فرانس کے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلہ سے برطانیہ پر اس حوالے دباؤ میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟

فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کے اعلان نے برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر پر اُن کی پیروی کرنے یعنی کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔
PA Media
PA Media

فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کے اعلان نے برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر پر اُن کی پیروی کرنے یعنی کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔

فرانسیسی حکام گذشتہ کچھ عرصہ سے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

وہ یہ اعلان چند ہفتے قبل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اس اعلان میں اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔

اہم بات یہ ہے کہ فرانس نے فلسطینی ریاست کو فوراً تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ وہ رواں سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

فرانس کو امید ہے کہ اُن کی جانب سے اس اعلان کے بعد دیگر مُمالک کی سفارتی مشینری بھی حرکت میں آئے گی اور وہ فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔

فرانسیسی صدر بین الاقوامی سٹیج پر جرات مندانہ فیصلے کرنا پسند کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ اُن کا یہ فیصلہ جوئے سے کم نہیں سمجھا جا رہا۔

انھیں برطانیہ سے امید ہے کہ وہ بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسا ہی کرے گا۔ چند ہفتے قبل جب میکخواں نے برطانوی پارلیمنٹ کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے ارکانِ پارلیمنٹ سے کہا تھا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے اور اس سیاسی اقدام کا آغاز کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہی امن کا واحد راستہ ہے۔

فرانس کے ایک سینیئر سفارتکار نے چند روز قبل مجھے بتایا تھا کہ اگر برطانیہ فرانس کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تو اس سے دوسرے ممالک بھی ہمارے ساتھ شامل ہونے پر قائل ہو جائیں گے کیونکہ ’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو اہم مستقل اراکین (یعنی فرانس اور برطانیہ) کی حمایت سے ہمارے ارادے کی پختگی کا پتہ چلتا ہے۔‘

امریکہ، چین اور روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان ہیں جبکہ دس دیگر ممالک دو، دو سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’فرانس اور برطانیہ کی اس حوالے سے جو اہم کام کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر لا کر فلسطین کو ریاست تسلیم کرتے ہوئے اور اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کا وعدے کرتے ہوئے اس عمل کو دوبارہ شروع کریں۔ ہمارے پاس اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کا موقع اور طاقت دونوں ہیں۔‘

Getty Images
Getty Images

مسئلہ یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں۔

یہ روایتی برطانوی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ برطانیہ طویل عرصے سے یہ دلیل دیتا رہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے عمل کو ایک سیاسی دکھاوے کے طور پر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ایک سینیئر ذرائع نے سوال اٹھایا کہ یہ فرانسیسی فیصلہ میکخواں کو بہتر محسوس کروانے کے علاوہ کیا اثر ڈالے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سفارتی کارڈ کو طویل المدتی سیاسی تصفیے کو عملی جامہ پہنانے اور ان مراحل کی رفتار بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

دوسرے لفظوں میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا اس معاملے کے حتمی انجام کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

اس معاملے کے بارے میں حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے ڈیوڈ کیمرون نے گذشتہ سال اس وقت ہلچل مچا دی تھی جب انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ریاست کے طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو حتمی اقدام کے بجائے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی جانب بڑھنے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

تاہم فرانس کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا سفارتی سلسلے کا ایک مرحلہ بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے اور اس بارے میں تمام فریقوں کو متحرکنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔ یہ اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی اور غزہ میں انسانی بحران کے پیمانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے لیے ایک دھچکا ہے۔

برطانیہ بھی روایتی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بارے میں محتاط رہا ہے کیونکہ اسے اپنے اتحادیوں، امریکہ اور اسرائیل کو ناراض کرنے کا خوف ہے، جو اس طرح کے خیال کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے خیال میں ’دہشت گردی کا انعام ہے۔‘ برطانیہ ایک غیر اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی میں بہت زیادہ مدد کرنے سے بھی گریزاں رہا ہے۔

لہٰذا فی الحال برطانیہ کچھ عرصے سے اس بارے میں جمود کا شکار ہے۔ جمعرات کی رات وزیر اعظم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم واضح ہیں کہ ریاست کا درجہ فلسطینی عوام کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔ جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کی راہ پر گامزن کرے گی جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔'

دوسرے لفظوں میں ریاست تسلیم کرنے کے عمل کو ممکن بنانے سے پہلے کم از کم جنگ بندی ہونی چاہیے۔

وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لیمی نے گذشتہ ہفتے بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی کے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ’فلسطین کو تسلیم کرنا دو ریاستی حل کے حصول کے عمل کا حصہ ہونا چاہیے جو دو الگ الگ ریاستوں پر مبنی سیاسی تصفیہ ہے جو فلسطینیوں کے حقوق اور اسرائیلیوں کی سلامتی کا تحفظ کرتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کے پاس ہمارے فیصلوں پر ویٹو کا اختیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کب اور کیسے تسلیم کرنا ہے یہ ہمارا فیصلہ ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ تسلیم کرنے کے عمل سے آپ کو دو ریاستیں حاصل نہیں ہوں گی۔ یہ ایک علامتی عمل ہے۔‘

مسئلہ یہ ہے کہ برطانوی حکام کے مطابق یہ فیصلہ سفارتی میدان سے سیاسی دائرے کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکومت پر اب اپنے ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے کارروائی کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے۔

جب بھی وزیر ہاؤس آف کامنز میں اس صورتحال کا دفاع کرتے ہیں تو ارکان پارلیمنٹ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ڈاؤننگ سٹریٹ کو ریٹائرڈ سفارت کاروں اور ارکان پارلیمنٹ کے اتحاد کی جانب سے مشترکہ خطوط لکھے جا رہے ہیں۔ فارن افیئرز کمیٹی نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔

یہاں تک کہ کابینہ کے وزرا بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس ہفتے کے اوائل میں وزیر صحت ویس سٹریٹنگ نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ انھیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گی۔

Getty Images
Getty Images

لہٰذا اب سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ برطانوی حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر وہ فرانس کی قیادت کی طرح کا ہی قدم اُٹھانے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے پارلیمنٹ میں بغاوت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

خطرہ یہ ہے کہ متبادل کے طور پر برطانیہ فرانس کے فیصلے کی پیروی کرتا ہے اور بغیر کسی اہم سفارتی فائدے کے فلسطین کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر کے 140 سے زائد ممالک پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ گذشتہ سال آئرلینڈ، سپین، ناروے اور سلووینیا نے ان ممالک کی فہرست میں شمولیت اختیار کی تھی، تاہم اس کا اثر بہت کم تھا۔

فلسطینی ریاست کے بارے میں مستقبل کے سیاسی اعلانات بہت اہم ہو سکتے ہیں لیکن وہ غزہ میں لوگوں کے لیے مختصر مدت میں حقیقت کو کس حد تک تبدیل کرتے ہیں یہ اب بھی ایک اہم اور مُشکل سوال ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow