الیکشن کمیشن آف پاکستان میں خیبر پختونخوا کی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی اور پی ٹی آئی پی کے وکلا نے دلائل دیے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل کی جمعیت علمائے اسلام کے برابر 9 سیٹیں دینے کی استدعا کی جبکہ وکیل جے یو آئی نے کہا کہ ایک آزاد رکن مقررہ مدت کے بعد مسلم لیگ ن میں شامل ہوا جسے شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اے این پی اور تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے وکلا نے عام انتخابات کی بنیاد پر ہی نشستیں بانٹنے پر زور دیا۔
وکیل جمعیت علمائے اسلام کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیس چیلنج ہوچکا ہے، کیا یہ صرف خیبرپختونخوا تک ہے یا اطلاق پورے پاکستان پر ہوگا؟
وکیل مسلم لیگ ن نے کہا کہ ہائی کورٹ کے شارٹ آرڈر کا تفصیلی فیصلہ بھی آچکاہے، جس امیدوار کی بات ہورہی ہے اس کا نوٹیفکیشن 22 فروری کو ہوا، قانون کے مطابق 3 روز میں پارٹی شمولیت کا سرٹیفکیٹ دینا ہوتا ہے، طارق اعوان نے 2 روز میں پارٹی کی شمولیت جمع کرادی، اقلیت کی نشست پر طارق اعوان کا ووٹ بھی شمار کیا گیا۔
وکیل مسلم لیگ ن نے کہا کہ دونوں جماعتوں کو 9، 9 مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں تھیں، قانون کے مطابق نشستیں برابر ہونے پر ٹاس ہوسکتا ہے، ہم بھی برابری کے باعث ٹاس کی استدعا کرتے ہیں۔