مولانا خان زیب کی یاد میں ’مِنی لائبریریز‘، ’اپنی جان سے زیادہ اِن کی حفاظت کریں گے‘

image

خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند کے نوجوانوں نے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقتول رہنما مولانا خان زیب کی یاد میں ایک ’منی لائبریری‘ قائم کی ہے۔

یہ منی لائبریری مہمند سٹوڈنٹس یونین اور ڈسٹرکٹ یوتھ آفس کے اشتراک سے مہمند کی تحصیل حلیمزئی کے نحقی پارک میں قائم کی گئی ہے۔

گذشتہ جمعرات کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم قبائلی ضلع باجوڑ میں اے این پی کے رہنما مولانا خان زیب کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

فائرنگ سے گاڑی میں موجود ان کا ایک اور ساتھی بھی جان کی بازی ہار گیا تھا جبکہ تین افراد زخمی ہوئے تھے۔

مولانا خان زیب کے قتل کے بعد ضلع مہمند کے نوجوانوں نے انہیں ایک الگ انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پورے ضلعے میں ’منی لائبریریز‘ قائم کرنے کی تحریک شروع کر دی ہے۔ 

مولانا خان زیب کو مہمند کے لوگ ایک ایسی شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں جن کی نہ صرف دینی علوم پر گہری دسترس تھی بلکہ انہوں نے عصری تعلیم، ماحولیاتی تحفظ اور خواتین کی تعلیم جیسے موضوعات پر بھی بے باک انداز میں آواز بلند کی۔

مہمند سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر رضوان مہمند نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مولانا خان زیب کا ہر طبقے سے گہرا تعلق تھا۔ وہ کسی ایک مکتبۂ فکر یا سیاسی نظریے تک محدود نہیں تھے۔‘

’وہ سب کا احترام کرتے تھے، وہ ہماری دعوت پر حجرے اور دیگر مقامات پر آتے اور ہر موضوع پر کھل کر بات کرتے تھے۔ مولانا خان زیب کی سوچ کا محور قوم کی بیداری اور خودمختاری تھا۔‘

مولانا خان زیب نے خیبر پختونخوا کے معدنی وسائل پر ایک کتاب بھی لکھی اور اس میں صوبے کے ہر ضلعے کے معدنی ذخائر کی تفصیلات درج کیں۔

رضوان مہمند بتاتے ہیں کہ ’مولانا خان زیب سمجھتے تھے کہ مقامی افراد کو اپنے وسائل پر اختیار ہونا چاہیے تاکہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ وہ چاہتے تھے کہ قوم کی فکر میں پختگی آئے اور لوگ اپنے حقوق سے آگاہ ہوں۔‘

رضوان مہمند کے مطابق انہوں نے سٹڈی سرکلز اور آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں کو کتابوں سے جوڑا (فوٹو: رضوان مہمند)

مولانا خان زیب کی اسی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے مہمند سٹوڈنٹس یونین نے منی لائبریریز کے قیام کا فیصلہ کیا۔

یہ منی لائبریریز لکڑی سے بنے چھوٹے ڈبوں کی شکل میں ہیں جنہیں عوامی مقامات پر نصب کیا جا رہا ہے۔

مقامی افراد بغیر کسی فیس کے ان سے کتابیں لے کر پڑھ سکتے ہیں اور اپنی کتابیں عطیہ بھی کر سکتے ہیں۔

مہمند سٹوڈنٹس یونین کے موجودہ صدر عمیر ملک بتاتے ہیں کہ ‘ہم ایسی جگہوں کا انتخاب کر رہے ہیں جہاں لوگوں کی زیادہ آمدورفت ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مقامی افراد کس قسم کی کتابوں سے محروم ہیں اور اُسی کے مطابق کتابیں فراہم کرتے ہیں۔‘

نحقی پارک، تحصیل حلیمزئی میں قائم ہونے والی یہ پہلی منی لائبریری اس سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے۔

مہمند سٹوڈنٹس یونین کا ارادہ ہے کہ ضلعے کی تمام 8 تحصیلوں میں ایسی لائبریریاں قائم کی جائیں۔ اس منصوبے کے لیے مقامی سول انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لی گئی ہے اور ڈسٹرکٹ یوتھ آفس بھی مالی تعاون فراہم کر رہا ہے۔

مہمند کے نوجوانوں نے مولانا خان زیب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’منی لائبریریز‘ کی تحریک شروع کی (فوٹو: رضوان مہمند)

عمیر ملک کے مطابق ایک منی لائبریری کے قیام پر تقریباً 20 سے 25 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں جن میں کتابوں کے علاوہ لکڑی کے ڈبوں کی تیاری اور تنصیب کا خرچ بھی شامل ہے۔

نوجوانوں کے اس اقدام کو مقامی افراد کی جانب سے بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ عمیر ملک بتاتے ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ وہ ان لائبریریوں کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کریں گے۔‘

اس کے علاوہ اب ہم کتابوں کے عطیات کے لیے کمیونٹی سے رابطہ کر رہے ہیں اور مخیر حضرات بھی اس کارِخیر میں حصہ ڈال رہے ہیں۔‘

’مقامی افراد کا جوش و جذبہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مہمند کے عوام علم کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں اور اسے اپنی ترقی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔‘

اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مہمند جیسے قبائلی علاقوں میں بنیادی سہولیات تک رسائی بھی ایک چیلنج رہا ہے۔ ایسے علاقے میں کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینا مشکل رہا ہے۔ تاہم مولانا خان زیب نے اپنی زندگی میں اس کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

رضوان مہمند کے مطابق انہوں نے سٹڈی سرکلز، بُک ریویو سیشنز اور آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں کو کتابوں سے جوڑا۔

مولانا خان زیب کو باجوڑ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا (فائل فوٹو: مولانا خان زیب ایکس اکاؤنٹ)

ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج مہمند میں لوگ نہ صرف کتاب پڑھنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں بلکہ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مولانا خان زیب کی خواہش تھی کہ ان کی قوم ترقی اور خوش حالی دیکھے۔ وہ چاہتے تھے کہ جو شمع انہوں نے روشن کی وہ کبھی نہ بجھے۔ اسی لیے ہم نے یہ منی لائبریری قائم کی ہے تاکہ ان کی سوچ کو دوام ملے اور ان کا بویا ہوا بیج تناور درخت بنے۔‘

منی لائبریری کا یہ تصور خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں پہلے سے ہی اپنایا جا چکا ہے۔

سوات کے علاقے میں سماجی کارکن فیاض خان کی جانب سے مختلف مقامات پر ایسی لائبریریاں قائم کی جا رہی ہیں جبکہ باجوڑ میں بھی ایسی لائبریریاں قائم کی جا رہی ہیں۔

عمیر ملک کے مطابق ’یہ مولانا خان زیب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے اور ان کا پیغام عام کرنے کا ہمارا طریقہ ہے۔ امید ہے کہ صوبے بھر میں یہ طریقہ کار اپناتے ہوئے مولانا خان زیب کی فکر کو فروغ دیا جائے گا۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts