فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے سربراہوں کا غزہ میں امداد کی بلارکاوٹ ترسیل کا مطالبہ

image
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سربراہان نے اسرائیل سے غزہ میں انسانی امداد کی بلارکاوٹ رسائی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانول میکخواں، برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر اور جرمن چانسلر فریڈریش میرس کے درمیان رابطے کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’شہری آبادی کے لیے ضروری انسانی امداد کا روکے جانا ناقابل قبول ہے۔‘

تین یورپی طاقتوں کے سربراہان نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ ’انسانی تباہی‘ کو ختم کرنے کے لیے غزہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دی جائے۔

رہنماؤں نے کہا کہ وہ ’فوری جنگ بندی اور ایک ایسے سیاسی عمل کی حمایت کے لیے مزید اقدامات کے لیے تیار ہیں جو اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور پورے خطے کے لیے دیرپا سلامتی اور امن کا باعث بنیں،‘ تاہم انہوں نے اقدامات کی تفصیل نہیں بتائی۔

فرانسیسی صدر کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے متعلق بیان کے بعد یورپی اتحادی ممالک کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی فرانس، جرمنی اور برطانیہ جو ’ای تھری‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، کے درمیان مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔

تینوں یورپی ممالک اگرچہ فلسطینی ریاست کی حمایت میں اصولی مؤقف رکھتے ہیں تاہم جرمنی کا کہنا ہے کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اعلان کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

جبکہ فرانسیسی صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں باضابطہ طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔

وزیراعظم کیئر سٹارمر کو بھی اپوزیشن اور اپنی حکومت کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دباؤ کا سامنا ہے۔

جمعے کو ہاؤس آف کامنز کے 650 قانون سازوں میں سے 221 نے ایک خط پر دستخط کیے جس میں وزیراعظم سٹارمر پر زور دیا گیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں۔

خیال رہے کہ 140 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں جن میں سے بارہ کے قریب یورپی ممالک ہیں۔ لیکن فرانس سات ممالک کے گروپ میں سے یہ قدم اٹھانے والا پہلا سب سے بڑا یورپی ملک ہے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow