ایران کے اعلیٰ ترین حلقوں تک مبینہ رسائی رکھنے والی کیتھرین شکدم اسرائیلی جاسوس یا تجزیہ کار؟

ایران کے سابقہ رکنِ پارلیمان مصطفی کواکبیان کے کیتھرین پیریز شکدم سے متعلق حالیہ بیانات نے فرانسیسی و برطانوی نژاد یہودی تجزیہ کار کا نام ایک بار پھر ایرانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر نمایاں کر دیا ہے۔

ایران کے سابقہ رکنِ پارلیمان مصطفی کواکبیان کے کیتھرین پیریز شکدم سے متعلق حالیہ بیانات نے فرانسیسی و برطانوی نژاد یہودی تجزیہ کار کا نام ایک بار پھر ایرانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر نمایاں کر دیا ہے۔

کواکبیان نے ایک ٹی وی مباحثے میں اسرائیلی انٹیلیجنس کے ایران میں مبینہ اثر و رسوخ پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شکدم نے ایران کے اپنے دوروں کے دوران ’اسلامی جمہوریہ کے 120 نہایت اہم افراد کے ساتھ جنسی تعلقات کے ذریعے‘ نظام میں رسائی حاصل کی۔

اس بیان کے ایک روز بعد عدلیہ سے منسلک خبر رساں ادارے نے اطلاع دی کہ ’بے بنیاد دعوے اور عوامی ذہنوں میں خلل ڈالنے‘ کے الزام میں تہران کی پراسیکیوشن نے اس اصلاح پسند سیاسی کارکن کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

اس سے قبل مارچ 2022 میں کاترین شکدم نے بی بی سی فارسی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’میں کسی ملک کی جاسوس یا ایجنٹ نہیں ہوں۔ میں صرف ایک سیاسی تجزیہ کار تھی۔‘

اس وقت بی بی سی کے پروگرام ’60 منٹ‘ میں جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ایرانی حکام نے ان سے کسی قسم کے ’ذاتی تعلق یا رابطے کی کوئی درخواست‘ کی تھی، تو ان کا جواب تھا: ’نہیں، ہرگز نہیں۔‘

اس وقت کئی میڈیا اداروں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کیتھرین پیریز شکدم کے بعض ایرانی حکام کے ساتھ مبینہ ذاتی تعلقات کے بارے میں رپورٹس گردش کر رہی تھیں۔

کاترین شکدم در سایت خامنه‌ای
khamenei.ir
آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ سے کیتھرین شکدم کے مضامین ہٹا دیے گئے

ایک سیکولر یہودی جس نے ایک مسلمان مرد سے شادی کی

کیتھرین پیریز شکدم، جو ایک فرانسیسی و برطانوی نژاد یہودی تجزیہ کار ہیں، نے تقریباً 2010 کے دوران متعدد بار ایران کا دورہ کیا اور اسلامی جمہوریہ کے سرکاری میڈیا اداروں، بشمول رہبرِ اعلیٰ آیت‌الله خامنہ‌ ای کی ویب سائٹ اور سپاہ پاسداران سے وابستہ پلیٹ فارمز کے لیے مضامین تحریر کیے۔

سنہ 2017 میں انھوں نے اُس وقت کے صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی کا انٹرویو بھی کیا تھا۔

ان کے مطابق یہ مضامین انھوں نے آیت‌ الله خامنہ‌ ای کے دفتر برائے حفظ و نشر آثار کی درخواست پر لکھے تھے۔

تاہم بعد میں ان کے اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ویب سائٹ پر شائع شدہ بلاگز، جن میں انھوں نے تہران کے سفر اور ایرانی قیادت پر تنقیدی خیالات کا اظہار کیا تھا، ایک بڑے تنازعے کا باعث بنے۔

ان تحریروں کے منظرِ عام پر آنے کے بعد خامنہ‌ ای کی سرکاری ویب سائٹ سے ان کے مضامین ہٹا دیے گئے۔

ایران کے بعض سیاسی حلقوں نے انھیں ’جاسوس‘ قرار دیا جو مبینہ طور پر اسلامی جمہوریہ میں اقتدار کے اعلیٰ ترین حلقوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

اس کے برعکس آیت‌الله خامنہ‌ ای کے حامیوں نے اس دعوے پر شکوک کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کلاب ہاؤس پر ہونے والی بحثوں میں بعض افراد نے یہاں تک سوال اٹھایا کہ آیا ایسی کوئی شخصیت واقعی وجود رکھتی بھی ہے یا نہیں۔

’ٹائمز آف اسرائیل‘ جو آج بھی کیتھرین شکدم کے مضامین شائع کرتا ہے، کے مطابق وہ فرانس میں ایک سیکولر یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں اور بعد ازاں ایک یمنی مسلمان مرد سے شادی کے بعد اسلام اور مشرق وسطیٰ کے امور میں دلچسپی لینے لگیں۔

اخبار کے تعارف کے مطابق شکدم کو مشرق وسطیٰ میں زندگی گزارنے اور سیاسی تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ پہلے ’ہنری جیکسن سوسائٹی‘ کی محقق اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی یمن سے متعلق امور کی مشیر رہ چکی ہیں۔

انھیں ایران، دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی کی ماہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور وہ ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔

تقریباً ایک سال قبل انھیں برطانیہ میں قائم تنظیم ’وی بیلیو ان اسرائیل‘ (ہم اسرائیل پر یقین رکھتے ہیں) کی نئی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ یہ تنظیم ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے یہودی اور غیر یہودی حامیوں کو متحد کر کے اسرائیل کے لیے سیاسی، سماجی اور میڈیا سپورٹ کو فروغ دینے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

کاترین شکدم
BBC
مارچ 2022 میں کاترین شکدم نے بی بی سی فارسی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’میں کسی ملک کی جاسوس یا ایجنٹ نہیں ہوں۔ میں صرف ایک سیاسی تجزیہ کار تھی‘

کہانی کہاں سے شروع ہوئی؟

27 مارچ 2021 کو ایران کے سابق صدر محمود احمدی‌ نژاد کے قریبی افراد سے منسوب ٹیلیگرام چینل ’ثلث‘ نے شکدم کی ایک تصویر شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا ’آیت‌ الله خامنہ‌ ای کی ویب سائٹ کی کالم نویس دراصل اسرائیلی حکومت کی نمائندہ تھی جس نے رہبرِ اعلیٰ اور پاسدارانِ انقلاب کے میڈیا میں اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس نے ٹائمز آف اسرائیل میں ایک مضمون میں خود یہ باتیں قبول کیں۔‘

یہ مضمون ٹائمز آف اسرائیل کے بلاگ سیکشن میں 25 نومبر 2021 کو شائع ہوا تھا تاہم مذکورہ ٹیلیگرام چینل نے چند ماہ بعد اسے پھیلانا شروع کیا۔

اس سے پہلے فارسی زبان کے میڈیا میں کیتھرین پیریز شکدم کو کوئی خاص شہرت حاصل نہیں تھی۔ وہ مختلف ایرانی میڈیا اداروں سے بطور تجزیہ کار متعدد بار گفتگو کر چکی تھیں جن میں پریس ٹی وی (ایران کا انگریزی زبان کا چینل)، صدا و سیما اور معروف میزبان نادر طالب‌ زاده کا پروگرام ’افق‘ شامل ہے۔

کیتھرین پیریز شکدم کا نام منظر عام پر آنے کے بعد آیت‌الله خامنہ‌ ای کے دفتر برائے حفظ و نشر آثار نے ان کی تمام تحریریں ویب سائٹ سے ہٹا دیں اور ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے اس پر وضاحت بھی جاری کی۔

پاسدارانِ انقلاب سے تعلق رکھنے والے کئی افراد اور وہ میڈیا ادارے جنھوں نے ماضی میں شکدم سے انٹرویو کیے تھے، ان سے لاتعلقی ظاہر کرنے لگے اور وضاحتی بیانات جاری کیے۔

کیتھرین پیریز شکدم نے آیت‌الله خامنہ‌ ای کی ویب سائٹ کے لیے تقریباً 18 یادداشتیں تحریر کی تھیں، جو تمام کی تمام اس واقعے کے بعد حذف کر دی گئیں۔

کاترین شکدم
TASNIMNEWS
شکدم نے ایران میں رہتے ہوئے سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم سے بات کی تھی

بی بی سی کے پروگرام ’60 منٹ‘ میں انھوں نے اس حوالے سے بتایا کہ رہبرِ اعلیٰ کے دفتر نے خود ان سے رابطہ کیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی تحریریں بھیجیں، جس پر انھوں نے مضامین ای میل کے ذریعے بھجوائے لیکن اس کے عوض کوئی رقم وصول نہیں کی۔

انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ کبھی ذاتی طور پر اس دفتر نہیں گئیں اور ان کے مضامین شائع ہونے سے پہلے ایڈیٹ کیے جاتے تھے۔

بی بی سی کے اس انٹرویو سے قبل آیت‌ الله خامنہ‌ ای کی ویب سائٹ نے شکدم سے کسی بھی قسم کے رابطے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا ’اس مصنفہ نے 2015 اور 2017 کے درمیان اسلامی انقلاب میں دلچسپی رکھنے والے کچھ میڈیا کارکنوں کے ذریعے صرف اسلام اور اسلامی انقلاب سے متعلق مسائل پر مضامین اور نوٹس بھیجے تھے، جن میں سے کچھ اس میڈیا آؤٹ لیٹ میں شائع ہوئے تھے اور اس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ حالیہ برسوں میں اس مصنفہ کے موقف اور طرزِ فکر میں تبدیلی اور پیشہ ورانہ ضوابط کی عدم پاسداری کے پیش نظر، ان کی تمام تحریریں ویب سائٹ سے حذف کر دی گئی ہیں۔‘

حذف کیے گئے مضامین زیادہ تر اسلام، بطور مسلمان ان کے مثبت تجربے اور آیت‌الله خامنہ‌ ای کی ’امامت‘ کے زیرِ سایہ اسلامی حکومت کی تحسین پر مشتمل تھے۔ تاہم ایران سے نکلنے کے بعد ان کا موقف یکسر تبدیل ہوا اور انھوں نے ٹائمز آف اسرائیل کے بلاگ میں ایرانی قیادت پر تنقید شروع کر دی جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ایران میں قیام کے دوران شکدم خود کو ایک مسلمان خاتون اور شیعہ عقائد کی پیروکار کے طور پر پیش کرتی تھیں۔ ان کی اربعین مارچ میں شرکت کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔

کاترین شکدم
solsmedia
ٹیلیگرام چینل پر شائع کردہ تصویر

’میں جاسوس نہیں تھی‘

شکدم کے موقف کی تبدیلی اور ایرانی حکومت پر تنقید کے منظرعام پر آنے کے بعد ان پر جاسوسی کا الزام لگا۔ تاہم کچھ لوگوں نے اس معاملے کو انٹرنیٹ پر پھیلائے گئے ’جھوٹ‘ کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کی جس کا اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس وقت شکدم کے آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ سے تعلق کا ذکر کیے بغیر ایران ٹیلی ویژن کے ٹوئنٹی تھری پروگرام نے کہا تھا کہ ثقافتی اداروں کو جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

مارچ 2012 میں 60 منٹوں کے پروگرام کے جواب میں شکدم نے اپنے خلاف جاسوسی کے کسی بھی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ریاست کی ایجنٹ نہیں تھیں اور صرف ایک تجزیہ کار کے طور پر ایران گئی تھیں۔‘

ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی شکدم نے اس وقت کہا تھا کہ انھوں نے کبھی اسرائیل کا سفر نہیں کیا۔

انھوںنے بار بار اس بات پر زور دیا اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے حکام سے رابطہ نہیں کیا بلکہ حکام نے ان سے ’پروپیگنڈہ‘ کرنے کے لیے رابطہ کیا اور انھیں فلسطین کانفرنس میں مدعو کیا: ’میں کسی کے پیچھے نہیں گئی، وہ میرے پیچھے آئے، میں نے کبھی بھی ایرانی میڈیا میں گھسنے یا اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے مجھ سے تجزیہ لکھنے کو کہا اور مجھے انٹرویو دینے کے لیے ایران کی دعوت دی گئی۔ یہ میرے لیے بھی ایک موقع تھا، میں نہیں چاہتی کہ لوگ یہ سوچیں کہ میں نے فائدہ اٹھایا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے سفر کے خطرات سے آگاہ ہیں تو کیتھرین شکدم نے کہا کہ وہ فرانسیسی پاسپورٹ پر ایران گئی تھیں اور ایرانی حکام اس کی یہودی شناخت سے واقف تھے: ’ایرانی حکام کو معلوم تھا کہ میں یہودی نسل سے ہوں، لیکن میرے شوہر، جو مسلمان تھے اور میں جو کچھ کر رہی تھی، اس کی وجہ سے کسی نے مجھ پر شک نہیں کیا۔‘

کاترین شکدم
Iran Media
کیتھرین شکدم 2017 میں تہران میں ایک کانفرنس میں

کیتھرین شکدم کا حلیہ اور مؤقف کیسے تبدیل ہوا؟

کیتھرین شکدم کو ایران میں متعدد مواقع پر حجاب پہنے دیکھا گیا اور انھوںنے بی بی سی عربی سمیت مختلف نشریاتی اداروں کو دیے گئے انٹرویوز میں بھی حجاب پہنا۔ تاہم بعد میں اپنے لباس میں تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’جب آپ ایران جاتے ہیں تو آپ کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ان کے سابقہ شریکِ حیات یمن سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان تھے اور انھوں نے خاندانی سکون کے لیے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم شوہر سے علیحدگی کے بعد انھوں نے حجاب ترک کر دیا۔

شکدم نے اس تاثر کی تردید کی کہ ان کے شوہر کا ایرانی حکومت سے کوئی تعلق تھا اور کہا کہ وہ ایک سنی مسلمان تھے جنھیں ایران سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے بقول ایرانی میڈیا کے لیے ان کی تحریروں نے ان کے ذاتی رشتے میں دراڑ ڈال دی تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے ایرانی حکومت کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کیوں کی تو انھوں نے جواب دیا: ’میں قریب سے دیکھنا چاہتی تھی کہ آیا وہ واقعی تمام یہودیوں کے مخالف ہیں یا انھیں صرف اسرائیلی حکومت سے مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے مجھے محسوس ہوا کہ انھیں عمومی طور پر یہودیوں سے مسئلہ ہے، اسرائیلی حکومت سے نہیں۔‘

اسی عرصے کے دوران انھوں نے ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ایک مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ ایران ’جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کے پاس ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق کوئی خفیہ معلومات نہیں اور یہ صرف ان کی ذاتی رائے تھی۔

شکدم نے ایرانی حکام سے کسی قسم کی ذاتی قربت یا رازدارانہ معلومات حاصل کرنے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا: ’وہ ان بیانات کو مجھ پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن درحقیقت وہ اپنے ہی حکام سے سوال کر رہے ہیں۔‘

ابراہیم رئیسی ان ایرانی عہدیداروں میں شامل تھے جن سے شکدم نے 2017 میں ملاقات اور گفتگو کی۔ اس وقت رئیسی آستان قدس رضوی کے متولی اور صدارتی انتخاب کے امیدوار تھے۔ یہ انٹرویو روسی چینل آر ٹی پر نشر کیا گیا۔

شکدم کے مطابق یہ انٹرویو معروف ایرانی پروڈیوسر اور میزبان نادر طالب‌ زاده کے تعاون سے کیا گیا تھا، جبکہ آر ٹی نے ان سے یہ انٹرویو نشر کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان کے بقول یہ رئیسی کے انتخابی دورے کے دوران رشت شہر میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

چار سال بعد ٹائمز آف اسرائیل کے ایک مضمون میں انھوں نے رئیسی کو ’ایک پرجوش شخصیت‘ قرار دیا جو طاقت، حکمت عملی اور بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ رئیسیمدرسوں سے فارغ التحصیل دیگر افراد کے مقابلے میں مختلف تھے، ان کی تربیت براہِ راست آیت‌ الله خامنہ‌ ای کے مکتبِ فکر میں ہوئی تھی۔

حال ہی میں ایران پر اسرائیلی حملوں کے تناظر میں انھوں نے یروشلم سینٹر فار سیکیورٹی اینڈ فارن افیئرز کے لیے ایک تجزیاتی مضمون بعنوان ’ایران کا کامیکازے نظریہ‘ تحریر کیا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اسلامی جمہوریہ نے اپنی سلامتی کی حکمتِ عملی بقا کے بجائے شہادت اور تباہی کے تصور پر استوار کی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر ایران کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو حکومت نہ صرف ملک کے اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہو گی بلکہ ایک انسانی اور ماحولیاتی بحران پیدا کر کے جوابی حملہ کرے گی اور اس کا الزام دوسروں پر ڈال دے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts