کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں رہنے والا نوجوان ارمغان قریشی مہنگی گاڑیوں میں سفر کرتا تھا، ورچول کرنسی کا لین دین کرتا تھا مگر ایک دن اس کا ذکر مجرم کے طور پر ہونے لگا جس پر الزام ہے کہ اس نے مصطفیٰ عامر نامی نوجوان کو زندہ جلا ڈالا۔یہ صرف ایک قتل کی واردات نہیں بلکہ یہ اس مافیا کی تہہ در تہہ کہانی ہے، جہاں جرم صرف گولی یا چاقو سے نہیں، بلکہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، اور جعلی شناخت سے بھی کیا جاتا ہے۔رواں سال فروری کے مہینے میں کراچی کے رہائشی مصطفیٰ عامر کو ڈیفنس میں ارمغان کے گھر بلایا جاتا ہے۔ وہاں ایک اور نوجوان لڑکی بھی موجود ہوتی ہے جسے سوشل میڈیا پر زوما یا انجیلا کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس ملاقات میں ارمغان نے اپنے دوست مصطفیٰ عامر کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اگلی صبح مصطفیٰ عامر کی جلی ہوئی لاش بلوچستان کے علاقے حب میں ایک ویران مقام سے ملی۔یہ قتل اس قدر بھیانک تھا کہ خود تفتیشی افسروں نے اعتراف کیا کہ ایسا واقعہ انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔پولیس کے مطابق گرفتار ہونے کے بعد ارمغان نے اعتراف کیا کہ مصطفیٰ پر تشدد کیا گیا، اس کے ہاتھ باندھے گئے، اور اسے گاڑی کی ڈگی میں بند کرکے حب لے جایا گیا۔ وہاں مصطفیٰ کو زندہ جلا دیا گیا۔دوسری جانب ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز نے بھی مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان میں جرم کی تفصیل بتائی۔ زوما جو قتل کے وقت موجود تھی، شدید زخمی ہوئی اور اس نے بھی بیان ریکارڈ کرایا۔یہ کیس ایک معمولی لڑائی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس سے ڈیجیٹل مافیا پر سے پردہ اٹھا۔ ارمغان قریشی نہ صرف ایک قاتل بلکہ ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ نکلا جو پاکستان میں بیٹھ کر غیرملکی شہریوں سے فراڈ کرتا رہا۔پولیس نے ارمغان کے گھر سے 64 لیپ ٹاپ اور درجنوں موبائل فونز برآمد کیے۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ جعلی کال سینٹر چلا رہا تھا جس میں 30 سے زائد ملازم کام کرتے تھے۔ وہ لوگوں سے پیسے لوٹتے، اور یہ رقم کرپٹو کے ذریعے ملک سے باہر منتقل کر دیتے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ملزم کے ڈیجیٹل آلات کا فرانزک تجزیہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
پولیس نے ارمغان کے گھر سے 64 لیپ ٹاپ اور درجنوں موبائل فونز برآمد کیے (فوٹو: سندھ پولیس)
ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے اردو نیوز کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اب تک کے نتائج نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ارمغان 2019 سے رسمی بینکاری نظام استعمال نہیں کر رہا تھا۔ وہ دیگر افراد کے بینک اکاؤنٹس استعمال کرتا اور ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے اربوں روپے منتقل کرتا رہا۔‘
اس سے قبل جب پولیس نے ارمغان کے اثاثوں کی جانچ شروع کی تو کہانی اور بھی گہری ہو گئی۔ پانچ کروڑ سے زائد مالیت کی فورڈ ریپٹر جیپ، چار کروڑ کی آڈی ای-ٹرون، جدید اسلحہ اور منشیات، سب کچھ اس لڑکے کے قبضے سے برآمد ہوا۔اس کے والد کامران قریشی کو بھی گرفتار کیا گیا، جن کے قبضے سے 200 گرام آئس، پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں، ان کے خلاف علیحدہ مقدمہ درج کیا گیا۔سوال پیدا ہوا کہ صرف 20 سے کچھ اوپر عمر کا نوجوان اتنے بڑے نیٹ ورک کا مالک کیسے بن گیا؟ارمغان قریشی کی عدالت میں پیشیاں بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ایک پیشی کے دوران اس نے اپنے والد سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ ’مجھے پاک فوج کی مدد چاہیے۔ مجھے موساد اور یہودی مافیا ٹارگٹ کر رہی ہے۔‘عدالت میں شور شرابہ ہوا۔ جج نے کمرہ عدالت سے کامران قریشی کو نکالنے کا حکم دیا۔ پراسیکیوشن نے ارمغان کے اعترافی بیانات اور دیگر ثبوتوں کی بنیاد پر مکمل چارج شیٹ تیار کرنے کا عندیہ دیا۔مصطفیٰ عامر: مجرم یا مظلوم؟ایک اور پہلو جس پر تفتیش جاری ہے وہ مصطفیٰ عامر کی مبینہ طور پر منشیات سے وابستگی ہے۔
یہ کیس محض قتل کے واقعہ تک محدود نہیں بلکہ یہ پاکستان کے عدالتی اور تفتیشی نظام کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے (فوٹو: سکرین گریب)
پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ مصطفیٰ کا ماضی بھی مشکوک رہا ہے اور ممکن ہے کہ وہ بھی ارمغان کے نیٹ ورک کا حصہ رہا ہو۔ تاہم فی الحال مصطفیٰ قتل کیس میں وہ واحد مقتول اور متاثرہ فریق کے طور پر عدالت میں زیر بحث ہے۔
یہ کیس محض قتل کے واقعہ تک محدود نہیں بلکہ یہ پاکستان کے عدالتی اور تفتیشی نظام کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے جہاں سوشل میڈیا، ایف آئی اے، عدالت، اور عام شہری سب ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا انصاف واقعی سب کے لیے برابر ہے؟یہ سوال اس وقت اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے جب عوام دیکھتے ہیں کہ ایک بااثر نوجوان پولیس حراست میں بھی مختلف ’سہولیات‘ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے، جبکہ مقتول کی ماں میڈیا کے سامنے انصاف کے لیے دہائی دے رہی ہے۔ارمغان قریشی کا کیس اب اپنے انجام کے قریب ہے۔ عبوری چالان جمع ہو چکا ہے، ایف آئی اے کی ڈیجیٹل رپورٹ عنقریب عدالت میں پیش کی جائے گی، اور فریقین اپنے شواہد اور گواہان کی فہرست مرتب کر رہے ہیں۔آئندہ سماعتوں میں فیصلہ ہوگا کہ ارمغان قریشی کو سزا ہوگی یا یہ بھی ایک اور طاقتور کا ’معافی نامہ‘ بن جائے گا۔