ٹرمپ کی ناراضگی اور غزہ میں ہونے والے جنگی جرائم جنھیں نظر انداز کرنا اسرائیل کے اتحادیوں کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے

اسرائیل کے دوست کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اتحادی جنھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے فوری بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا غزہ میں روا رکھے جانے والے رویے کی وجہ سے صبر کھوتے چلے جا رہے ہیں۔
اسرائیل
Reuters

دو سال قبل حماس اسرائیل پر حملے کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہی تھی۔ ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کو یقین تھا کہ ان کے ملک کو اصل خطرہ ایران سے ہے اور فلسطین ایک ایسا معاملہ ہے جسے سنبھالا جا سکتا ہے۔

نتن یاہو اس دوران حماس کی مخالفت تو کر رہے تھے لیکن انھوں نے قطر کو یہ اجازت بھی دے رکھی تھی کہ وہ غزہ میں فنڈز بھجوا سکے۔ یوں انھیں اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے لیے وقت حاصل تھا یعنی ایران کا مقابلہ اور سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی۔

امریکہ میں صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کو یقین تھا کہ وہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ کروانے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

یہ سب ایک سراب تھا۔

نتن یاہو نے اب تک اپنی غلطیوں سمیت فوج اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان کی ان کوتاہیوں کی تفتیش کے لیے انکوائری کروانے سے انکار کیا ہے جن کی وجی سے حماس کو سات اکتوبر 2023 کے دن ایک شدید حملہ کرنے کا موقع ملا۔

یہودیوں اور عربوں کے درمیان زمین کا تقریبا ایک صدی پرانا حل طلب تنازع سلگ رہا تھا اور ایک ایسی جنگ کے شعلے بھڑکانے والا تھا جو 1948 اور 1967 کی جنگوں کی طرح وسیع اثرات مرتب کرنے والی تھی۔

سات اکتوبر کے بعد سے مشرق وسطیٰ بدل چکا ہے اور جنگ کے دو سال بعد ایک اور اہم مقام پر کھڑا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں صحافیوں کے لیے کام کرنا بہت مشکل تھا۔

سات اکتوبر کا حملہ ان کے لیے بھی غیر متوقع تھا اور اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں بین الاقوامی صحافیوں کی آزادانہ رپورٹنگ پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں موجود فلسطینی صحافیوں نے دلیرانہ انداز میں کام کیا ہے اور اب تک 200 کے قریب ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیکن چند حقائق واضح ہیں۔ حماس نے سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے دوران اسرائیل کے عام شہریوں سمیت 1200 افراد کو ہلاک کیا اور جنگی جرائم کی مرتکب بھی ہوئی۔ اس دوران 251 افراد کو مغوی بنا لیا گیا جن میں سے شاید 20 اب تک غزہ میں موجود ہیں اور زندہ ہیں۔

اور اب اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے بھی سات اکتوبر کے بعد متعدد جنگی جرائم کیے ہیں۔

اس فہرست میں غزہ کے عام شہریوں کو فاقوں پر مجبور کرنا، عسکری کاروائیوں کے دوران عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ناکامی جن کے دوران ہزاروں معصوم جانیں چلی گئیں، اور قصبوں کی بے جا تباہی کا ارتکاب کو اسرائیل کو درپیش عسکری خطرات کے متناسب نہیں۔

اسرائیل
Reuters
اب اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے بھی سات اکتوبر کے بعد متعدد جنگی جرائم کیے ہیں

نتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع کے خلاف بین الاقوامی عدالت جنگی جرائم کی وجہ سے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

اسرائیل نے عالمی عدالت انصاف میں جاری اس قانونی کارروائی پر بھی تنقید کی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اسرائیل الزامات کی تردید کرتا ہے۔

اسرائیل کے دوست کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اتحادی جنھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے فوری بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا غزہ میں روا رکھے جانے والے رویے کی وجہ سے صبر کھوتے چلے جا رہے ہیں۔

اسرائیل کے سب سے اہم اتحادی ڈونلڈ ٹرمپ بھی خبروں کے مطابق نتن یاہو کی جانب سے اچانک دمشق پر بمباری کا فیصلہ کرنے کی وجہ سے نالاں ہیں جب اسرائیل اس حکومت پر حملہ آور ہوا جسے امریکہ نے حال ہی میں تسلیم کیا تھا۔

دیگر مغربی اتحادیوں کے صبر کا پیمانہ بہت پہلے لبریز ہو چکا تھا۔ 21 جولائی کو برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان نے اسرائیلی کارروائیوں کی ایک مشترکہ بیان میں مذمت کی تھی اور سخت الفاظ میں غزہ میں عام شہریوں کی مشکلات کا احاطہ کیا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے متبادل خوراک کی ترسیل کے نظام کی ناکامی اور جانوں کے ضیاع پر بھی تنقید کی گئی تھی۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اسرائیل کا امداد دینے کا نظام خطرناک ہے اور عدم استحکام پھِیلاتا ہے، عام شہریوں بشمول بچوں کی غیر انسانی ہلاکت کی وجہ بنتا ہے، جو اپنی بنیادی خوارک اور پانی کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہولناک ہے کہ امداد لینے کی کوشش میں آ800 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ’عام شہریوں کو بنیادی انسانی امداد سے محروم رکھنا ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔‘

برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے بعد میں ایک اور بیان جاری کیا تاہم یہ لیبر اراکین کے لیے کافی نہیں تھا جو چاہتے ہیں کہ سخت الفاظ کے ساتھ ساتھ سخت کارروائی بھی ہو۔

ایک رکن نے مجھے بتایا کہ حکومت کی بے عملی کی وجہ سے ’شدید غصہ‘ پایا جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ کے بیشتر اراکین کر چکے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر ایسا کرنے پر غور کیا ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کام کے لیے یہ وقت ٹھیک نہیں ہے۔

نتن یاہو
Reuters
اسرائیل کے سب سے اہم اتحادی ڈونلڈ ٹرمپ بھی خبروں کے مطابق نتن یاہو کی جانب سے اچانک دمشق پر بمباری کا فیصلہ کرنے کی وجہ سے نالاں ہیں

اسرائیلی پارلیمنٹ میں چھٹیاں ہونے والی ہیں جس کا مطلب ہے کہ اکتوبر تک ان کو اپنی اتحادی حکومت میں شامل ان انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا خطرہ نہیں ہو گا جو غزہ میں جنگ بندی کے مخلاف ہیں۔

نتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی پر مذاکرات میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ ان اتحادیوں کی جانب سے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکی بھی شامل ہے۔

نتن یاہو اقتدار سے بے دخل ہوتے ہیں تو انھیں سات اکتوبر کی غلطیوں پر جواب دہ ہونا پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ ان کے ان کے خلاف طویل عرصے سے جاری کرپشن کا مقدمہ بھی تیزی سے آگے بڑھے گا۔

تاہم جنگ بندی کا امکان موجود ہے جو غزہ کے عام شہریوں سمیت ان اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگی کی ضمانت بھی ہو گی جو اب تک حماس کے قیدی ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ تنازع ختم ہو جائے گا۔

بلکہ یہ جنگ اس تنازع کو بڑھا چکی ہے۔ لیکن اگر اب جنگ بندی ہوتی ہے تو شاید یہ قتل و غارت سے سفارت کاری کی طرف جانے کا ایک موقع فراہم کر دے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow