بلوچستان میں ایک خاتون اور ایک مرد کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا واقعہ اس وقت نہ صرف ملکی بلکہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ڈیڑھ مہینے قبل پیش آنے والے اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر نشر ہونے کے بعد ہی عوام کی نظروں میں آیا۔اس تاخیر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ یہ واقعہ اتنا عرصہ کیسے چھپا رہا؟ پولیس، انتظامیہ اور حکومت کیوں لاعلم رہیں؟ اگرچہ غیرت کے نام پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں جو چھپا رہا اور رپورٹ نہیں ہوا۔ مقامی لوگ قبائلی روایات یا خوف کی وجہ سے معاملے کو چھپا دیتے ہیں مگر اس بار علاقے میں بدامنی کی خراب صورتحال، جغرافیائی تنہائی اورعدم رسائی بھی ایک بڑی وجہ بنی۔جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہ بظاہر تو بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ سے جڑا ہوا ہے مگر درحقیقت ’ڈیگاری‘ پہاڑوں کے پیچھے ایک ایسی دور افتادہ بستی ہے جو قانون کی عملداری اور ترقی سے محروم ہے۔ جہاں زندگی آج بھی زمانہ قدیم کی تاریکی میں ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہے اور بدامنی، اغوا یا قتل کے خدشے سے کوئی بھی عام شخص جانے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔پولیس کی جانب سے درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق یہ واقعہ تھانہ ہنہ کی حدود میں سنجیدی ڈیگاری میں پیش آیا جو تھانے سے تقریباً 40 سے 45 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔کوئٹہ شہر سے یہ علاقہ تقریباً 50 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہاں دو راستے جاتے ہیں ایک کوئٹہ کے شمال مشرق میں کوئٹہ کے تفریحی علاقے ہنہ اور سپین کاریز سے اوردوسرا کوئٹہ کے جنوب مشرق میں مستونگ کے علاقے دشت میں کوئٹہ کو سکھر سے ملانے والی این 65 شاہراہ سے مشرق کی جانب سے جاتا ہے۔پیالہ نما وادی کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گری ہوئی ہے۔ مقامی لوگ اسے ڈیغاری بھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ کوئٹہ کے مشرقی پہاڑوں کے اُس پار واقع ہے جو شہر سے الگ تھلگ، دشوار گزار، دیہی اور سکیورٹی کے لحاظ سے نہایت حساس شمار ہوتا ہے۔ڈیگاری سے دشت، زڑخو، سنجیدی، مارگٹ، مارواڑ اورسپین کاریز کے علاقے ملحقہ ہیں۔ یہ پہاڑی اور بے و آب و گیاہ علاقے کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہیں مگر ساتھ ہی یہ علاقے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں، سکیورٹی فورسز پر حملوں اور کانکنوں کے اغوا و قتل کے باعث بدنام بھی ہیں۔ یہاں سکیورٹی فورسز اور کوئلہ کان کنوں پر درجنوں حملے ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ نو گو ایریا سمجھا جاتا ہے۔جولائی 2012 میں ڈیگاری میں کالعدم پسند بلوچ مسلح تنظیم نے سات کانکنوں کو اغوا کرکے قتل کردیا جس کے بعد ہزاروں کان کنوں نے کام چھوڑ دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پولیس اور لیویز کی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے کوئلہ کانوں کی سکیورٹی کے انتظامات کے لیے ایف سی کو تعینات کیا گیا۔
عبدالغنی نے بتایا کہ مارواڑ کے علاقے میں بدامنی کی وجہ سے زیادہ تر کوئلہ کانیں بند ہو چکی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ماضی میں یہاں لیویز فورس کی عملداری تھی مگر چند سال قبل لیویز کو پولیس میں ضم کر کے یہ علاقہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے باوجود یہاں نہ کوئی پولیس چوکی ہے اور نہ ہی سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پولیس گشت کرتی ہے جس کی وجہ سے پولیس کی رسائی محدود ہے۔
اس علاقے میں براہوی بولنے والے قبائل کی اکثریت ہے جن میں سب سے بڑا قبیلہ ساتکزئی ہے۔ اس کے علاوہ سمالانی، محمد شہی اور پشتونوں کے دمڑ، سارنگزئی اور یاسین زئی قبائل بھی یہاں رہتے ہیں۔ جائے وقوعہ کے قریب براہوی ساتکزئی کی اکثریت ہے۔یہاں آبادی کم اور پھیلی ہوئی ہے۔ قبائلی ڈھانچے کی گرفت آج بھی بہت مضبوط ہے جس کی وجہ سے اکثر معاملات ریاستی نظامِ انصاف سے دور رہتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ موبائل فون نیٹ ورک سمیت کمیونیکشن کا کوئی نظام نہیں۔ گزر بسر کا انحصار کوئلہ کانوں میں مزدوری یا گلہ بانی پر ہے۔ زراعت محدود پیمانے پر ہے۔ ڈیگاری کے قریب سیب، آڑو، زرد آلو اور چیری کے باغات ہیں۔چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کے مطابق کوئٹہ میں کوئلہ کے زیادہ ذخائر اسی علاقے میں ہیں۔ یہاں پر بیس سے زائد کول مائن کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ سب سے بڑی کان پاکستان مائنز اینڈ منرل ڈیپارٹمنٹ کی ہے۔ مجموعی طور پر 15 سو کے لگ بھگ چھوٹی بڑی کانیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مارواڑ کے علاقے میں بدامنی کی وجہ سے زیادہ تر کوئلہ کانیں بند ہو چکی ہیں۔ مارگٹ، سنجیدی اور ڈیگاری میں بھی کچھ کانیں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بند ہیں۔ ایک دور میں یہاں 15 ہزار سے زائد مزدور کام کرتے تھے اب یہ تعداد نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق غیر مقامی مزدور خاص کر سوات، شانگلہ، دیر، بونیر اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی اکثریت علاقہ چھوڑ چکی ہے، زیادہ تر مقامی افراد کوئلہ کانوں میں کام کرتے ہیں جو بدامنی کے باوجود گزر بسر کے لیے یہاں کام کرتے ہیں۔
اگر اس واقعے کی ویڈیوز نہ بنائی جاتیں تو یہ بھی بہت سے دوسرے واقعات کی طرح خاموشی سے دب جاتا (فوٹو: سکرین گریب)
کوئلہ کے ایک مقامی ٹھیکیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کالعدم تنظیموں کو بھتہ دیے بغیر کوئی کوئلہ کان نہیں چل سکتی۔ اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز کو بھی سکیورٹی کی مد میں فی ٹن مخصوص رقم ادا کی جاتی ہے۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے ٹھکانے اور سرگرمیاں رہی ہیں۔ بدامنی نے اس علاقے کو بہت متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف غیر مقامی مزدوروں بلکہ ایک بڑی تعداد میں مقامی لوگ بھی نقل مکانی کرچکے ہیں۔کوئٹہ پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عام حالات میں سکیورٹی خدشات کے باعث پولیس یہاں پہنچنے سے قاصر رہتی ہے۔ عام کیسز میں تو پولیس جاتی ہی نہیں۔ خاتون اور مرد کے قتل کا یہ واقعہ پولیس کے علم میں سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے سے ایک روز پہلے ہی آگیا تھا اور ویڈیوز پولیس کے اعلیٰ افسران تک پہنچ گئی تھیں مگر اس کے باوجود پولیس اس وقت ہی اس علاقے میں گئی جب سوشل میڈیا پر معاملہ وائرل ہوا اور حکومت پر دباؤ پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے علاقے میں نہ جانے کی وجہ ہی علاقے کی خراب سکیورٹی صورتحال تھی۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں علاقے میں سکیورٹی چیلنجز درپیش ہونے کی بات کی تائید کی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں علاقے میں سکیورٹی چیلنجز درپیش ہونے کی بات کی تائید کی (فوٹو: اے پی پی)
2009 کے اوائل میں ایک صحافی دوست کے ساتھ کوئٹہ کے اس دشوار گزار علاقے کا سفر کیا تھا۔ ہمارا مقصد وہاں کے ایک بیسک ہیلتھ یونٹ اور سرکاری سکول کی خستہ حالی پر رپورٹ کرنا تھا۔ اس وقت سکیورٹی کی صورتحال آج جیسی دگرگوں نہیں تھی لیکن یہ علاقہ اس وقت بھی محرومیوں کی تصویر تھا اور آج بھی اس کی حالت نہیں بدلی ۔
گذشتہ برسوں میں یہاں فورسز پر ہولناک حملے اور کوئلہ کانوں میں جان لیوا حادثات پیش آئے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ صحافی بھی اس طرف جانے کا سوچتے نہیں۔ حتیٰ کہ اس واقعے کے بعد بھی کوئی میڈیا ٹیم علاقے میں نہیں گئی۔ پولیس کی ٹیم کو بھی درجنوں گاڑیوں، سینکڑوں اہلکاروں اور مکمل حفاظتی انتظامات کے ساتھ ہی بھیجا گیا۔اگر اس واقعے کی ویڈیوز نہ بنائی جاتیں اور وہ سوشل میڈیا پر سامنے نہ آتیں تو یہ بھی بہت سے دوسرے واقعات کی طرح خاموشی سے دب جاتا۔بلوچستان کے معروف لکھاری ڈاکٹر عابد میر نے اس علاقے کے سفر کے تجربے سے متعلق اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ ’راستہ انتہائی سنسان رہتا ہے اور میلوں میل تک آبادی کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ کئی کلومیٹر بعد کوئی ایک آدھ موٹرسائیکل سوار نظر آ جاتا ہے۔ دور پہاڑوں کے دامن میں بسی چھوٹی سی آبادی۔ سڑک نام کی کوئی چیز نہیں مسلسل کچا راستہ ہے۔ کہیں کہیں پکی سڑک کی باقیات مل جاتی ہیں۔‘وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ کوئٹہ کے دامن میں واقع ہے لیکن آپ کو دور سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں زندگی ابھی بھی انیسویں صدی میں چل رہی ہے۔ شہر کی طرف آمدورفت اور ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں سوائے موٹرسائیکل اور مقامی سوزوکیوں کے۔ صحت و تعلیم کا نام و نشان نہیں۔ ایسے میں (خاتون و مرد کا قتل) ہوجاتا ہے تو یوں سمجھیے کہ انیسویں صدی کے ایک سماج کا واقعہ اکیسویں صدی میں رپورٹ ہوتا ہے۔‘