ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ نئے محصولات 27 اگست سے لاگو ہو جائیں گے۔ چند ماہرین کے مطابق اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت تقریبا رک جانے کا اندیشہ ہے۔

امریکی سیکریٹری خزانہ سکاٹ بسنیٹ نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا پر اضافی محصولات عائد ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کا دارومدار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جمعے کے دن روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے نتیجے پر ہو گا۔
بلومبرگ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے امریکی سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انڈیا پر روسی تیل خریدنے کی وجہ سے اضافہ محصولات عائد کیے ہیں۔ اور اگر معاملات بہتر نہیں ہوئے تو پابندیاں یا اضافی محصولات لگ سکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ رواں ماہ ہی ٹرمپ نے انڈیا پر عائد 25 فیصد محصولات پر مذید 25 فیصد کا اضافہ کر دیا تھا جس کی وجہ روسی تیل اور ہتھیاروں کی خریداری بتائی گئی تھی۔
امریکی صدر اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کروانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور بدھ کے دن انھوں نے خبردار کیا تھا کہ کہ اگر ماسکو نے امن معاہدے پر اتفاق نہیں کیا تو ’شدید نتائج‘ نکل سکتے ہیں۔
ٹرمپ اور پوتن جمعے کے دن الاسکا میں ملاقات کر رہے ہیں جس میں یوکرین جنگ کا خاتمہ اہم موضوع ہو گا۔
یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی انڈیا کی جانب سے سستے روسی تیل کی بڑھتی ہوئی درآمدات امریکہ سے دلی کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بنی ہیں اور حال ہی میں تجارتی مذاکرات بھی اسی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پائے۔
رواں ماہ ہی ٹرمپ نے انڈیا پر عائد 25 فیصد محصولات پر مذید 25 فیصد کا اضافہ کر دیا تھا جس کی وجہ روسی تیل اور ہتھیاروں کی خریداری بتائی گئی تھی2024 میں انڈیا کی مجموعی تیل کی درآمدات کا تقریبا 40 فیصد حصہ روسی تیل پر مشتمل تھا۔ 2021 میں یہ صرف تین فیصد تھا۔
انڈیا نے اپنے اس فیصلے کا دفاع یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ ’توانائی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ملک کے غریب عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لیے سب سے سستا تیل درآمد کرنا ہوتا ہے۔‘
تاہم امریکہ کی جانب سے حالیہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ محصولات ان کی انتظامیہ کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں جو امریکی معیشت کو ترقی دینے اور عالمی تجارت کو منصفانہ بنانے کے لیے اپنائی گئی ہے۔
ٹرمپ نے بارہا انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ دلی محصولات کا ناجائز استعمال کرتا ہے اور اب امریکی صدر انڈیا کے ساتھ 45 ارب ڈالر کے تجارتی خصارے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
متعدد ماہ سے انڈیا اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور 25 اگست کو امریکی حکام ایک نئے دور کے لیے دلی پہنچ رہے ہیں۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ انڈیا کی جانب سے ذرعی اور ڈیری مصنوعات پر ڈیوٹی کم نہ کرنے کی ضد مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ ہیں۔

ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ نئے محصولات 27 اگست سے لاگو ہو جائیں گے۔ چند ماہرین کے مطابق اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت تقریبا رک جانے کا اندیشہ ہے۔
ٹرمپ کے فیصلے کی وجہ سے انڈیا اس وقت ایشیا میں سب سے زیادہ محصولات والا امریکی تجارتی شراکت دار بن چکا ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل اور زیورات کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔
چند اندازوں کے مطابق اگر ٹرمپ کے عائد کردہ محصولات لاگو ہو جاتے ہیں تو انڈیا کی معاشی ترقی ایک فیصد سے بھی کم ہو سکتی ہے۔