پنجاب کے شہر شیخوپورہ کے نواحی گائوں میں شوہر کے ہاتھوں 9 جولائی کو قتل ہونے والی 6 ماہ کی حاملہ اقراء 7 بہن بھائی ہیں۔ مقتولہ کے سب سے بڑے بہنوئی نوید نے ’’ہماری ویب‘ کو بتایا کہ اقراء کی شادی شدہ زندگی اچھی چل رہی تھی کوئی جھگڑا نہیں تھا لیکن عاشورہ کے دنوں میں انکی ساس نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر لانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ملزم زوہیب اپنی بیوی کو 7 محرم کو ان کے والدین کے ساتھ بھجوانے پر راضی ہوا تھا مگر عاشورہ کے بعد جب ملزم انکی سالی کو اپنے گھر واپس لیکر گیا تو رات دس بجے والدین کے فون کرنے پر اقراء نے بتایا کہ اس کے سر میں درد ہے جسے انکے گھر والوں نے عمومی خیال کیا مگر انہیں کیا علم تھا کہ ظالم شوہر نے اپنی بیوی کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
مدعی مقدمہ محمد اختر کے داماد محمد نوید بتاتے ہیں کہ ملزم نےعاشورہ میں میکے جانے کی بنیاد پر اپنی بیوی کیساتھ جھگڑا کیا اور مقتولہ کے سر پر آہنی راڈ مارے، ایک کان بھی کاٹ دیا تھا جبکہ اس کی آنکھوں میں بھی قینچی سے وار کر کے اسے بینائی سے محروم کر دیا گیا ۔ محمد نوید کے مطابق ان کے سسر محمد اختر جو اس مقدمہ کے مدعی بھی ہیں وہ شوگر اور ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں اور اپنی بیٹی کے غم میں مزید نڈھال ہو چکے ہیں جبکہ انکی ساس بھی بیٹی کے غم میں بیمار ہو چکی ہیں۔
تھانہ مانانوالہ کے تفتیشی افسر سرفراز احمد نے ’’ ہماری ویب‘‘ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مقدمہ کی تفتیش ان سے واپس لے گئی ہے کیونکہ مقدمہ میں پہلے اقدام قتل کی دفعات شامل تھیں اور جب اقراء ہسپتال میں جاں بحق ہوئی تو کے بعد مقدمہ کی تفتیش دوسرے تفتیشی افسر کو منتقل کر دی گئی۔
محمد اختر کے داماد نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے صرف زوہیب کو گرفتار کیا ہے جبکہ ملزم کا باپ مانانوالہ میں موٹرسائیکل شو روم کا مالک اور با اثر آدمی ہے، جسے ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے انہیں ابھی تک ایف آئی آر کی کاپی تک فراہم نہیں کی اور نہ ہی نہیں پولیس تفتیش کے متعلق کچھ زیادہ علم ہے۔
مقدمہ میں درج متن اور محمد نوید کی واقعہ کے متعلق ’’ ہماری ویب‘‘ کو فراہم کی گئی تفصیلات کی تصدیق اور تفتیش میں پیش رفت کیلئے جب ڈی پی او شیخوپورہ زاہد مروت کو واٹس ایپ میسج اور کال کے ذریعے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کال ریجکٹ کی اور خبر تحریر کرنے تک بھیجے کے میسج کا جواب بھی نہیں دیا۔
پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنیوالے اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ لاہورہائیکورٹ میں خواتین پر مختلف نوعیت کے تشدد بارے مقدمات کی تیارکی گئی رپورٹ کے مطابق 2024ء کے آخر تک پنجاب بھر میںمجموعی طور پر 22036 مقدمات زیر التواء تھے ۔قتل اور اقدام قتل کے 163 مقدمات پر فیصلے کئے گئے جن میں سے 22 ملزموں کو سزائیں سنائیں گئیں ، 90 ملزمان بری ہوئے، 16 مقدمات راضی ناموں کی بنیاد پر نمٹائے گئے۔رپورٹ کے مطابق خواتین پر جنسی تشدد،اغواء، سمگلنگ، صنفی بنیاد پر تشدد، معاشی تشدد، حراسگی اور سائبر کرائم کے 25061 مقدمات کے ٹرائل ہوئے اور 580کے فیصلے کئے گئے جس میں سے 14696مقدمات میں ملزم بری ہوئے ، 1135 مقدمات راضی نامہ کی بنیاد پر نمٹائے گئے۔
فوجداری قانون کے ماہر فیصل باجوہ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ خواتین پر تشدد کے کیسز بالخصوص قتل اور اقدام قتل کے مقدمات میں ملزموں کی بریت کی شرح اس وجہ سے زیادہ ہوتی کہ اکثر کیسز میں مدعی اور ملزم رشتہ دار ہوتے ہیں اور ٹرائل میں کچھ وقت گزرنے کے بعد فریقین راضی نامہ کر لیتے ہیں اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ چونکہ پولیس کا کام شواہد اور ثبوت اکٹھے کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات مدعی، گواہان یا وارثان اصل حقائق چھپا لیتے ہیں جو عدالت میں جا کر ثابت نہیں ہوتے اور اس وجہ سے ملزموں کی بریت کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
مقدمہ میں درج کہانی اور حقائق میں فرق کے سوال پر فیصل باجوہ نے کہا کہ پولیس پولیس روایتی انداز سے چشم دید گواہ بنانے کی کوشش کرتی ہے ایسا تو کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی ملزم جرم کرنے کیلئے چشم دید گواہ کا انتظار کرے اس لئے پولیس فرضی گواہ بناتی ہے جس میں اہم قانونی نکتہ یہی ہوتا ہے کہ ایسے کیسز میں چشم دید گواہوں کی اہمیت زیادہ نہیں رہتی اور بار ثبوت ملزم پر منتقل ہو جاتا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس کی بیوی اسی کے گھر میں قتل ہوئی تو کیسے ہوئی، ایسے کیسز میں ملزم محض الزام سے انکار کر کے بچ نہیں سکتا بلکہ اسے یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ایسا واقعہ کیوں اور کیسے ہوا۔