کیا نریندر مودی اپنے بحرانوں سے باہر نکل پائیں گے؟ عامر خاکوانی کا کالم

image
یہ سال انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے لیے زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ان کے لیے مسائل اور مشکلات بڑھ رہی ہیں، داخلی اور بیرونی محاذ دونوں پر۔ پچھلے سال ان کے کینیڈا سے خاصے مسائل رہے۔ سابق کینیڈین وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کا موقف تو اس قدر جارحانہ تھا کہ انڈین حکومت کے لیے اسے کاؤنٹر کرنا مشکل ہو گیا۔

کینیڈین حکومت کے انڈیا پر الزامات سنگین تھے، اگر تب امریکی صدر بائیڈن کی غیر مشروط سپورٹ ساتھ نہ ہوتی تو انڈیا کے لیے مسائل بڑھ سکتے تھے۔

اس سال نریندر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کی خاصی کوششیں کیں۔ وہ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے لیے گئے تو صدر ٹرمپ کو بہلانے پھسلانے کے لیے اپنے اور ان کے درمیان مماثلتیں ڈھونڈتے رہے۔

انہوں نے میک امریکہ گریٹ اگین (ماگا) لابی کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ ’ہمارا نعرہ بھی اسی طرح کا ہے یعنی میک انڈیا گریٹ اگین (مِیگا)۔‘ انڈیا اور امریکہ میں کئی معاہدے ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے انڈیا کو ایف 35 سٹیلتھ طیارے دینے کا اعلان بھی کیا۔ مودی جی خوش خوش وطن واپس لوٹے۔

پھر آتا ہے مئی کا مہینہ اور پاکستان انڈیا جنگ، جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ نریندرمودی کا جنگجوانہ امیج، 56 انچ کی چوڑی چھاتی والی دبنگ شخصیت کا تاثر یکایک معدوم سا ہوگیا۔ جیسے جوش و خروش سے انڈیا پاکستان پر حملہ آور ہوا، اتنی ہی قوت اور شدت سے اسے جواب ملا۔ آج دنیا بھر کے عسکری تجزیہ نگار اس پر متفق ہیں کہ اس جنگ میں پاکستان کو واضح عسکری برتری ملی۔ ہماری ایئرفورس نے انڈین ایئرفورس اور زیادہ مہنگے جدید جہازوں کو آؤٹ کلاس کر دیا۔ ہمارے میزائل زیادہ موثر، شدید اور تباہ کن ثابت ہوئے۔ حتیٰ کہ انڈیا کو جس اینٹی میزائل سسٹم ایس 400 پر بہت ناز تھا، وہ بھی ٹارگٹ ہو گیا۔

یہ واقعہ شاید ایسا ہے جس نے مودی جی کی مشکلات میں اضافہ کیا اور اس خطے کی پوری صورتحال تبدیل کر دی۔ جنگ کے دوران حب الوطنی کی ایسی ہوا چلتی ہے کہ اعتراض یا تنقید کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ انڈیا میں بھی ایسا ہی ہوا۔ دو ڈھائی ماہ گزر جانے کے بعد انڈین اپوزیشن اب کھل کر تنقید کر رہی اور طیارے کیسے گرے جیسے سوالات اٹھا رہی ہے۔

وزیراعظم مودی اور ان کی کابینہ کے پاس ان سوالات اور تنقید کا جواب نہیں۔ ماسوائے جوابی الزام لگانے کے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو حکومت میں مسلسل بارہواں سال ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کانگریس نے اپنی حکومت میں دفاعی کمزوریاں چھوڑی تھیں جن کا اب نقصان ہوا۔

راہل گاندھی نے کہا کہ مودی جی صرف کہہ دیں کہ صدر ٹرمپ غلط کہہ رہے ہیں (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

رفال طیارے بھی مودی حکومت نے بڑے دعوؤں کے بعد خریدے تھے۔ مودی جی کے دست راست امت شاہ کو صرف ایک ہی طعنہ یاد آیا کہ سندھ طاس معاہدہ نہرو کے دور میں ہوا تھا، وہ بڑا ظلم اور زیادتی کی تھی نہرو نے انڈیا سے۔ (یہ اور بات کہ پاکستان میں بہت سوں کا اب یہ خیال ہے کہ سندھ طاس معاہدہ انڈیا کی کامیابی تھی اور پاکستان کو اس کا نقصان ہوا)

انڈین وزیراعظم کے لیے اصل مصیبت اور تکلیف دہ بات صدر ٹرمپ کے بیانات ہیں۔ اگلے روز انڈین اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اسمبلی میں کہا کہ صدر ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جنگ بندی انہوں نے کرائی ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو مودی جی صاف کہہ دیں کہ صدر ٹرمپ غلط کہہ رہے ہیں۔ مودی جی کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ ایسا بیان دے کر انڈیا امریکہ تعلقات خراب نہیں کر سکتے۔ مودی جی تو صدر ٹرمپ سے یہ شکوہ بھی نہیں کر سکتے کہ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ پاکستان نے پانچ انڈین طیارے گرائے۔ ان کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں بچا۔ اس کا مگر انہیں سیاسی نقصان ہو رہا ہے اور انڈین عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت نے جو دعوے کیے تھے وہ غلط نکلے۔

نریندر مودی کے لیے اس سے بڑا شاک انڈیا پر لگایا گیا امریکی ہیوی ٹریڈ ٹیرف ہے۔ جبکہ انڈیا روس سے سستا تیل لے کر جو بیچ رہا تھا، وہ کام بھی اب بند ہوگیا۔ اب یہ کنفرم خبر آ چکی ہے کہ انڈین حکومت نے غیر رسمی طور پر امریکہ کو بتا دیا ہے کہ وہ ایف 35 سٹیلتھ طیارے نہیں لے سکتے۔ اس کی اپنی تکنیکی وجوہات ہوں گی، مگر صدر ٹرمپ کو یہ سمجھانا آسان نہیں۔ وہ اعلان کر چکے ہیں کہ انڈیا ایف 35 طیارے لے گا۔ اب انڈین انکار مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

انڈیا کے لیے ویسے یہ حقیقی مسئلہ ہے کیونکہ ان کا بیشتر اسلحہ روسی ٹیکنالوجی کا ہے یا اپنا مقامی ساختہ۔ روسی سخوئی 30 طیاروں اور اینٹی میزائل سسٹم ایس 400 کے ہوتے ہوئے وہ امریکی طیارے نہیں لے سکتے کیونکہ امریکی ٹیکنالوجی اور سسٹم یکسر مختلف ہیں، روسی دفاعی نظاموں کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں بن سکتی۔

نریندر مودی کے لیے اس سے بڑا شاک انڈیا پر لگایا گیا امریکی ہیوی ٹریڈ ٹیرف ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا کے لیے آگے جا کر یہ مسئلہ بھی بنے گا کہ اگر ایف 35 نہیں تو پھر پاکستان کے ففتھ جنریشن چینی طیارے ’جے 35‘ کے جواب میں وہ ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارے کہاں سے لے گا؟ دوسری آپشن پھر روسی سخوئی 57 ہے۔ مسئلہ پھر وہی ہوگا کہ اگر انڈیا روس سے یہ طیارے لے گا تو امریکہ اعتراض کرے گا۔ جسے روسی تیل خریدنے پر اعتراض ہے وہ اتنے مہنگے روسی طیارے لینے پر اعتراض کیوں نہیں کرے گا؟

مودی جی کے لیے اصل بحران مگر آنے والے دنوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ ستمبر میں ان کی سالگرہ ہے اور وہ خیر سے 75 سال کے ہو رہے ہیں۔ یہ خوش خبری ہے، مگر سیاسی اعتبار سے پریشان کن بن سکتی ہے۔ وہ یوں کہ مودی جی نے بی جے پی کے کئی بزرگ رہنماؤں کو سیاست سے ریٹائر کرایا ہے یہ کہہ کر کہ 75 برس پارٹی عہدوں سے ریٹائرمنٹ کی عمر ہے۔

 بی جے پی کے ممتاز رہنما ایل کے ایڈوانی سے لے کر مرلی منوہر جوشی اور سمترا مہاجن سمیت کئی لیڈروں کو سیاست سے ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ مودی جی کے دور میں ان کے وزرا اپنی عمریں چھپانے لگے کہ کہیں صاحب کو علم نہ ہوجائے کہ وہ 75 سال کی ریڈ لائن کو پہنچنے والے ہیں۔

ممتاز کشمیری صحافی سید افتخار گیلانی نے اپنے ایک حالیہ کالم میں دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ دس سال قبل (2015) میں محکمہ اقلیتی امور کی مرکزی وزیر نجمہ اکبر علی کے مداحین حیران پریشان تھے کہ اپنی سالگرہ کے دن نجمہ صاحبہ کا نہ صرف فون بند تھا بلکہ وہ سوشل میڈیا سے بھی غیر حاضر تھیں۔ وجہ یہی تھی کہ یہ ان کا 75واں جنم دن تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ کسی نے مبارکباد دی اور سوشل میڈیا پر یہ خبر چل گئی تو وزیراعظم مودی انہیں بھی ریٹائر کر دیں گے۔ اس ہوشیاری سے ان کا وہ سال تو نکل گیا، مگر اگلے سال مودی جی نے انہیں ریٹائر کر کے منی پور کا گورنر تعینات کر دیا۔

سید افتخار گیلانی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’بے جے پی کے ایک لیڈر سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ جب مودی نے اڈوانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے عمر کی حد مقرر کی تھی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ کہ وہ 11 سال تک برسراقتدار رہیں گے۔‘

انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے لیے اصل پریشانی یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے مبینہ سرپرست اور مدر پارٹی آر ایس ایس (راشٹریہ سیکوک سنگھ) کے سربراہ موہن بھاگوت بھی ستمبر میں 75 سال کے ہونے والے ہیں۔ موہن بھاگوت نے چند ہفتے قبل اپنے ایک بیان میں عندیہ دیا کہ وہ ریٹائر ہوجائیں گے اور انہوں نے مودی جی کا نام لیے بغیر بزرگ سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ریٹائر ہو کر نسبتاً نوجوان لیڈروں کو آگے آنے دیں۔ انڈیا میں اس مشورے پر خاصا شور مچا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا خیال ہے کہ یہ مشورہ نریندر مودی کے لیے ہے اور اب مودی جی کو اپنا بیگ پیک کر لینا چاہیے۔

’انڈین وزیراعظم کے لیے اصل مصیبت اور تکلیف دہ بات صدر ٹرمپ کے بیانات ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس پر انڈین میڈیا میں خاصا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ہماری طرح وہاں بھی حکومت کے حق میں بہت کچھ لکھوایا جاتا ہے، بعض میڈیا ہاؤسز حکومت کی لائن لیتے ہیں۔ تاہم کئی سینیئر اور معروف تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ کا مشورہ دراصل مودی جی کے لیے ایک سافٹ مشورہ ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے کنسلٹنگ ایڈیٹر راجدیپ سرڈیسائی نے بھی اسی طرح کی بات لکھی۔

پاکستان میں بہت سے لوگ شاید نہ جانتے ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس کے بغیر کچھ نہیں۔ آر ایس ایس کے لاکھوں کارکن اور کروڑوں حامی ہیں اور دراصل یہی بی جے پی کی اصل قوت اور ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ آر ایس ایس کے بغیر بی جے پی اقتدار میں رہنے کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے صدر جگت پرساد نڈا کی مدت کب کی ختم ہو چکی ہے۔ سیٹ خالی ہے مگر ابھی تک بی جے پی کے نئے سربراہ کا نام نہیں آ رہا۔ وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس اس کی منظوری نہیں دے رہی۔

معروف انڈین ویب سائٹ دی وائر کی رپورٹ کے مطابق ’اس سے قبل مودی اور امت شاہ اپنی پسند کے کسی پارٹی کارکن کو صدر منتخب کرواتے تھے۔ بھلا ہو حال میں برپا ہوئی ہندوستان پاکستان جنگ کا کہ مودی کی پکڑ ڈھیلی پڑ گئی ہے، جس کی وجہ سے پارٹی صدر کا انتخاب ان کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے۔‘

دی وائر میں تجزیہ کار سنجے جھا لکھتے ہیں کہ ’وہ دن اب بیت چکے ہیں جب نریندر مودی کا حکم حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس مودی اور امت شاہ کی دو رکنی بالادستی کو مزید برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی کا نیا صدر کوئی ایسا شخص ہو جو مودی اور شاہ کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرسکے۔ یہی کشمکش اس تقرری میں تاخیر کا سبب بنی ہوئی ہے۔‘

یہ ٹکراؤ اس قدر شدید ہے کہ آر ایس ایس نے حال ہی میں مودی کے انتہائی مخالف سنجے جوشی کو بی جے پی کے صدر کے عہدے پر فائز کرنے کی تجویز دے دی۔ ان کا نام مودی اور شاہ کو کسی طور قبول نہیں ہوگا، مگر آر ایس ایس کی طرف سے ان کا نام آنا ہی مودی اور شاہ کے غلبے پر عدمِ اعتماد کا کھلا اظہار ہے۔

ذرائع کے مطابق پارٹی کی مرکزی قیادت نے مودی کی ایما پر اس ماہ کے آغاز میں وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان اور ماحولیاتی وزیر بھوپیندر یادو کے نام آر ایس ایس کی لیڈرشپ کو بھیجے تھے۔ مگر آر ایس ایس نے تاحال ان دونوں میں سے کسی نام کو منظوری نہیں دی ہے۔ سنگھ کا اصرار ہے کہ بی جے پی کا نیا صدر ایک ‘طاقتور تنظیمی لیڈر’ ہو، نہ کہ وزیرِاعظم مودی اور وزیرِ داخلہ شاہ کا محض ایک مہرہ ہو۔‘

آر ایس ایس 2029 کے الیکشن کے لیے ابھی سے تیاری کرنا چاہتی ہے (فوٹو: دی اکانومسٹ)

تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ آر ایس ایس فوری طور پر نریندر مودی سے جان چھڑانا چاہتی ہے، ان کے پاس سردست کوئی طاقتور عوامی لیڈر نہیں۔ سید افتخار گیلانی کے تجزیے کے مطابق 2017 میں لگتا تھا کہ یوگی ادیتہ کو تجربہ لینے کے لیے یوپی کا وزیراعلیٰ بنایا گیا اور وہ مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے، مگر اب آر ایس ایس ان کے خودمختار رویہ سے سے نالاں ہے، مرکزی وزیر نتین گدگڑی ایک آپشن ہیں انہیں اٹل بہاری واجپائی کا نظریاتی وارث سمجھا جاتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ وہ عوامی پزیرائی لے سکیں۔

دراصل آر ایس ایس 2029 کے الیکشن کے لیے ابھی سے تیاری کرنا چاہتی ہے، تب تک مودی برانڈ اپنی کشش کھو بیٹھے گا، سیاسی جانشینی کا مقابلہ امت شاہ اور یوگی آدیتیہ میں ہونے کا امکان ہے، اس سے پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آر ایس ایس کی قیادت یہ چاہتی ہے کہ بی جے پی کا آئندہ صدر ایسا طاقتور شخص ہو جو مودی، امت شاہ کی جوڑی کے اثر سے آزاد ہو کر مستقبل کی قیادت کو آگے لائے، اسے تیار کرے۔

ادھر وزیراعظم نریندرمودی کے لیے سب سے تکلیف دہ بات یہ ہوگی کہ ان کی گرفت کمزور پڑے، مستقبل کی قیادت ان کی مرضی سے تیار نہ ہو اور ان کی ریٹائرمنٹ کی باتیں ہوں۔ ان کی بدقسمتی کہ یہ سب انڈیا میں آج کل ہو رہا ہے۔

مودی جی اس بحران سے کیسے نکل پائیں گے، یہ چیز ان کا مستقبل طے کرے گا۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اس میں دلچسپی کی بات صرف یہ ہے کہ داخلی طور پر کمزور پڑتا انڈین وزیراعظم اپنی طاقت بڑھانے کرنے کے لیے پھر سے کوئی جنگی مہم جوئی نہ کر بیٹھے۔ ہمارا خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ بات سرحد کے دونوں طرف فیصلہ سازوں کو سمجھ لینی چاہیے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US