اس وادی کی زرخیز زمین اور موسم کی وجہ سے پھلوں میں ایسی خوشبو اور مٹھاس ہے جو کہیں اور نہیں مل سکتی

تاشقند میں سحر پھوٹ رہی تھی جب سوویت دور کی دیوہیکل ٹرین ایک جھٹکے سے ریلوے سٹیشن پر رکی۔ میں نے اب تک ازبکستان میں مسافروں سے بھری بہت سی ٹرینوں پر سفر کیا لیکن فرغنہ وادی کا دروازہ سمجھے جانے والے مشرقی شہر مرگیلان جانے والی اس ٹرین پر کوئی غیر ملکی سوار نہیں تھا۔
ٹرین میں مجھے تین افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ جگہ ملی۔ گلنورا نے سر پر ایک خوبصورت سکارف لپیٹا ہوا تھا اور جب میں نے اس کی تعریف کی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ اسی وادی سے خریدا گیا جس کی طرف ہم رواں دواں تھے۔
ایک دن قبل تاشقند میں وسطی ایشیا کے قدیم بازاروں میں سے ایک میں جب میں نے بہت چھوٹی چھوٹی سٹرابیریز کھائیں تو ان کا ذائقہ ایسا تھا جیسے بہار کا جھونکا۔ میں نے گوگل کا سہارا لیتے ہوئے سوال کیا کہ یہ کہاں سے آتی ہیں تو مجھے جواب ملا ’فرغنہ سے۔‘
میں نے ٹرین میں گلنورا کے خاندان کو یہ سٹرابریز پیش کیں تو انھوں نے مسکرا کر اپنا ڈبہ کھول لیا جس میں سیب، سٹرابریز اور خوبانی سمیت تازہ پھل اور خشک میوہ جات بھرے ہوئے تھے۔ یہ سب اسی وادی سے آئے تھے۔ انھوں نے ایک پلیٹ نکالی اور جیسے ایک دعوت کا اہتمام کر دیا۔
فرغنہ وادی مشرقی ازبکستان، جنوبی کرغزستان اور شمالی تاجکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور وسطی ایشیا کے سب سے زرخیز خطے میں اس کا شمار کیا جاتا ہے۔ دو دریاؤں سے سیراب ہونے والی یہ وادی زراعت اور ثقافت سے مالامال رہی ہے اور ازبکستان کے مشہور ریشم اور پھلوں کی پیداوار بھی اسی جگہ ہوتی ہے۔
جدید دور کے ازبکستان کی طرح یہ وادی بھی زمانہ قدیم کی شاہراہ ریشم کے راستے میں موجود چین، فارس اور مشرق وسطی کے بیچ تجارت سمیت خیالات اور ثقافت کے تبادلے میں اہم تھی۔ حالیہ دنوں میں ازبکستان نے شاہراہ ریشم کے تصور کو ہی ایک نئے سیاحتی منصوبے کے لیے استعمال کیا ہے جس میں سمرقند، بخارا اور خیوا کے تاریخی تجارتی مراکز کو بہت تیزی سے سنوارا جا رہا ہے۔
اگرچہ ویزا سہولیات میں نرمی، زیادہ پروازوں سمیت ملک کے پہلے بڑے بین الاقوامی اڈے نے ازبکستان کو بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنایا ہے وہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ روایتی ازبک ثقافت کی نئی شکل اسے ایک ’کمرشل تھیم پارک‘ بنا سکتی ہے۔
لیکن گہما گہمی سے دور فرغنہ وادی میں خاموشی سے ایک پرانی ثقافتی پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔ ازبکستان آنے والے سیاحوں میں سے شاید ہی کوئی یہاں کا رخ کرتا ہو لیکن اس وادی کا رنگ ہر جگہ موجود ہے۔ مارگیلان، جو فرغنہ وادی کے سب سے قدیم شہروں میں سے ایک ہے، میں بننے والی ٹوپیاں، سکارف اور لباس پورے ملک میں مشہور اور عام ہیں۔
خوراک اور چائے کے لیے استعمال ہونے والے برتن بھی یہیں سے آتے ہیں جبکہ وادی کا پھل مقامی مہمان نوازی کا ثبوت دیتا ہے۔ خشک خوبانی اور کشمش چائے یا قہوے کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں جبکہ انار اور چیری ازبکستان کے پلاؤ میں ملائے جاتے ہیں۔
میں نے گلنورا کا شکریہ ادا کرنے کے لیے روایتی انداز میں اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھا اور مارگیلان میں رہنے کے لیے جگہ کی تلاش شروع کی۔
اکت ہاؤس نامی گیسٹ ہاؤس میں لکڑی کے بنے روایتی دیوان دیکھنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ یہ رسول جان مرزا احمدوو کے خاندان کا ہے جو مشہور فیشن ڈیزائنر ’آسکر دی لا رینٹا‘ کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور فرغنہ کی ملبوسات بناتے ہیں۔
مارگیلان ازبک اکت کی جائے پیدائش بھی ہے جو وسطی ایشیا کی سب سے پیچیدہ ٹیسکٹائل روایت ہے۔ مقامی زبان میں اسے ’ابربندی‘ کہتے ہیں۔ ریشم کی یہ روایت ایک ہزار سال پرانی ہے جو ساتویں صدی میں عرب فتوحات کے ساتھ آئی تھی۔
تاہم کہا جاتا ہے کہ ازبکستان میں ریشم کی داستان چوتھی صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب چین سے فرار ہونے والی ایک شہزادی اپنے سر کے بالوں میں ریشم بنانے والے کیڑے کے انڈے چھپا کر ساتھ لے آئی تھی۔
دیگر مقامات کے برعکس یہاں ریشم کا کام اب تک ہاتھ سے ہی ہوتا ہے۔
شہر کی سب سے قدیم فیکٹریوں میں سے ایک میں لویزا کمالوو نے مجھے بتایا کہ ’اگر ہم ریشم کے لاروا کو مار دیں تو ازبکستان میں ریشم کا مستقبل ختم ہو جائے گا۔‘
دو دن بعد میں رشتان شہر میں تھی جہاں ایک بہت بڑا مٹی کا برتن میرا استقبال کر رہا تھا۔
مقامی لوگوں کے مطابق یہ برتن ازبکستان میں چائے یا قہوے کے لیے پانی ابالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قریب واقع شو روم، کورون، میں روشن تاجالدینوو نے مجھے بتایا کہ ازبکستان میں انار کر مقدس سمجھا جاتا ہے۔
’ہم یہ شادیوں میں زرخیزی کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں، مٹی کے برتنوں پر خوش قسمتی کی علامت کے طور پر بناتے ہیں اور اسے یہ یاد رکھنے کے لیے کھاتے ہیں کہ زندگی میٹھی بھی ہے اور ترش بھی۔‘
رستم عثمانوو کی ورکشاپ میں ملک کے سب سے نامور فنکار موجود تھے جہاں مٹی کے برتنوں پر ڈیزائن بنانا سکھایا بھی جاتا ہے۔ میں نے ادھورے برتنوں پر طلبہ کو سکیچ بناتے دیکھا۔ رستم نے بتایا کہ جو مٹی استعمال کی جاتی ہے وہ قدرتی طور پر ایسا پیلا رنگ رکھتی ہے جس میں لال رنگ کی آمیزش ہے۔ ’پورا شہر اسی سے بنا ہے۔‘
مٹی کو دس دن تک خشک کیا جاتا ہے اور پھر 920 ڈگری پر گرما کر ہاتھ سے برتن کا سانچہ بنتا ہے جسے پھر سے آگ سے گزارا جاتا ہے تو وہ نیلا رنگ نکلتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے برتن مشہور ہیں۔
رستم کے ایک طالبعلم نے مجھے بتایا کہ ’یہاں کے ہر برتن کی ایک کہانی ہے۔ پرندے آزادی کی علامت ہیں، پھل فراوانی کی اور جگ، جس میں پانی، دودھ اور شراب ڈلتے ہیں۔ خود زندگی کی علامت ہے۔ یہ ہر ازبک گھر میں داخل ہونے والی نعمتیں ہیں، صرف آرائش کا سامان نہیں۔‘
رستم نے مجھے اپنی ورکشاپ کے ایک درخت پر لگے کچے انار کی تصویر بناتے دیکھا تو انھوں نے خشک میوہ جات کی پیشکش کی۔ اور پھر وہی بات دہرائی کہ فرغنہ میں ملک کا سب سے اچھا پھل ملتا ہے۔
فرغنہ میں سفر کرتے ہوئے مجھے ہر جگہ پھلوں کے درخت دکھائی دیے۔ مٹی کے بنے مکانات پر انگور کی بیل، دالانوں میں چیری اور خوبانی، سڑک کنارے سٹرابریز صاف کرتے لوگ اور جیم کے لیے شہتوت اتارتی خواتین۔
مقامی بازار میں ٹھیلوں پر کسی مصری اہرام کی طرح سیب اور آڑو موجود تھے، اور ایسے انگور اور سٹرابیریز کی بھرمار تھی جن کی خوشبو فضا میں اپنی موجودگی کا پتہ خود دیتی ہے۔
ایک شخص نے بتایا کہ ’یہ سب تازہ اور صبح صبح اتار کر لایا گیا ہے، ہم پہلے اپنے گھر کے لیے پھل اگاتے ہیں اور پھر بیچنے کے لیے، جو بچ جائے وہ برآمد کے لیے بیچا جاتا ہے۔‘
اس وادی کی زرخیز زمین اور موسم کی وجہ سے پھلوں میں ایسی خوشبو اور مٹھاس ہے جو کہیں اور نہیں مل سکتی اور اسی لیے ازبکستان وسطی ایشیا میں پھلوں کی پیداوار میں سب سے آگے ہے۔
وادی چھوڑنے سے پہلے ایک لمحہ آیا جس نے ہر اس نظارے اور ذائقے کی نمائندگی کی جو مجھے یہاں میسر ہوا۔ ٹرین سٹیشن کے باہر ایک چھوٹے سے سٹال پر بوڑھی خاتون اکت سکارف پہنے سنہرے مٹی کے برتن میں تازہ شہتوت بیچ رہی تھیں۔
اس لمحے میں یہ احساس ہوا کہ ازبکستان کی مقدس تری مورتی، یعنی پھل، برتن اور لباس، روز مرہ زندگی میں کیسے رچا بسا ہوا ہے۔