برطانیہ اور یورپی ایوی ایشن حکام نے جولائی 2020 میں پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی عائد کی تھی تاہم لگ بھگ ساڑھے چار سال بعد 29 نومبر 2024 کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے پاکستان کی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) سمیت نجی فضائی کمپنیوں پر یورپ میں فلائٹ آپریشن پر عائد پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ اب برطانیہ نے بھی پاکستانی ایئر لائنز کے ملک میں داخلے پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔

برطانیہ نے پاکستانی ایئرلائنز کے ملک میں داخلے پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔
پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا نام برطانیہ کی ایئر سیفٹی لسٹ سے حذف کر دیا گیا اور اب پاکستانی ایئرلائنز برطانیہ میں فلائٹ آپریشن شروع کرنے کے لیے اپلائی کر سکتی ہے۔
یاد رہے برطانیہ اور یورپی ایوی ایشن حکام نے جولائی 2020 میں پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی عائد کی تھی تاہم لگ بھگ ساڑھے چار سال کی پابندی کے بعد 29 نومبر 2024 کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے پاکستان کی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) سمیت نجی فضائی کمپنیوں پر یورپ میں فلائٹ آپریشن پر عائد پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
برطانوی ہائی کمشن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ایئر سیفٹی کے اقدامات میں بہتری کے بعد برطانیہ نے پاکستانی ایئرلائنز پر سے عائد پابندی کو ہٹا دیا تاہم اب بھی ہر ایئرلائن کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے برطانیہ میں آپریٹ کرنے کی اجازت طلب کرنا ہو گی۔‘
پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کا کہنا ہے کہ ’میں بین الاقوامی حفاظتی معیار کو بہتر بنانے کے لیے برطانیہ اور پاکستان کے ایوی ایشن ماہرین کے ساتھ مل کر کام کرنے پر ان کی شکرگزار ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’فلائٹس کی بحالی میں اب بھی کچھ وقت لگے گا لیکن میں برطانیہ میں اپنے خاندان اور دوستوں سے جا کر ملنے کے لیے پاکستانی ایئرلائن میں سفر کرنے کی منتظر ہوں۔‘
قومی ایئرلائن کی برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی ہماری ساکھ کی بحالی کا ثبوت ہے: وزیراعظم شہباز شریف
https://twitter.com/CMShehbaz/status/1945408949483909464
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’اللہ کے فضل سے پاکستان ایک بار پھر سرخرو ہوا اور ہماری قومی ایئرلائن کی برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی ہماری ساکھ کی بحالی کا ثبوت ہے۔‘
اپنی ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ خدا کا شکر ہے، پی آئی اے ایک بار پھر برطانوی فضاؤں میں پرواز کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے بعض ارکان کے غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد بیانات نے پاکستان کو عالمی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے قومی ایئرلائن کو برسوں تک یورپ اور برطانیہ جیسے اہم بین الاقوامی روٹس سے محروم رہنا پڑا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں 16 لاکھ سے زائد پاکستانی نژاد افراد بستے ہیں جبکہ ہزاروں برطانوی شہری پاکستان میں رہائش پذیر یا مقیم ہیں، اس لیے پروازوں کی بحالی دونوں ممالک کے درمیان خاندانی روابط، سفری سہولت اور تجارت کے نئے مواقع لے کر آئے گی۔
انھوں نے برطانیہ کو پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست سفر کی بحالی سے تجارتی تعلقات کو بھی تقویت ملے گی۔
پابندی کے نتیجے میں قومی شناخت مجروع ہوئی اور قومی ایئر لائن کو اربوں روپے کا نقصان ہوا: خواجہ آصف
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نام برطانیہ کی ایئر سیفٹی لسٹ سے نکلنا ایک اہم سنگ میل ہے اور خوش اسلوبی سے پی آئی اے پر سے پابندیاں ہٹ گئیں ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا 2020 میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے جو کیا وہ ریاست کے خلاف ایک جرم تھا جس کی انھوں نے کوئی وضاحت نہیں دی۔
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ اس پابندی کے نتیجے میں قومی شناخت مجروع ہوئی اور قومی ائیر لائن کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ائیر لائن پر پابندی بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے ایک بڑا صدمہ تھی۔ ’انھیں اپنے پیاروں کی میتیں وہاں دفن کرنا پڑ رہی تھیں اور اگر ان کی آخری خواہش ملک میں دفن ہونا ہو تو لواحقین کو اس پر ہزاروں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔‘
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ بزنس کی کمی اور اس کی شہرت کو لگنے والے دھچکے کی وجہ سے پی آئی اے ایک متروک قسم کی ایئر لائن بن گئی، اس کے جہاز ڈس فنکشنل ہو گئے، اس کے پائلٹس کی شہرت مجروع ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا لہذا اب ہم آپریٹنگ لائسنس کے لیے اپلائی کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے علاوہ ایئر بلیو کو بھی اجازت مل گئی ہے۔
وزیر دفاع نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) پر یورپی یونین اور برطانیہ کے اعتماد کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی ریگولیٹری اتھارٹی پر اعتماد کی بحالی کا ثبوت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بین الاقوامی ریگولیٹرز نے اس عمل میں حکومت کو رہنمائی فراہم کی تاکہ اجازت دینا ممکن اور آسان ہو جائیں۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ پی آئی اے کی نیویارک پرواز کو بھی جلد بحال کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اس اقدام سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے وطن آنے جانے میں سہولت میسر آئے گی، وقت اور اخراجات دونوں کی بچت ہو گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے یہ ایک خوشخبری ہے کہ وہ کم خرچ اور زیادہ آسانی سے پاکستان کا سفر کر سکیں گے۔
پابندی کیوں عائد کی گئی تھی؟

مئی 2020 میں کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش ہونے والے حادثے کے بعد جون 2020 میں اُس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ کمرشل پائلٹس کی ایک بڑی تعداد نے ’مشکوک لائسنس‘ حاصل کر رکھے ہیں۔
اس بیان کے نتیجے میں جنم لینے والے تنازعے اور بحث و مباحثے کے بعد یکم جولائی 2020 کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کر دیا تھا، بعد ازاں آٹھ اپریل 2021 کو یورپین یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے پر سفری پابندیوں میں غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی تھی۔
واضح رہے کہ یورپی یونین کی فضائی حدود میں پرواز کرنے والی تمام کمرشل اور چارٹرڈ پروازوں کو ٹی سی او کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہوتی ہے۔
ٹی سی او کو 2016 میں نافذ کیا گیا تھا جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یورپی ممالک میں چلنے والے تمام طیارے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے حفاظتی معیارات کے مطابق ہوں۔
پی آئی اے کو پابندی کے باعث کتنا نقصان ہوا؟

اس حوالے سے بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بتایا کہ یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی کی جانب سے پابندی کے اطلاق سے قبل پی آئی اے کی سالانہ آمدن میں یورپ اور امریکہ کا حصہ 37فیصد بنتا تھا یعنی ’ہم پابندی عائد ہونے سے قبل اپنی آمدن کا 37 فیصد حصہیورپ اور برطانیہ کے فلائیٹ آپریشنز سے حاصل کر رہے تھے جو تقریباً 47 ارب روپے بنتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس میں 40-42 فیصد برطانیہ سے حاصل ہو رہا تھا اور باقی یورپ سے۔
عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ اگر اس میں مہنگائی، افراط زر اور مارکیٹ گروتھ کا تخمینہ شامل کریں اور وہی فل کپیسٹی (مکمل گنجائش) رکھیں جس پر پہلے آپریٹ کیا جاتا تھا تو یہ 170 ارب بنتے ہیں۔
پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اب جب پابندی ہٹ چکی ہے تو ہم ایک دم پابندی سے پہلے والے لیول پر آپریٹ نہیں کر سکتے، یہ عمل مرحلہ وار ہو گا، مارکیٹ کو دیکھنا ہو گا، گراؤنڈ لیول پر انتظامات وغیرہ اور بہت کچھ مدِنظر رکھنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا صرف برطانیہ میں تین فلائٹس آپریٹ کرنے کے ساتھ ہی پی آئی اے کو تقریباً 10-12 ارب کا ریوینو ملے گا۔
عبداللہ حفیظ نے مزید کہا کہ پی آئی اے ابتدائی طور پر تو تینپروازوں سے آغاز کر رہا ہے جس کو بتدریج بڑھایا جائے گا اور لندن اور برمنگھم کے روٹس بھی شامل کیے جائیں گے۔
پی آئی اے کے ترجمان کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کے یومِ آزادی یعنی 14 اگست سے برطانیہ کے لیے پروازوں کا آغاز کیا جائے۔
خیال رہے پابندیوں کے باعث پی آئی اے کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے اس سے قبل نومبر 2024 میں پی آئی اے کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اگر ہم چار، ساڑھے چار سال کا عرصہ لگائیں اور اس میں مہنگائی اور افراط زر اور مارکیٹ گروتھ کا تخمینہ شامل نہ بھی کریں تو یہ رقم لگ بھگ 200 ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ یعنی ان ساڑھے چار برسوں کے دوران پی آئی اے کو تقریباً 200 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
کیا پی آئی اے کی نجکاری میں بھی فائدہ ہو گا؟

پی آئی اے سے یورپ کے بعد برطانیہ سے پابندی ایک ایسے وقت میں ختم ہوئی ہے جب پاکستانی حکومت اس کی نجکاری کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں نجکاری کمیشن کو پانچ پارٹیوں کی جانب سے دستاویز موصول ہوئی ہیں جنھوں نے ایئرلائن کی خریداری میں دلچپسی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے خسارے میں چلنے والے چند قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہے۔ پی آئی اے گذشتہ کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔
آج وزیر دفاع خواجہ آصف نے برطانیہ کی جانب سے پاکستانی ایئر لائنز پر پابندی کے خاتمے پر کہا کہ اس پیشرفت سے نہ صرف قومی ایئرلائن کی بین الاقوامی ساکھ بحال ہوگی بلکہ آئندہ نجکاری کے عمل میں اس کی قدر میں بھی اضافہ ہوگا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان قومی ایئرلائن پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے تاکہ ادارے کی قدر میں اضافہ ہو اور بین الاقوامی سطح پر اسے مزید فعال اور قابلِ اعتماد بنایا جا سکے اور یہ ادارہ ایک بہتر قیمت پر نجی شعبے کے حوالے کیا جا سکے۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کو جدید جہاز، نئے فضائی راستے اور عالمی معیار کی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور جو بھی نجی گروپ اس ادارے کو سنبھالے گا اسے ایک مکمل اور فعال ایئرلائن ملے گی۔