یہ بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے جب چمپاوت کی شیرنی کو نیپال کے لوگوں نے ڈھول اور نگاڑوں سے پیچھا کرتے ہوئے ہندوستان میں کماؤں کے علاقے میں دھکیل دیا۔چمپاوت کی شیرنی نے اس وقت تک نیپال میں تقریباً 200 لوگوں کا شکار کر لیا تھا۔ ہندوستان میں آنے کے بعد بھی وہ آدم خور شیرنی اتنی ہی سفاکی سے انسانوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔ ہر دوسرے تیسرے ہفتے وہ کسی نہ کسی انسان کو اپنا شکار بنا لیتی تھی۔اس کو مارنے کے لیے گورکھا فوجیوں کو تعینات کیا گیا لیکن وہ شیرنی ہر بار بچ نکلتی تھی۔اسی دوران ایک شکاری کی شہرت نینی تال کے قرب و جوار میں پھیل چکی تھی۔ لہذا 1907 میں وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے اس شیرنی کو مارنے کا ذمہ ایک شکاری کو سونپا اور اس نے یہ چیلنج قبول کیا۔ اس وقت تک شکاری شیرنی نے 400 سے زیادہ انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔اس علاقے کے مشہور شکاری نے تقریباً 300 آدمیوں کا ایک گروپ بنایا اور اس شیرنی کو گھیر کر ایک کنارے پر لانے کا منصوبہ بنایا اور پھر کامیابی کے ساتھ اس کا شکار کیا۔اس وقت کے یونائیٹڈ پروونس کے لیفٹننٹ گورنر سرجان ہیوٹ نے پوائنٹ 275 کی گینیا رائفل انعام میں ان کو دی جو کہ ان کی پسندیدہ رائفل ٹھہری اور اس سے انہوں نے بعد میں کئی آدم خور شیر، شیرنی اور تیندوئے کے شکار کیے۔یہ مشہور شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ایڈوارڈ جیمس کوربٹ ہیں جو آج ہی کے دن 150 سال قبل 25 جولائی 1875 کو انڈیا کے ہمالیائی علاقے نینی تال میں پیدا ہوئے۔تقریباً چار دہائی تک وہ جنگلی جانوروں کا شکار کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ ان کے معدوم ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے ان کے تحفظ کے لیے کام کرنا شروع کیا۔
جم کوربٹ 25 جولائی 1875 کو انڈیا کے ہمالیائی علاقے نینی تال میں پیدا ہوئے۔ فوٹو: وکیپیڈیا
اتنی شدت سے اس کام میں لگے کہ آج ان کے نام پر ہندوستان میں قائم کی جانے والی پہلی پناہ گاہ کو جم کوربٹ نیشل پارک کا نام دیا گیا ہے۔
انہیں عرف عام میں جم کوربیٹ اور ہندوستانیوں کے نزدیک جم کارپٹ پکارا گیا۔ ان کے خاندان کی زندگی بھی بہت دلچسپ ہے کیونکہ ان کے دادا اور دادی بیلفاسٹ کی موناسٹری اور ننری سے بھاگے تھے اور ہندوستان میں آ کر پناہ لی تھی۔جم کاربیٹ اپنے والدین کی آٹھویں اولاد تھے اور ان سے چھوٹی ان کی بہن تھیں۔ جم کاربیٹ نے اپنے بڑے بھائی اور مقامی شکاریوں کے ساتھ اس علاقے کے جنگل اور وہاں کے جانوروں کے متعلق بچپن میں ہی اچھی خاصی معلومات حاصل کر لی تھی اور شروع میں غلیل سے شکار کرتے تھے۔ سکول میں انہیں ان کی نشانہ بازی کی مہارت کو دیکھتے ہوئے آٹھ سال کی عمر میں مزل لوڈنگ شاٹ گن تحفے میں دی گئی۔جب وہ دس سال کے ہوئے تو ان کے نشانہ بازی سے فیلڈ مارشل ارل رابرٹس اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مارٹنی ہنری رائفل تحفے میں دی۔ اس وقت وہ نینی تال کے اوک اوپننگ سکول میں زیر تعلیم تھے اور اس تحفے کا انہوں نے بہت خوبی کے ساتھ استعمال کیا اور پہلا بڑا شکار ایک تیندوئے کا شکار تھا۔اس سے حوصلہ پاکر انہوں نے مزید شکار کیے انہوں نے اپنے شکار کی تفصیل اپنی مشہور بیسٹ سیلر کتاب 'دی مین ایٹرز آف کُمایوں' پیش کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی کتابیں لکھیں 'دی مین ایٹر لیوپرڈ آف رودر پریاگ' اور 'دی ٹمیپل ٹائیگر اینڈ مور مین ایٹرز آف کماؤں' اہم اور قابل ذکر ہیں۔
جم کوربٹ نے 1910 میں آدم خور شیرنی کا شکار کیا جو 400 سے زائد لوگوں کو مار چکی تھی۔ فوٹو: وکیپیڈیا
جم کوربٹ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شیر یا شیرنی اپنی فطرت مین کبھی آدم خور نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ اپنے ماحول میں رہنے والے دوسرے جانوروں پر انحصار کرتے ہیں اور صرف ان کا شکار کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اگر شیر زخمی ہو، یا اس کے دانت نہ ہوں تو وہ انسانوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یا جس جانور پر اس کا انحصار ہے وہ اپنے ماحول میں ناپید ہو جائے تو اپنے ماحول سے نکل کر دوسرے شکار کی تلاش کرتے ہیں۔انہوں نے ایک شیرنی کے آدم خور بننے کی کہانی بیان کی ہے کہ ایک شیرنی ایک جگہ آرام کر رہی تھی جب ایک خاتون اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹتے کاٹتے وہاں تک پہنچ گئی جہاں شیرنی لیٹی تھی۔ پہلے تو شیرنی نے اسے نظر انداز کیا لیکن جب خاتون انجانے میں شیرنی کے بالکال قریب گھاس کاٹنے لگی تو شیرنی نے اس پر حملہ کر دیا اور ایک ہی پنجے میں اس کا کام تمام کر دیا۔ لیکن پھر اس شیرنی نے وہ جگہ چھوڑ دی اور اس جگہ سے کوئی ایک میل دور ایک گرے ہوئے درخت کے کھوکھلے تنے میں پناہ لی لیکن جب ایک لکڑہارا اس درخت کو کاٹنے آیا تو شیرنی نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے بھی مار ڈالا۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انسانوں نے شیروں کے ماحول میں دخل اندازی کی کوشش کی تو شیر 'آدم خور' بن جاتے ہیں۔ان کے مطابق بنیادی طور پر جب بھی شیر، شیرنی یا حاملہ شیرنی یا اپنے بچوں کے ساتھ گھومنے والی شیرنی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان انہیں پریشان کر رہے ہیں یا ان کے لیے خطرہ ہیں یہ جانور وحشی ہو جاتے ہیں۔چمپاوت شیرنی کے شکار کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے کوربٹ سے ہندوستان میں سرگرم دوسرے آدم خور شیروں کے شکار کے لیے کہا گیا۔ ان میں سے ایک مکتیشور کے ارد گرد سرگرم شیر تھا اور دوسرا الموڑہ ضلع کے مشرق میں واقع دیہاتوں میں پنار چیتا تھا۔پنار نے چار سو سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ کوربیٹ نے 1910 میں ان دونوں سے لوگوں کو نجات دلائی۔
انڈیا میں 1936 میں قائم ہونے والی جانوروں کی پناہ گاہ کو جم کوربٹ نیشنل پارک کا نام دیا گیا ہے۔ فوٹو: جم کوربٹ نیشنل پارک انسٹا
اس کے بعد 1925 میں جم کوربٹ کے دوست سر ولیم ایبٹسن نے انہیں رودرپریاگ کے تیندوے کا شکار کرنے کے لیے کہا، جس نے 1918 سے پڑوسی گڑھوال ڈویژن میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔
اگرچہ اس تیندوئے نے صرف 125 لوگوں کا شکار کیا تھا جو کہ پنار کے چیتے چمپاوت کی شیرنی سے تعداد میں بہت کم ہے، لیکن اس نے بہت زیادہ توجہ اس لیے حاصل کی کہ اس کا تذکرہ اس وقت کے تمام اخباروں میں ہندوستان سے لے کر بطانیہ تک ہو رہا تھا۔وہ اس لیے بھی بہت مشہور ہوا کہ تیندوے نے ہندوؤں کے مقدس مقامات کیدارناتھ اور بدری ناتھ کے ہندو زائرین کے راستوں پر دہشت پھیلا رکھی تھی جہاں اس وقت ہر سال دسیوں ہزار عقیدت مند پہنچتے تھے۔بہر حال انہوں نے ہفتوں اور مہینوں کی کوشش کے بعد اسے نشانہ بنایا جس سے جو تیندوا جانبر نہ ہوسکا لیکن اسی دوران انہوں نے ایسٹ افریقہ کا دورہ کیا جہاں ان کی سوچ میں تبدیلی آنے لگی اور وہ ایک شکاری سے شکار کے محافظ بن گئے اور اتنے بڑے محافظ بنے کہ ان کے نام پر 1936 میں قائم ہونے والی پناہ گاہ کو جم کوربٹ نیشنل پارک کا نام دیا گیا ہے۔ان کے متعلق ایک کہانی مشہور ہے کہ انہوں نے ایک شیر کے بچے کو پالتو بنایا تھا۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اس کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک شیرنی کے بچے کو پالا تھا اور پھر اسے جنگل میں چھوڑ دیا تھا۔بہر حال 19 اپریل 1955 کو تقریبا 80 سال کی عمر کینیا میں آخری سانسیں لیں لیکن ان کی وراثت ہندوستان میں آج بھی زندہ ہے۔