غزہ میں موجود فلسطینی صحافیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ کس طرح اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اکثر ان کے دو یا اس سے بھی زیادہ دن بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں۔
صحافیوں کو ان مشکلات کا ہی سامنا ہے جنھیں وہ خود رپورٹ کر رہے ہیںغزہ میں موجود تین ایسے فری لانس فلسطینی صحافیوں نے، جن پر بی بی سی اپنی کوریج کے لیے انحصار کرتا ہے، بتایا ہے کہ وہ کس طرح اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اکثر ان کے دو یا اس سے بھی زیادہ دن بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں۔
ان تینوں صحافیوں نے جو تمام کے تمام مرد ہیں، اس پورے عرصے میں اپنے کیمرے بند نہیں کیے اور ہمیں اہم فوٹیج بھیجتے رہے، یہاں تک کہ ان دنوں میں بھی جب ان کے قریبی رشتہ دار مارے گئے، ان کے گھر بار ان سے چھن گئے، یا وہ اپنے خاندانوں سمیت اسرائیلی فوجی پیش قدمی کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ در بدر ہوتے رہے۔
ان میں سے ایک اس سے پہلے ایک اسائنمنٹ کے دوران اسرائیلی بمباری کی وجہ سے بری طرح زخمی بھی ہو چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ حالیہ وقت جو وہ گزار رہے ہیں ’وہ سب سے مشکل ہے۔ یہ مصائب اور محرومیوں کا بہت بڑا بحران ہے۔‘
عالمی غذائی تحفظ کے ماہرین نے ابھی تک غزہ کی صورتحال کی قحط کے طور پر درجہ بندی نہیں کی لیکن اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر انسان کی طرف سے پیدا کی ہوئی غذائی قلت کا خطرہ ہے۔
وہ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہیں جو فلسطینی علاقوں میں داخل ہونے والے تمام سامان کو کنٹرول کرتا ہے لیکن اسرائیل نے اس سے انکار کیا ہے۔
کئی ماہ سے مقامی صحافی زمین پر دنیا کے لیے غزہ کی آنکھیں اور کان بنے ہوئے ہیںہم اپنے ساتھیوں کی سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اپنے پیاروں میں سے سب سے کم عمر اور سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو خوراک فراہم نہ کر پانا ان کے لیے سب سے مشکل ہے۔
غزہ شہر میں ہمارے ایک کیمرا مین کا، جو چار بچوں کے باپ ہیں، کہنا ہے کہ ’میرا بیٹا جسے آٹزم ہے وہ اپنے اردگرد کیا ہو رہا ہے اس سے بے خبر ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ ہم جنگ میں ہیں اور وہ بول نہیں سکتا۔‘
’حالیہ دنوں میں، وہ اتنا بھوکا محسوس کر رہا ہے کہ اس نے اپنے ہاتھ پیٹ پر مارنا شروع کر دیے ہیں تاکہ ہمیں اشارہ کر سکے کہ اسے کھانے کی ضرورت ہے۔‘
ہمارے سب سے کم عمر ساتھی، جو جنوبی غزہ میں ہیں، اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی کفالت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں مسلسل سوچتا رہتا ہوں کہ اپنے خاندان کے لیے خوراک کیسے حاصل کروں۔ میری چھوٹی بہن، جو 13 سال کی ہے، کھانا اور پانی مانگتی ہے اور ہم اس کے لیے کچھ بھی نہیں لا پاتے۔ ہمیں جو بھی پانی ملتا ہے وہ آلودہ ہوتا ہے۔‘
بی بی سی نیوز، اے ایف پی، اے پی اور روئٹرز نیوز ایجنسیاں اسرائیلی حکام سے کہہ رہی ہیں کہ صحافیوں کو غزہ میں آنے جانے دیا جائےبی بی سی نے میڈیا کے دیگر اداروں کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں کام کرنے والے مقامی فری لانس صحافیوں کی خیریت کے بارے میں ’بہت زیادہ فکر مند‘ ہیں۔
بی بی سی، اے ایف پی، اے پی اور روئٹرز نیوز ایجنسیوں کے بیان میں کہا گیا کہ ’کئی مہینوں سے، یہ آزاد صحافی غزہ میں زمین پر دنیا کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں۔ انھیں اب ان ہی سنگین حالات کا سامنا ہے جن کو وہ کور کر رہے ہیں۔‘
موجودہ حالات لوگوں کی وہ کہانی سنانا اور بھی مشکل بنا دیتے ہیں جو ان پر بیت رہی ہے۔
ایک تجربہ کار صحافی جو اب ہمارے لیے غزہ شہر سے کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’میں ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتا ہوں اور یہاں تک کہ مجھے چکر آتے ہیں اور میں زمین پر گر جاتا ہوں۔‘
وہ اپنی ماں، بہنوں اور دو سے 16 سال کی عمر کے پانچ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 21 ماہ کی جنگ میں ان کا وزن 30 کلوگرام کم ہوا۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’میں زیادہ تر رپورٹس بڑی تیزی سے مکمل کر لیتا تھا لیکن اب میں اپنی خراب صحت اور نفسیاتی حالت کی وجہ سے انھیں مکمل کرنے میں بہت دیر لگاتا ہوں۔ میں ہر وقت اضطراب اور تھکاوٹ کی حالت میں رہتا ہوں۔‘
ہمارے جنوبی غزہ کے کیمرا مین کہتے ہیں کہ ’میں اس احساس کو بیان نہیں کر سکتا۔‘
’میرے پیٹ میں گرہیں پڑی ہیں اور میرے سر میں درد ہوتا ہے، اس میں کمزوری اور نحیف ہونے کے احساس کا اضافہ کر لیں۔ میں (صبح) 07:00 سے لے کر (رات) 22:00 تک کام کرتا تھا لیکن اب میں بمشکل ایک رپورٹ ہی کر سکتا ہوں۔ مجھے چکر آنے لگتے ہیں۔‘
حال ہی میں، وہ فلم بندی کے دوران چکرا کر گر گئے لیکن بعد میں انھوں نے دوبارہ کام شروع کر دیا.
جنگ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے تقریباً 200 فلسطینی صحافیوں کو ہلاک کیااگرچہ جنگ کے دوران خوراک کی قلت ایک مستقل مسئلہ رہی ہے لیکن اس سے قبل جو لوگ باہر سے تنخواہیں وصول کرتے تھے وہ مقامی مارکیٹوں سے بنیادی ضرورت کا سامان خرید سکتے تھے اگرچہ وہ انھیں بہت زیادہ مہنگا ملتا تھا تاہم اب تو وہ بازار بھی کافی حد تک خالی نظر آتے ہیں۔
غزہ شہر کے ایک صحافی جن کے چار چھوٹے بچے ہیں، کہتے ہیں کہ ’میں اب خیراتی باورچی خانے سے کھانا لینے لگا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں میرے بچے دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھا رہے ہیں، جس میں صرف دال، چاول اور پاستا جیسی محدود خوراک شامل ہے۔‘
دو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے پانی میں تھوڑا سا نمک ملا کر پینا شروع کر دیا۔ ایک کا کہنا ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے روزانہ کے کھانے کے طور پر 50 گرام کا بسکٹ خرید لیتے ہیں لیکن اس کی قیمت انھیں 30 شیکل (6.60 ڈالر) ادا کرنا پڑتی ہے۔
پیسے تک رسائی اپنے آپ میں ایک آزمائش ہے۔ اس کے لیے اب پیسے کے تاجروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
غزہ شہر کے ایک کیمرا مین اس کی وضاحت کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ’اگر مجھے نقد رقم کی ضرورت ہو، تو یہ زیادہ تر دستیاب نہیں لیکن جب یہ دستیاب ہوتی ہے، تو اسے حاصل کرنے کے لیے اس کی 45 فیصد فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر میں 1,000 ڈالر نکالنے جاؤں تو مجھے صرف 550 ڈالر ہی ملیں گے۔ سارا عمل تھکا دینے والا ہے اور آج کل ہر دکاندار نقد رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔‘
جنوبی غزہ میں ہمارے ساتھی نے مزید کہا کہ ’یہ مشکل بینکوں کے بند ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ رقوم کی منتقلی ہماری بھوک کے بعد تکلیف کی ایک اور شکل ہے۔‘
بی بی سی، اے ایف پی، اے پی اور روئٹرز کہتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ غزہ کے لوگوں تک مناسب خوراک پہنچائی جائےماضی میں، میرے جیسے اسرائیلی حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ بی بی سی کے صحافی، رپورٹنگ کے لیے غزہ کا باقاعدگی سے سفر کر سکتے تھے، حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی۔
تاہم 7 اکتوبر 2023 کو جنگ کے آغاز کے بعد، اسرائیل اور مصر نے، جب رفح کراسنگ ابھی کھلی ہوئی تھی، غیر ملکی صحافیوں کو اسرائیلی فوج کے ساتھ محدود علاقے کے علاوہ رسائی سے روک دیا۔
بی بی سی اور دیگر خبر رساں اداروں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم ایک بار پھر اسرائیلی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ صحافیوں کو غزہ کے اندر اور باہر جانے کی اجازت دیں۔‘
اس ہفتے، برطانیہ سمیت 28 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔‘ انھوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور امداد کی ’ڈرپ فیڈنگ‘ بند کرے۔
بدھ کو 100 سے زیادہ امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے کہا کہ ’اب سپلائی مکمل طور پر ختم ہونے کے ساتھ، انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اپنے ساتھیوں اور شراکت داروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھ رہی ہیں۔‘
خبر رساں اداروں نے نوٹ کیا کہ ’صحافی جنگی علاقوں میں بہت سی محرومیوں اور مشکلات کو برداشت کرتے ہیں۔ ہمیں شدید تشویش ہے کہ بھوک کا خطرہ بھی اب ان میں سے ایک ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ (غزہ میں) لوگوں تک خوراک کی مناسب سپلائی پہنچے۔‘
اس وقت ہمارے اپنے ساتھی ہر دن گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے خاندانوں کے لیے اپنی ذمہ داریوںاور دنیا کو ان غیر معمولی مشکلات کے بارے میں بتانے کی خواہش کو متوازن طریقے سے نبھا رہے ہیں، جو ان کے لوگوں کو درپیش ہیں۔
ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ ’یہ وقت تباہ کن ہے۔ بھوک ہر گھر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ موت کی معطلی کی سزا جیسی ہے۔‘