کیا کشمیر کے نئے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ’کیجریوال دوم‘ ثابت ہوں گے؟

54 سالہ عمرعبداللہ اس بار جس کشمیر کی حکومت سنبھال رہے ہیں، وہ پچھلے پانچ برس کے دوران بہت بدل گیا ہے۔ اکثر حلقے کہتے ہیں کہ اب کی بار حکومت سنبھالنے کے بعد عمرعبداللہ انڈیا کے اروند کیجری وال دوم ثابت ہوسکتے ہیں۔
عمر عبداللہ
Getty Images

54 سالہ عمرعبداللہ اس بار جس کشمیر کی حکومت سنبھال رہے ہیں، وہ پچھلے پانچ برس کے دوران بہت بدل گیا ہے۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے، باقاعدہ ریاست کا درجہ ملنے اور نئے قوانین کے ساتھ ساتھ لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات میں توسیع تک بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ نئی دلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے جموں کے ڈوڈہ ضلع میں ایک ریلی سے خطاب کے دوران عمرعبداللہ کو مشورہ دیا کہ انھیں مستقبل میں جموں کشمیر کی ’ہالف سٹیٹ‘ کی حکومت کرتے ہوئے کسی مشکل کا سامنا ہو تو وہ اُن سے رابطہ کریں، کیونکہ ’نئی دلی بھی ہالف سٹیٹ ہے، اور ہم جانتے ہیں لیفٹیننٹ گورنر اور دلی کی مرکزی حکومت کس طرح مشکلیں پیدا کرتے ہیں۔‘

اسی لیے اکثر حلقے کہتے ہیں کہ اب کی بار حکومت سنبھالنے کے بعد عمرعبداللہ انڈیا کے اروند کیجریوال دوم ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ انھیں سرینگر اور دلیّ میں سنگین چلینجز کا سامنا ہوگا۔

عمر عبداللہ اپنے والد فاروق عبداللہ کے ساتھ
Getty Images
عمر عبداللہ اپنے والد فاروق عبداللہ کے ساتھ

وعدوں کا بوجھ

ویڈیو گیمز کے شوقین عمر عبداللہ اکثر ’کال آف ڈیوٹی‘ کھیلتے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقی ڈیوٹی کا امتحان بدھ کی دوپہر سے شروع ہوا۔

پانچ سال کے دوارن بتدریج بے اختیار کیے گئے خطے کا وزیراعلیٰ بننے کے لیے انھوں نے لوگوں سے بڑے نظریاتی وعدے کیے ہیں، جن میں آرٹیکل 370 کی بحالی خاص ہے۔

حلف برداری سے چند روز قبل انھوں نے جب یہ بیان دیا کہ جس حکومت نے جموں کشمیر کی خودمختاری چھین لی ہے اُس سے اس کی بحالی کا مطالبہ کرنا بے وقوفی ہے، جس سے حریفوں کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی پارٹی نیشل کانفرنس (این سی) کی صفوں میں بھی ہلچل مچی۔

این سی کے نوجوان لیڈر اور پارٹی کو دوبارہ مقبول کروانے والے آغا روح اللہ نے عمر سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ’حق جس نے چھینا ہو اُسی سے واپس لیا جاتا ہے۔‘

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمرعبداللہ کے لیے اقتدار کا یہ مرحلہ نہ صرف سرینگر میں مشکلیں پیدا کرے گا بلکہ نئی دلی کے ساتھ اُن کی کشیدگی انھیں بہت تنگ کرسکتی ہے۔

حالانکہ انھوں نے الیکشن میں جیت حاصل کرتے ہی ایکس پر ایک پوسٹ میں یہ امید ظاہر کی تھی کہ بی جے پی کی حکومت انھیں ایک لیول پلیئنگ فیلڈ (ہموار میدان) دے گی۔

عمر عبداللہ
Getty Images
عمر عبداللہ

عمرعبداللہ کا سیاسی سفر

عمرعبداللہ کشمیر کے اولین سیاسی لیڈر شیخ محمد عبداللہ کے پوتے ہیں۔ ان کے والد فاروق عبداللہ تین مرتبہ ریاست کے وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ وہ ممبئی کے سائڈن ہیم کالج سے کامرس کی ڈگری لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔

1998 میں کشمیر واپسی پر انھیں باقاعدہ نیشنل کانفرنس کا نائب صدر مقرر کیا گیا اور وہ 28 سال کی عمر میں الیکشن جیت کر انڈین پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر رکن بن گئے۔

وہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں سب سے کم عمر وزیر بھی رہے ہیں اور سنہ 2008 میں جب ان کی عمر 38 سال تھی وہ جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ بن گئے۔

عمر برصغیر میں اُس وقت ایک بولڈ سیاستدان کے طور پر اُبھرے جب انھوں نے انڈین پارلیمنٹ میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ کی حمایت میں کی گئی تقریر کے دوران کہا کہ ’میں مسلمان ہوں اور میں انڈین ہوں۔‘

پہلی بار کشمیر کا وزیراعلیٰ بنتے ہی انھیں متعدد مشکلات کا سامنا رہا۔ سنہ 2009 میں دو خواتین کے مبینہ ریپ اور قتل، 2010 میں فرضی جھڑپ میں ہلاکتیں اور 2013 میں پارلیمنٹ پر حملے کے مجرم قرار پائے افضل گورو کی پھانسی جیسے واقعات سے کشمیر میں پرتشدد احتجاجی لہریں چلیں، جن کے دوران فورسز کی فائرنگ میں سینکڑوں مظاہرین مارے گئے۔

عمرعبداللہ اس پورے عرصے میں اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے جدوجہد ہی کرتے رہے۔ عبداللہ خانوادے کا مضبوط ترین گڑھ گاندربل رہا ہے۔ عمر عبداللہ کو سنہ 2002میں ایک غیرمعروف سیاسی لیڈر قاضی افضل نے گاندربل سے ہی شکست دے دی تھی۔

سنہ 2008میں انھیں پہلی بار الیکشن لڑ رہے ایک تاجر اشرف میر نے سوناوار حلقے سے ہرا دیا۔ رواں سال اپریل میں پارلیمنٹ الیکشن کے دوارن عمرعبداللہ کو تہاڑ جیل میں قید انجینیئر رشید نے بارہمولہ سیٹ سے ہرا دیا۔

لیکن کشمیر کی صوبائی اسمبلی کے لیے ستمبر میں جو الیکشن ہوئے اس کے دوارن نیشنل کانفرنس نے آرٹیکل 370 کی بحالی، انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر سے متعلق مذاکرات، قیدیوں کی رہائی، انسانی حقوق کے تحفظ، پریس کی آزادی وغیرہ جیسے نعروں پر لوگوں سے ووٹ مانگا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمرعبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو 37 سال بعد جموں کشمیر کے سبھی خطوں سے سیٹیں ملیں۔ جموں کشمیر کی صوبائی اسمبلی میں 90 سیٹیں ہیں جن میں سے نیشنل کانفرنس کو ابتدائی طور پر 42 سیٹیں حاصل ہوئیں جبکہ بعد میں بعض ایسے اراکین نے بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جو آزاد امیدوار کے طور الیکشن جیت چکے تھے۔

عمر عبداللہ
Getty Images
عمر عبداللہ

کیا عمرعبداللہ اپنے دادا جیسی عوامی مقبولیت حاصل کر پائیں گے؟

عمرعبداللہ کی قائدانہ صلاحیتیوں پر اُن کی اپنی پارٹی کے اندر سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ بچپن اور جوانی ممبئی اور لندن میں گزارنے والے عمرعبداللہ کشمیری نہیں بول سکتے، اور جب بولتے ہیں تو اُن کے ٹوٹے پھوٹے جملوں کی ہزاروں میمز بن جاتی ہیں۔

اپنے دادا شیخ عبداللہ اور والد فاروق عبداللہ کے مقابلے میں کشمیری عوام کے ساتھ گھل مل نہیں پاتے۔

وہ گالف کھیلتے ہیں، انگریزی بولنے والے لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور اکثر عوامی ریلیوں میں کافی مگ تھامے نظر آتے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ نگار نصیر گنائی کہتے ہیں: ’کافی پیتے ہوئے جن لوگوں سے عمر خطاب کر رہے تھے، وہ نمکین چائے روایتی پیالیوں میں پینے کے عادی ہیں۔'

نیشنل کانفرنس کی کمان سنبھالتے ہی انھوں نے اپنے گرد انگریزی بولنے والے لیڈروں کا ایک حلقہ جمع کیا جس کی وجہ سے پارٹی کی قیادت میں ناراضی پیدا ہوگئی۔

لیکن اس حلقے میں جنید عظیم متو اور دیوندر رانا جیسے لوگوں نے انھیں عین وقت پر دھوکہ دیا۔ جنید بی جے پی کی حامی جماعت ’اپنی پارٹی‘ میں شامل ہوگئے جبکہ دیوندر رانا بی جے پی میں چلے گئے۔

عمر عبد اللہ، کشمیر
Getty Images

عمرعبداللہ جن حالات میں وزیراعلیٰ بنے ہیں اُن کا اعتراف انھوں نے گذشتہ ماہ ایک ایکس پیغام میں خود کیا تھا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ گورنر کے دروازے پر چپراسی کے تبادلہ کے لیے بھیک نہیں مانگیں گے۔

واضح رہے الیکشن سے قبل لیفٹیننٹ گورنر کو قانون سازی اور انتظامی امور کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔ پولیس کا نظام پہلے ہی انڈین وزارت داخلہ کے پاس ہے، اور بڑے منصوبوں کے لیے رقم مختص کرنا ہو تو حکومت لیفٹنٹ گورنر کے دستخط کی محتاج ہوگی۔ اسی طرح اگر کابینہ کا اجلاس طلب کرنا ہو تو ایجنڈا دو روز قبل ایل جی کے پاس منظوری کے لیے پیش کرنا ہوگا۔

لوگوں سے کیے گئے سیاسی وعدوں کے بھاری بوجھ اور اختیارات کی کمی کے بیچ عمرعبداللہ اپنے 26 سالہ سیاسی سفر کے حساس ترین موڑ پر ہیں۔

صحافی اور کالم نگار ہارون ریشی کا کہنا ہے: ’جمہوری نظام میں حکمران اکثر چند سال بعد دباوٴ محسوس کرتے ہیں، لیکن جس پس منظر میں عمرعبداللہ وزیراعلٰی بن رہے ہیں، وہ پہلے دن سے ہی دباوٴ میں رہیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US