افغانستان کی جانب سے کنٹری اوریجن سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بارڈر کے دونوں اطراف 1700 کے قریب گاڑیاں پھنس گئیں جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
پاک افغان بارڈر پر دونوں اطراف پھنسی ہوئی گاڑیوں میں کوئلہ اور سوپ سٹون کی گاڑیاں شامل ہیں، گزشتہ ایک ہفتہ سے کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے طورخم اور خرلاچی پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔

کوئلہ تجارت سے وابسطہ جمشید خان کے مطابق کوئلہ اور سوپ سٹون گاڑیوں کی کلیئرنس معطلی کی اصل وجہ کنٹری اوریجن سرٹیفکیٹ ہے جو افغان حکومت جاری کرتی ہے، اس سے قبل پاک افغان تاجر الیکٹرانک امپورٹ فارم پر کام کرتے تھے، افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بینک نظام متاثر ہونے سے حکومت پاکستان نے الیکٹرانک امپورٹ فارم کو ختم کردیا تھا، جمشید کے مطابق پاک افغان تجارت میں سینٹرل ایشیاء اور ایرانی مصنوعات پر ٹیکس شرح افغانی مصنوعات سے مختلف ہے اس لیے حکومت نے سینٹرل ایشیاء اور ایرانی اشیاء کو افغانی اشیاء میں شمار کرنے سے روکنے کے لیے افغان تاجروں پر کنٹری اوریجن سرٹیفکیٹ کی شرط عائد کر دی جس میں چار چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ پہلا ایکسپورٹر کانام، امپورٹر، وزن اور ویلیو شامل ہے، اب افغان حکومت کی اس سرٹیفکیٹ میں غلطیوں کی وجہ سے تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث سینکڑوں مال بردار گاڑیاں بارڈر کے دونوں اطراف کھڑی ہیں۔

افغان حکومت کمپیوٹر سسٹم میں کوئلہ فی ٹن پہلے سے ہی 100 ڈالر فیڈ ہے جبکہ اصل قیمت 95 امریکی ڈالر ہے جس سے کلیئرنگ کے عمل میں رکاوٹ آتی ہے اب افغان حکومت کی جانب سے کنٹری اوریجن سرٹیفکیٹ میں ایکسپورٹر کا نام شامل نہیں ہوتا یا امپورٹر کی پوری تفصیل نہیں ہوتی، اس سے بھی گاڑیوں کی کلیئرنس تعطل کی شکار ہوتی ہے۔
جمشید کے مطابق کوئلہ اور سوپ سٹون کی گاڑیوں کے کلیئرنس معطلی کی وجہ سے نہ صرف تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ حکومتی محاصل بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔ ایک گاڑی پر تین لاکھ روپے کا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے، اب 17 گاڑیوں کے حساب سے حکومتی خزانے کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
جمشید کے مطابق کوئلہ اور سوپ سٹون درآمد کنندگان کے ایک وفد نے بھی اسلام آباد میں وزیر اعظم کی خصوصی معاونت برائے تجارت اور افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے صادق خان سے ملاقات کی اور انہیں افغانستان سے درآمد کی جانے والی دونوں معدنیات کی کلیئرنس سے متعلق مسائل سے آگاہ کیا۔ ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق سفیر صادق خان نے انہیں پہلے پھنسی ہوئی گاڑیوں کا بیک لاگ ختم کرنے اور پھر اسلام آباد میں افغان حکام اور ایف بی آر حکام کے ساتھ اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا لیکن اس میں بھی تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

ضیاء الحق سرحدی صدر فرنٹیئر کسٹم ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس مسئلے پر پاک افغان چیمبر کے اجلاسوں میں کئی بار آگاہ کیا گیا کہ افغان حکومت اس مسئلے کا فوری حل نکالے، یہ سرٹیفکیٹ اس لیے ضرور ی ہے کیونکہ سینٹرل ایشیاء اور افغان مصنوعات کی ٹیکس شرح میں فرق ہے، اس سے قبل سینٹرل ایشیاء مصنوعات میں کلیئر کیا گیا تھا جس کے بعد کنٹری اوریجن سرٹیفکیٹ کو لازم قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ اب ایک اور مسئلہ 31 جولائی کے بعد آئے گا وہ (ٹی اے ڈی) عارضی داخلہ کاغذات جو ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے ویزے کا ہے۔ اس سے قبل گاڑیوں کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر بغیر ویزے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اب حکومت کی نئی پالیسی کے مطابق ان کو ویزے کا حصول لازمی قرار دے دیا گیا ہے، اگر افغان حکومت نے اس کے لیے اقدامات نہیں کیے تو 31 جولائی کے بعد ان کے ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کو بھی بغیر ویزے پاکستان داخل نہیں دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اپنے قانون کو ہماری گاڑیوں پر ضروری لاگو سمجھتا ہے ایک گاڑی میں 35 ٹن سے ایک کلو وزن زیادہ نہیں چھوڑتا مگر جب پاکستان کے قانون پر بات ہوتی ہے وہ اس کے لیے اپنی کمزوریاں بھی ہمارے ذمے ڈال دیتا ہے۔
ڈارئیور محمد اللہ کے مطابق کنٹری اوریجن سرٹیفکیٹ نہ ہونے کہ وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے طورخم باڈر پر موجود ہوں، کسٹم حکام سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی کی کلیئرنس نہیں کررہے جس کی وجہ سے مجھ سمیت سینکڑوں گاڑیوں کے ڈارئیوروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔