احمد آباد میں گذشتہ ماہ ایئر انڈیا کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ نے جہاں اس معاملے سے جڑے چند سوالوں کے جوابات فراہم کیے ہیں وہیں ٹیک آف کے فوراً بعد جہاز کے کریش ہونے سے متعلق نئی قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا ہے۔
ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 ٹیک آف کے بعد بمشکل 40 سیکنڈ تک فضا میں رہنے کے بعد گِر کر تباہ ہو گئی تھیانڈیا کی ریاست احمد آباد میں گذشتہ ماہ ایئر انڈیا کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ نے جہاں اس معاملے سے جڑے چند سوالوں کے جوابات فراہم کیے ہیں وہیں ٹیک آف کے فوراً بعد جہاز کے کریش ہونے سے متعلق نئی قیاس آرائیوں نے بھی جنم لیا ہے۔
ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 ٹیک آف کے بعد بمشکل 40 سیکنڈ تک فضا میں رہنے کے بعد ایئرپورٹ کے نزدیک واقع ایک گنجان آباد علاقے میں گِر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اسے انڈیا کی ہوابازی کی تاریخ کے سب سے پراسرار حادثات میں سے ایک میں شمار کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
اس حادثے میں طیارے پر سوار 241 افراد اور زمین پر موجود 19 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ایک مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا تھا۔
اس حادثے کی تحقیقات کرنے والے انڈین ادارے ’ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بیورو‘ (اے اے آئی بی) کی جانب سے سنیچر کے روز شائع کی جانے والی ابتدائی رپورٹ اس ضمن میں سامنے آنے والی پہلی رپورٹ ہے۔
تاہم ایوی ایشن شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں تفتیش کاروں نے صرف چنندہ باتیں ہی کی ہیں۔
رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟
ابتدائی رپورٹ کے مطابق ٹیک آف کے فوراً بعد طیارے کے دونوں فیول کنٹرول سوئچ اچانک ’کٹ آف‘ پوزیشن پر چلے گئے تھےبین الاقوامی پروٹوکول کے تحت جو بھی ملک کسی فضائی حادثے کی تحقیقات کر رہا ہوتا ہے، اس پر لازم ہے کہ حادثے کے 30 روزکے اندر ایک ابتدائی رپورٹ پیش کرے اور اے اے آئی بی کی رپورٹ اسی ضمن میں پیش کی گئی ہے۔
حالانکہ اے اے آئی بی اس تحقیقات کی قیادت کر رہی ہے لیکن اس حادثے میں امریکی دلچسپی بھی صاف واضح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والا جہاز بنانے والی کمپنی ’بوئنگ‘ اور اس کا انجن بنانے والی ’جی ای ایروسپیس‘ دونوں ہی امریکی کمپنیاں ہیں۔
رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس حادثے کی اصل وجہ کیا بنی۔ تاہم اس کے باوجود، اس رپورٹ نے کئی تنازعات کو جنم دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 12 سال پرانے بوئنگ 787 ڈریم لائنر طیارے کے ٹیک آف کے فوراً بعد دونوں فیول کنٹرول سوئچ اچانک ’کٹ آف‘ پوزیشن پر چلے گئے (یعنی بند ہو گئے) جس کے باعث طیارے کے دونوں انجنوں کو ایندھن کی فراہمی رُک گئی اور مکمل پاور لوڈ ڈاؤن ہو گیا۔
عام طور پر مسافر طیاروں میں ’کٹ آف‘ موڈ لینڈنگ کے بعد استعمال کیا جاتا ہے، دوران پرواز نہیں۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق جب کاک پٹ میں ہونے والی پائلٹس کی گفتگو اور مختلف قسم کی ’مشینوں کی آوازوں‘ کی ریکارڈنگ کا جائزہ لیا گیا تو اس میں سامنے آیا کہ حادثے سے قبل ایک پائلٹ دوسرے سے پوچھتا ہے کہ ’تم نے (فیول کنٹرول سوئچ) کٹ آف کیوں کیا؟‘ جس پر جواب ملتا ہے کہ ’میں نے نہیں کیا۔‘
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ جملے کس نے کہے۔ اسپرواز کے وقت معاون پائلٹ (کو پائلٹ) جہاز اڑا رہے تھے جبکہ طیارے کے کپتان اس پورے عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ ابتدائی رپورٹ کا مقصد واقعے کی مکمل تصویر پیش کرنا یا حتمی نتیجہ اخذ کرنا نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ کا مقصد ابتدائی مراحل میں حاصل کی گئی معلومات کا خلاصہ پیش کرنا ہوتا ہے جو آگے چل کر ایک طویل تفتیش میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
تفتیش کاروں کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لے کر آئیں۔
رپورٹ میں کیا معلومات دستیاب نہیں؟
تباہ ہونے والے طیارے کا ملبہ احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل ایئرپورٹ پر رکھا گیا ہےاب تک جاری کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر کچھ افراد نے میڈیا میں اور آن لائن دعوے کیے ہیں کہ یہ حادثہ دونوں میں سے ایک پائلٹ کی جانب سے اٹھائے گئے دانستہ اقدام کی وجہ سے پیش آیا ہے۔
ان دعوؤں پر انڈین کمرشل پائلٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے متنبہ کیا ہے کہ ’نامکمل یا ابتدائی معلومات کی بنا پر اس طرح کے سنگین الزام عائد کرنا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے بلکہ اس (حادثے) میں متاثر ہونے والے اور اُن کے اہلخانہ کے لیے بھی انتہائی غیر حساس رویہ ہے۔‘
انڈین کمرشل پائلٹس ایسوسی ایشن کا مزید کہنا ہے کہ ’مصدقہ شواہد کی عدم موجودگی میں یہ تاثر دینا کہ پائلٹ نے خودکشی کی ہے، رپورٹنگ کی اخلاقی ذمہ داریوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
ایئر انڈیا کے سی ای او کیمبل ولسن کی جانب سے عملے کو بھیجے گئے ایک میمو میں بھی ایسا ہی موقف اپنایا گیا ہے اور ’قبل از وقت نتائج‘ اخذ کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔
انڈین تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد بی بی سی نے ایوی ایشن صنعت سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد بشمول پائلٹس، حادثات کی تحقیقات کرنے والوں اور انجینیئرز سے بات کی ہے۔ بیشتر کی رائے یہ ہے اب بھی بہت سی اہم معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پائلٹ نے بتایا کہ ’انھوں نے ابھی ہمیں وہی بتایا ہے جو وہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں اور وہ چھپایا ہے جو وہ بتانا نہیں چاہتے۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک نامکمل رپورٹ ہے۔
رپورٹ پر فی الحال سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ کاک پٹ وائس ریکارڈر سے حاصل ہونے والی گفتگو کی ٹراسکرپٹ مہیا نہیں کی گئی ہے۔ اس ٹراسکرپٹ سے پائلٹوں کے درمیان فیول کٹ آف سوئچز کے بارے میں ہونے والی بات چیت کا سیاق و سباق سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لیہم نیوز سے تعلق رکھنے والے ایروناٹیکل تجزیہ کار بیون فیہرم کا کہنا ہے کہ یہ ’قطعی طور پر ناقابل قبول‘ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ان کے پاس یہ تمام تکنیکی تفصیلات موجود ہیں۔ پھر آپ کے پاس پائلٹس کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کا یہ حوالہ ہے، لیکن اس سے آپ کو یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ بات کون کر رہا ہے۔‘
فیہرم کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ کاک پٹ میں سوئچز کو رن سے کٹ آف تک کرنے کے درمیان کیا ہوا۔ پہلے سوئچ کو 10 سیکنڈ بعد دوبارہ نارمل پرواز کی پوزیشن پر لایا گیا جس سے انجن دوبارہ سٹارٹ ہونے کا عمل شروع ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’کوئی ہے جو کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
ایک انجینئرنگ ذریعے نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ’انتہائی سلیکٹیو‘ ہے اور اس بارے میں کوئی تفصیلی معلومات نہیں دی گئی ہیں کہ سوئچ پلٹنے سے پہلے انجن کس حالت میں تھا۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انجن کی رفتار ٹیک آف کے بعد کم ہونا شروع ہو گئی تھی ’کیونکہ انجنوں کو ایندھن کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کیونکہ پائلٹوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ اگر جہاز کا کوئی انجن طاقت کھونے لگے تو وہ فیول سوئچ کو کٹ آف کر کے دوبارہ آن کریں تاکہ انجن کو دوبارہ سٹارٹ کیا جا سکے۔
برطانیہ میں فضائی حادثات کے سابق تفتیش کار ٹِم اٹکنسن کا کہنا ہے کہ ایسی رپورٹ پڑھ کر بہت مایوسی ہوئی جو چند اہم حقائق تو فراہم کرتی ہیں لیکن اس سے زیادہ سوالات پیدا کرتی ہے۔
رپورٹ کا ایک اور عنصر جو تنازع کا باعث بن رہا ہے وہ 2018 میں امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کی جانب سے جاری کیے گئے ایک سیفٹی بلیٹن کا حوالہ ہے۔
اس مراسلے میں ایف اے اے نے متنبہ کیا تھا کہ کچھ بوئنگ 737 ماڈلز میں فیول کنٹرول سوئچز کو لاکنگ فیچر منقطع کر کے انسٹال کیا گیا تھا جس کی وجہ سے حادثاتی طور پر فیول سوئچز کے کھلنے بند ہونے کا امکان تھا۔ تاہم امریکی تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ فیچر نہ ہونا جہاز کو غیر محفوظ نہیں بناتا۔
ایف اے اے نے بوئنگ ماڈلز کے آپریٹرز کو فیول کٹ آف سوئچز کے لاکنگ فیچر کا معائنہ کرنے کی تجویز دی تھی۔
اے اے آئی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایئر انڈیا نے اس تجویز پر عملدرآمد نہیں کیا تھا۔ اس بات نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ حادثہ سوئچز کے اتفاقی طور پر پلٹ جانے کے سبب پیش آیا ہو۔
اس کے علاوہ، انجینئرنگ ذرائع نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے تھروٹل کنٹرول ماڈیول کو دو مرتبہ تبدیل کیا جا چکا تھا۔ آخر مرتبہ تھروٹل کو حادثے سے دو سال قبل بدلا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں کٹ آف سوئچز کو بھی تبدیل کرنا پڑا ہو گا۔
ایروناٹیکل تجزیہ کار بیون فیہرم کے مطابق، حادثے کے تناظر میں رپورٹ میں دیا گیا ایف اے اے کی ایڈوائزری کا حوالہ ’مکمل طور پر غیر متعلقہ‘ تھا۔
بہرحال انڈیا کی سول ایوی ایشن نے ان تمام فلائیٹ آپریٹرز کو 21 جولائی تک فیول سوئچز کا معائنہ کرنے کی ہدایت دی ہے جن پر ایف اے اے کی ایڈوائزری لاگو ہوتی ہے۔
ٹم اٹکنسن کے خیال میں رپورٹ جان بوجھ کر اس لیے مبہم رکھی گئی ہے تاکہ براہِ راست کچھ کہنے کے بجائے حادثے کی وجوہات کے بارے میں محض تجاویز دے کر کام چلایا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ اُن رپورٹس کو ’انتہائی خراب رپورٹس‘ کہا جاتا ہے جن میں براہِ راست کچھ کہنے کے بجائے ’بین السطور‘ بات کر دی جائے۔ اٹکنسن کہتے ہیں کہ اگر اس رپورٹ میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے تو اس سے تفتیش کاروں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
دریں اثنا ایسے افراد جو ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کو پیش آنے والے حادثے کے ٹھوس حقائق جاننا چاہتے ہیں انھیں فی الحال انتظار کرنا پڑے گا۔
بین الاقوامی پروٹوکول کے تحت کسی بھی فضائی حادثے کی رپورٹ ایک سال کے اندر اندر شائع کرنا لازمی ہے۔ تاہم حقیقی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔