اسلام آباد اور راولپنڈی میں زلزلے کے جھٹکے: روات فالٹ لائن کیا ہے اور یہ کتنی طویل ہے؟

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق اتوار کو آنے والا زلزلہ روات فالٹ کے قریب شروع ہوا جو پوٹھوہار کی سطح مرتفع میں ایک متحرک فالٹ لائن ہے۔ یہ علاقہزلزلوں کے ایک فعال زون میں واقع ہے جو انڈین اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹس کی سرحد سے متاثر ہوتا ہے۔

’یہ اسلام آباد میں آج کل اتنے زلزلے کیوں آ رہے ہیں؟‘

سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب یہ سوال کئی سوشل میڈیا صارفین کی زبان پر تھا جب اسلام آباد میں دو روز کے دوران دوسرا زلزلہ محسوس ہوا۔

محکمہ موسمیات کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق، زلزلہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب رات 12 بج کر 10 منٹ پر آیا جس کی شدت 5.1 تھی۔ زلزلے کی گہرائی 10 کلومیٹر تھی جبکہ اس کا مرکز روات سے 15 کلومیٹر جنوب مشرق میں تھا۔

اس سے قبل جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب کو بھی اسلام آباد سمیت ملک کے بالائی حصوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔

تاہم دونوں زلزلوں میں فرق یہ تھا کہ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق دو اگست کو آنے والے زلزلے کا مرکز افغانستان میں فرخار کا علاقہ تھا جہاں سے ہندوکش فالٹ لائن گزتی ہے۔

تاہم پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کے مطابق اتوار کو آنے والا زلزلہ روات فالٹ کے قریب شروع ہوا جو پوٹھوہار کی سطح مرتفع میں ایک متحرک فالٹ لائن ہے۔ یہ علاقہ زلزلوں کے ایک فعال زون میں واقع ہے جو انڈین اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹس کی سرحد سے متاثر ہوتا ہے۔

بیان میں بتایا گیا ہے اس طرح کے کم گہرائی والے زلزلے کے مرکز قریب کے وسیع علاقے میں جھٹکوں کا باعث بن سکتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی سطح پر شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک صارف کی جانب سے شیئر کی جانے والی سی سی فوٹیج میں محسوس کیا جا سکتا ہے کہ زلزلے کی شدت سے دیوار پر نصب کیمرا تک ہل رہا ہے۔

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ زلزلے کی گہرائی محض 10 کلومیٹر تھی اس لیے یہ دارالحکومت میں اتنا شدید محسوس ہوا۔

getty
Getty Images

روات فالٹ لائن کیا ہے اور کیا یہاں زلزلے آنا معمول کی بات ہے؟

بی بی سی نے گذشتہ دو دنوں میں اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے آنے والے زلزلوں کے ممکنہ وجوہات کے بارے میں بات کرنے کے لیے محکمہ موسمیات کے زلزلہ مرکز کے سابق سربراہ زاہد رفیع سے رجوع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہندوکش میں زلزلے آنا عام بات ہے کیونکہ 150 سے 200 کلومیٹر زمین کے نیچے کافی ہلچل ہے۔ یہاں تین پہاڑی سلسلے، ہندوکش، قراقرم اور پامیر ملتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں اتنی ایکٹیوٹی ہوتی ہے کہ زلزلے یہاں کبھی بھی نہیں رکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اصل مسئلہ روات کا ہے۔‘ زاہد رفیع بتاتے ہیں کہ روات میں ایک فالٹ لائن تو ہے لیکن وہ بہت چھوٹی تھی ’جب ہم نے دیکھا تھا تب یہ تقریباً 30 کلومیٹر لمبی تھی جو کہ اتنی زیادہ نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اتنی کم لمبائی میں اتنی شدت یعنی 5.1 شدت کا زلزلہ آنا نہیں چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب اگر یہاں 5.1 شدت کا زلزلہ آیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں فالٹ لائن 30 کلومیٹر نہیں اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘

زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ ’اس بات کی بھی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا واقعی اس زلزلے کا مرکز روات تھا یہ اس سے کچھ ہی دور واقع مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں تھا جہاں سے ایم بی ٹی (مین باؤنڈری تھرسٹ گزرتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جتنی بھی ایڈوانس ٹیکنالوجی ہو لیکن زلزلے کے مرکز کے تعین میں کچھ نہ کچھ غلطی آ ہی جاتی ہے۔

کیا حالیہ زلزلوں کا موسمیاتی تبدیلی سے کوئی تعلق ہے؟

زاہد رفیع کہتے ہیں کہ اگر اس کے بعد کچھ آفٹر شاکس ہوئے ہیں تو وہ اس فالٹ کی لمبائی کے بارے میں اشارہ دے سکتے ہیں۔

انھوں اس بات کو مکمل طور پر رد کیا کہ اس کا موسمیاتی تبدیلی کوئی تعلق ہے۔

زلزلے کی گہرائی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ روات میں آنے والے زلزلے کی گہرائی 10 کلومیٹر تھی لیکن یہ وثوق سے کہنا ممکن نہیں کہ یہ زلزلہ سطح زمین سے 10 کلومیٹر نیچے ہی آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 کلومیٹر اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ہمارے سافٹ ویئر کا ایک ڈیفالٹ ہے کہ جو کم گہرائی والا زلزلہ ہوگا وہ 10 کلومیٹر ہے ’ہو سکتا ہے یہ تھوڑا نیچے ہو یا ممکن ہے کہ تھوڑا اوپر ہو۔‘

’یہ ایسا علاقہ جہاں بہت سیسمک سرگرمی پائی جاتی ہے‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں زلزلوں کی تعداد بڑھ گئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں قدرتی طور پر بہت زیادہ سیسمک سرگرمی پائی جاتی ہے۔

’جیسے جیسے ہم شمال سے شمال مغرب یا شمال مشرق کی طرف جاتے ہیں، وہاں متعدد فعال فالٹس موجود ہیں جو مسلسل زلزلوں کی وجہ بنتی رہتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ آٹھ سے دس سال کے بعد یہ سیسمک سرگرمی کبھی کبھار ایک بڑے زلزلے کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔

زاہد رفیع بتاتے ہیں کہ نتھیا گلی ہلز سے لے کر تربیلا اور گلگت اور اس سے آگے کے علاقے میں بہت فعال فالٹس موجود ہیں۔ ’اس علاقے میں جائیں تو آپ کو ہندوکش اور قراقرم ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں اور ایک جگہ تو ایسی بھی ہے جہاں یہ دونوں ملتے ہیں۔‘

ان کے مطابق، ان دونوں پہاڑوں کے سلسلوں کے نیچے زیرِ زمین اتنا تھرسٹ (دباؤ) ہوتا ہے کہ زلزلے آتے ہی رہتے ہیں ’سیسمک سرگرمی کبھی زیادہ ہو جاتی ہے کبھی ایک لمبا وقفہ آجاتا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ ایک معمول کی بات ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ممکن ہے کہ نیچے زمین میں ایسی کوئی حرکت ہو گئی ہو جس کی وجہ سے سیسمک سرگرمی بڑھ گئی ہو، جب تک یہ حرکت مستحکم نہیں ہوتی، زلزلے جاری رہیں گے۔ جب یہ مستحکم ہو جائے تو ممکن ہے کہ اگلے سو سال تک یہ علاقہ خاموش ہو جائے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow