم رہنما قدم رکھا اور کانگریس پارٹی میں شامل ہونے کے بعد جلد ہی ممبئی یوتھ ونگ کے سربراہ بن گئے۔

اس کے بعد صدیقی نے مقامی لوکل کونسل کی سیاست میں نام کمایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ریاستی اسمبلی کے رُکن بن گئے۔ وہ مسلسل تین بار مہاراشٹرا ریاست کی اسمبلی کے رُکن رہے اور سنہ 2004 میں انھیں وزارت بھی ملی۔

رواں سال فروری میں انھوں نے کانگریس جماعت سے اپنے دیرینہ تعلق کو الوداع کہا اور نیشلسٹ کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے۔ نیشلسٹ کانگریس پارٹی نے بی جے پی اور شیو سینا کے ساتھ مل کر مہاراشٹرا میں اتحادی حکومت بنائی ہے۔

سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ صدیقی اکثر اپنی افطار پارٹیوں کی وجہ سے خبروں میں رہتے جہاں بالی وڈ کے مشہور نام نظر آیا کرتے تھے۔ اُن کی ایسی ہی ایک افطار پارٹی میں سنہ 2013 میں سلمان خان اور شاہ رخ خان تلخیوں کو بھلا کربغلگیر ہوئے تھے جس کے بعد مڈ ڈے اخبار نے لکھا کہ ’صدیقی کی افطار پارٹی شہر کے سوشل کلینڈر پر ایک ایسی تقریب بن گئی جس میں شرکت لازمی ہوا کرتی تھی۔‘

’پٹاخہ چلا کر سکیورٹی گارڈز کا دھیان ہٹایا گیا‘

بابا صدیقی کو اُس وقت قتل کیا گیا جب وہ باندرہ کے مصروف علاقے میں اپنے بیٹے کے دفتر سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھنے والے تھے۔

پولیس کے مطابق تین مسلح حملہ آوروں نے اُن پر چھ سے سات گولیاں داغیں جو صدیقی کے پیٹ اور چھاتی پر لگیں۔ ملزمان اس واردات کے بعد جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک گولی ایک راہگیر کی ٹانگ میں بھی جا لگی۔

اس کیس کی تفتیش کرنے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے حراست میں لیے جانے والے تین ملزمان کے قبضے سے دو پستول اور 28 گولیاں برآمد کی ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق صدیقی نے حال ہی میں اپنی سکیورٹی کو سخت کیا تھا اور ان کے ساتھ نجی سکیورٹی کے علاوہ پولیس کے تین محافظ بھی ہوا کرتے تھے۔ تاہم واردات سے قبل حملہ آوروں نے سکیورٹی اہلکاروں کی گاڑی کے نزدیک ایک پٹاخہ چلا کر اُن کا دھیان صدیقی کی گاڑی سے ہٹا دیا تھا۔

تفتیش میں اب تک کیا معلوم ہوا ہے؟

پولیس کو تینوں گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے اُن کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے۔ پولیس کے مطابق اب وہ اِن ملزمان کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کی تلاش میں ہیں۔

اس کیس کی تفتیش سے منسلک سینیئر پولیس افسر دتا نالواڈے نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ 15 مختلف ٹیمیں اس کیس کی تفتیش کر رہی ہیں اور یہ بھی جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ’شوٹرز کو کس نے مدد فراہم کی تھی۔‘

اگرچہ پولیس نے اب تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم متعدد خبروں کے مطابق گرفتار ملزمان کا نام بدنام زمانہ لارنس بشنوئی گینگ سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس گینگ کے سرغنہ لارنس بشنوئی گجرات کی ہائی سکیورٹی جیل میں قید ہیں اور انھیں مختلف سنگین نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے۔

قتل کی واردات کے چند گھنٹوں بعد ہی گینگ سے اپنا تعلق بتانے والے ایک نامعلوم شخص نے فیس بُک پر لکھا کہ وہ اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تاہم پولیس نے اب تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

سنہ 2015 سے جیل میں قید لارنس بشنوئی اکثر خبروں میں رہتے ہیں۔ ان سے وابستہ بہت سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیں جن کے ذریعے جیل سے اُن کی تصاویر بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ سنہ 2022 میں جیل سے ہی لارنس بشنوئی نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو بھی دیا تھا جس کے بعد اس معاملے کی تفتیش کی گئی اور بہت سے جیل اہلکاروں اور افسران کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔

لارنس بشنوئی سے جڑی بہت سی خبروں کا ذریعہ پولیس ذرائع ہوتے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ جیل میں قید ہونے کے باوجود وہ اپنا گینگ کیسے چلا لیتے ہیں۔

اس گینگ کا نام پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کے بعد سنہ 2022 میں اس واردات سے جوڑا گیا تھا۔ رواں سال اپریل میں پولیس نے اسی گینگ کے دو اراکین کو مبینہ طور پر سلمان خان کی رہائش گاہ کے باہر فائرنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

دوسری جانب رواں ہفتے کے آغاز پر کینیڈا کی پولیس نے کہا ہے کہ اُن کا ماننا ہے کہ لارنس بشنوئی گینگ کا انڈیا کے عہدیداران سے تعلق ہے اور اس گینگ کو کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ انڈیا نے کینیڈا پولیس کے اس دعوے پر اب تک سرکاری طور پر جواب نہیں دیا ہے۔

گرفتار ملزمان کون ہیں؟

پولیس نے مقامی ذرائع ابلاغ کو دو گرفتار ملزمان کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی ہیں جبکہ اس کیس میں مطلوب تیسرا ملزم فی الحال مفرور ہے۔

گرمیل سنگھ

ممبئی پولیس کے مطابق بابا صدیقی قتل کیس میں گرفتار ایک ملزم گرمیل سنگھکا تعلق ریاست ہریانہ سے ہے۔ بی بی سی سے منسلک صحافی کمال سائینی نے گرمیل کی دادی سے بات کی ہے۔ دادی نے بتایا کہ گرمیل اپنے والدین کے اکلوتے بچے ہیں۔ ’گرمیل کے والد کی وفات کے بعد اُن کی والدہ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ گرمیل کا ایک سوتیلا بھائی اور بہن بھی ہیں۔‘

گرمیل کی دادی نے اپنے پوتے کی حالیہ سرگرمیوں سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے ’اگرچہ وہ میرا پوتا ہے مگر اب (حالیہ الزامات کے بعد) وہ میرا کچھ نہیں لگتا۔‘

ضلع کیتھل کے ڈی ایس پی آفس کی جانب سے بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ گرمیل پہلے بھی مختلف مقدمات میں جیل کاٹ چکا ہے اور کیتھل ضلع میں اس وقت بھی اُس کے خلاف تین مقدمات درج ہیں۔

انڈیا
Getty Images
لارنس بشنوئی 2015 سے ہائی سکیورٹی جیل میں ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہیں سے اپنا گینگ چلاتے ہیں

دھرم راج کیشپ

پولیس کے مطابق بابا صدیقی قتل کیس میں گرفتار دوسرے ملزم کا نام دھرم راج کیشپ ہے اور ان کا تعلق ریاست اُتر پردیش سے ہے۔ متعلقہ پولیس افسر انیل کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ دھرم راج کے والد مچھلی فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ انیل کمار کے مطابق ’دھرم راج ماضی میں ممبئی بھی رہ چکے ہیں جہاں وہ کباڑ کا کام کرتے تھے۔ اُن کی عمر ابھی 20 برس نہیں ہوئی ہے۔ انیل کا خاندان گذشتہ بہت عرصے سے اُن سے رابطے میں نہیں تھا۔ رہائش کے ضلع میں دھرم راج کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے یعنی وہ ریکارڈ یافتہ نہیں ہیں۔ پولیس نے پہلی مرتبہ اُن کا نام سُنا ہے۔‘

دھرم راج کی والدہ نے خبررساں ادارے ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ ’میرا بیٹا دو ماہ قبل گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ یہ بتا کر گھر سے نکلا تھا کہ وہ ممبئی میں کباڑ کا کام کرنے جا رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وہاں کیا کرتا تھا۔‘

شیو کمار

اس کیس میں مفرور اور پولیس کو مطلوب تیسرے ملزم کا نام شیو کمار ہے۔ ممبئی پولیس کے مطابق شیو کمار کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پولیس افسر انیل کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ شیو کمار گندھارا ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’شیو کمار اور دھرم راج دونوں ہمسائے تھے اور ممبئی میں اکھٹے رہ رہے تھے۔ شیوکمار کے والد مستری کا کام کرتے ہیں جبکہ شیو کمار کا کوئی سابقہ کریمنل ریکارڈ نہیں ہے۔‘

شیو کی والدہ نے نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ اُن کے بیٹے نے انھیں بتایا تھا کہ وہ ممبئ میں کباڑ کا کام کرتا ہے۔ ’مجھے صرف اتنی ہیں معلومات اپنے بیٹے کے بارے میں۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ ممبئی ہے کہاں۔ وہ آخری مرتبہ ہولی کے تہوار پر گھر آیا تھا۔ اس کے بعد سے اس سے فون پر بھی رابطہ نہیں تھا۔ میرے بیٹے کی عمر 18، 19 سال ہو گی۔‘

انڈر ورلڈ اور ممبئی کی فلمی اور سیاسی دنیا

سنہ 1990 کی دہائی میں ممبئی میں سیاست دانوں، کاروباری شخصیات اور بالی وڈ کے مشہور ستاروں کی انڈر ورلڈ کے ہاتھوں ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ عام تھیں،تاہم صدیقی کا قتل اس بدترین دور کے بعد ایسا پہلا بڑا واقعہ ہے۔

مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق دو ہفتے قبل ہی صدیقی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی جس کے بعد ان کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود چند ہی دن کے اندر ان کے قتل کے بعد ریاستی حکومت پر تنقید میں اضافہ کر دیا ہے خاص کر ایک ایسے موقع پر جب مہاراشٹرا میں ریاستی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔

کانگریس کے صدر نے اس واردات کو مہاراشٹرا میں ’امن و امان کی مکمل ناکامی‘ قرار دیا جبکہ دلی کے سابق وزیر اعلی اروند کجریوال نے کہا کہ اس واقعے نے ’صرف مہاراشٹرا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں لوگوں کو خوف کا شکار کر دیا ہے۔‘

دوسری جانب مہاراشٹرا حکومت کے وزیر اعلی اکنات شندے نے حکومت کی جانب سے دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ملزمان کو چھوڑا نہیں جائے گا، چاہے بشنوئی گینگ ہو یا انڈرورلڈ کا کوئی اور گینگ ہو، جن کو دھمکی مل رہی ہے ان کی حفاظت ریاست کی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری نبھائی جائے گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US