وفاقی کابینہ کی تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کی منظوری: کیا یہ فیصلہ مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدام ثابت ہو گا؟

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دینے کی منظوری دے دی ہے۔ پنجاب حکومت نے تحریک لبیک کے حالیہ پرتشدد مظاہرے کے بعد 17 اکتوبر کو پابندی کی سفارش کے حوالے سے سمری وفاقی حکومت کو بھیجی تھی۔
تحریک لبیک
Getty Images
پابندی کی یہ سفارش تحریک لبیک کی جانب سے پنجاب میں کیے گئے حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے بعد کی گئی تھی (فائل فوٹو)

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کالعدم جماعت قرار دینے کی منظوری دے دی ہے۔

یہ منظوری جمعرات کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی ہے۔ پنجاب حکومت نے 17 اکتوبر کو تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی سفارش کے حوالے سے وفاقی حکومت کو سمری بھیجی تھی۔

پابندی کی یہ سفارش تحریک لبیک کی جانب سے پنجاب میں کیے گئے حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے بعد کی گئی تھی۔ ان پرتشدد مظاہروں میں پولیس کے ایک ایس ایچ او سمیت پانچ افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

ٹی ایل پی نے غزہ امن معاہدہ طے پا جانے کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب ’غزہ مارچ‘ کا آغاز کیا تھا اور لاہور میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد مریدکے کے مقام پر پولیس اور مظاہرین کے مابین دوبارہ شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔

مریدکے واقعے کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا اور پنجاب پولیس کے مطابق اب تک صوبے بھر سے اس جماعت کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ تحریکِ لبیک پاکستان کو پابندی کا سامنا ہے۔ سنہ 2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اس جماعت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی۔ تاہم صرف سات ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت یہ پابندی ہٹا دی تھی۔

یاد رہے کہ بطورِ سیاسی جماعت تحریکِ لبیک الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسرڈ ہے اور جماعت نے 2024 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا ہوا اور اب آگے کیا ہو گا؟

وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ نے متفقہ طور پر ٹی ایل پی کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دینے کی منظوری دی ہے۔

اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ کو ملک میں ٹی ایل پی کی پُرتشدد اور مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی اور اس موقع پر حکومت پنجاب کے اعلیٰ افسران بذریعہ ویڈیو لنک کابینہ کے اجلاس میں شریک رہے۔

وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ ’سنہ 2016 میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے پورے ملک میں شر انگیزی کو ہوا دی۔ تنظیم کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں شر انگیزی کے واقعات میں ہوئے۔ 2021 میں بھی اس وقت کی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگائی، جو چھ ماہ بعد اس شرط پر ہٹائی گئی کہ آئندہ ملک میں بدامنی اور پر تشدد کاروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ تنظیم پر پابندی کی وجہ 2021 میں دی گئی ضمانتوں سے روگردانی بھی ہے۔‘

اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچی کہ ٹی ایل پی دہشت گردی اور پرتشدد کاروائیوں میں ملوث ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں وفاقی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت پر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پابندی عائد کرنے کی کارروائی کر سکتی ہے اور اس ضمن میں وفاقی کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی نے اس حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ ’آئین کا آرٹیکل 17 یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو تو اس سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد 15 دن میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے اور اگر سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کے پاس موجود ثبوت کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کی کارروائی کے لیے کافی ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے سکتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے۔

تحریک لیبک پر پابندی سے کیا انتہا پسندی کم ہو گی؟

سیاسی مبصرین کے خیال میں پاکستان میں مختلف اوقات میں سیاسی یا دیگر مذہبی جماعتوں پر پابندیوں عائد کی گئی ہیں لیکن جن مسائل کو جواز بنا کر پابندیاں لگائی گئیں وہ معاشرے میں جوں کے توں موجود ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس نے 17 اکتوبر کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہتاریخی طور پر یہ ثابت ہوا کہ چاہے سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں، پابندیوں کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ بیس سال کے دوران درجنوں مذہبی جماعتوں اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں لیکن کیا ملک میں شدت پسندی کم ہوئی یا نہیں بلکہ وہ پہلے سے زیادہ ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جو طریقہ ہے وہی صحیح نہیں کیونکہ جن عوامل کی وجہ سے ملک میں شدت پسندی یا دہشت گردی پھیلی، اُن کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کا قانون بنایا گیا لیکن پھر کیا ہوا کہ اس قانون کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، خود نواز شریف پر بھی دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا۔‘

ان کے مطابق راتوں رات تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں بن جاتی ہیں اور جب (ان تنظیموں کو بنانے کے) اہداف پورے ہو جاتے ہیں وہ پھر انھیں ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مسائل بہت ہیں لیکن اُن کے حل کے لیے سنجیدگی نہیں۔

ماضی میں کن سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی؟

TLP Protest
Getty Images
تحریک لیبک نے ماضی میں بھی کئی بار مظاہرے کیے ہیں

تحریکِ لبیک کے علاوہ ماضی میں حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی مثالیں موجود ہیں۔

جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پابندی عائد کی گئی تھی۔

جماعت اسلامی بھی ماضی میں پابندی کی زد میں آ چکی ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا جب 1964 میں حکومت نے ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے کر اس کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے اس پابندی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور عدالتِ عظمیٰ نے یہ پابندی ختم کر دی تھی۔

اس کے علاوہ 1971 میں صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی عائد کی تھی۔

نیشنل عوامی پارٹی کا قیام 1967 میں عمل میں آیا تھا اور قیام کے ابتدائی آٹھ برس میں ہی اسے دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل یحییٰ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی۔

ماضی قریب میں جن جماعتوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ان میں سندھی قوم پرست جماعت جسقم بھی شامل ہے جس پر مئی 2020 میں وزارتِ داخلہ نے پابندی لگائی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US