اسموگ اور فضائی آلودگی تیزی سے ایک بڑی تشویش صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، خاص طور پر لاہور، ملتان اور دہلی جیسے زیادہ آبادی والے شہروں میں، جہاں ہوا کا معیار خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ تناؤ، ناقص خوراک، موٹاپا اور ذیابیطس جیسے عوامل طویل عرصے سے زرخیزی کو متاثر کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں، لیکن اب فضائی آلودگی تولیدی صحت کے مسائل میں ایک اور اہم معاون کے طور پر ابھر رہی ہے۔
حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے "گرین لاک ڈاؤن" جیسی کوششوں کے باوجود لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 1,067 کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آلودگی کی یہ بلند سطح نہ صرف ہمارے پھیپھڑوں اور جلد کے لیے بلکہ زرخیزی کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ آلودگی والے ذرات، زہریلے کیمیکلز، اور بھاری دھاتوں کی نمائش مرد اور عورت دونوں کی زرخیزی کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔
خواتین کی زرخیزی پر اثر
فضائی آلودگی کا خواتین کی تولیدی صحت پر خاصا اثر ہے، آلودگی ہارمونل عدم توازن کا باعث بنتی ہے اور ماہواری میں خلل ڈالتی ہے۔ عورت کے ہارمونز بیضہ دانی کو منظم کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، اور آلودہ ہوا کے سامنے آنے سے بیضہ دانی میں تاخیر ہو سکتی ہے، جس سے قدرتی حمل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، خراب ہوا کا معیار عورت کے انڈوں کے معیار کو کم کر سکتا ہے، جس سے پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی اوز) جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں، جو زرخیزی کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
مردانہ زرخیزی پر اثر
مرد بھی اسموگ اور آلودگی کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی جیسے گاڑیوں کے اخراج اور صنعتی کیمیکلز کے طویل مدتی نمائش کو سپرم کی تعداد میں کمی اور نطفہ کی کمزور حرکت سے منسلک کیا گیا ہے۔ آلودہ ہوا میں موجود زہریلے مادے سپرم کے ڈی این اے کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے سپرم کے لیے انڈے کو کامیابی سے فرٹیلائز کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، جو حمل کے امکانات کو روکتا ہے۔