غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشنکی جانب سے کھانوں کے پیکٹسکی شیئر کی گئی تصاویر اور دیگر معلومات کا بی بی سی ویریفائی نے باریک بینی سے جائزہ لیا اور امدادی ماہرین سے بات کی جنھوں نے ان باکسز میں موجود کھانوں کی غذائیت سے متعلق شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غذائی قلت کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق اب تک غذائی قلت کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد 147 تک جا پہنچی ہے جس میں 88 بچے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں اس وقت تقریباً 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بھوک کا سامنا ہے اور غذائی قلت سے ہونے والی اموات میں روز بروز اضافہ سامنے آ رہا ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ امدادی تنظیم غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن (جی ایف ایچ) نے مئی کے آخر سے غزہ میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کھانے کے 90 لاکھ سے زائد پیکٹس تقسیم کیے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی صحافیوں کی غزہ میں داخلے پر پابندی کے باعث بی بی سی غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن کے کھانوں کے پیکٹس کی تقسیم سے متعلق دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔
تاہم بی بی سی ویریفائی نے جی ایچ ایف کی طرف سے شیئر کی گئی تصاویر اور دیگر معلومات کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور امدادی ماہرین سے بات کی جنھوں نے ان باکسز میں موجود کھانوں کی غذائیت سے متعلق شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان ڈبوں میں کیا ہے؟
سوشل میڈیا پر موجود آن لائن ویڈیوز میں فلسطینیوں کو کھانے کے ان ڈبوں میں موجود اشیا کو شیئر کرتے دکھایا گیا ہے تاہم جی ایچ ایف نے ان کی تصاویر رواں ہفتے جاری کی ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر موجود دو تصاویر میں کھانے پینے کی زیادہ تر اشیا پاستا، سفید چنے، دالیں، گندم کے آٹے پر مشتمل ہیں اور اس خشک راشن کو پکانے اور تیار کرنے کے لیے ایندھن اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
خوراک کے ان پیکٹس میں تیل، نمک، تہینی اور سیسم پاستا بھی موجود ہے۔

جی ایچ ایف کا دعویٰ ہے کہ ان ڈبوں میں کچھ تیار شدہ کھانے کی اشیا بھی شامل ہیں جن میں تل یا تهینی اور چینی کو ملا کر تیار کی جانے والا مقبول سنیک حلوہ برس بھی شامل ہے۔
اس امدادی تنظیم نے بی بی سی کو ایک چارٹ فراہم کیا جسے وہ ہر ڈبے میں شامل اشیا کے معیارسے متعلق فہرست کہتے ہیں اور اس میں ان اشیا میں موجود کیلوریز کی تفصیل بھی شامل ہے۔
اس چارٹ کے مطابق ایک عام باکس میں کل 42,500 کیلوریز ہوتی ہیں۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ہر باکس کم از کم پانچ افراد کے لیے ساڑھے تین دن کا کھانا فراہم کرتا ہے۔‘
اس امدادی تنظیم کے مطابق کھانے کے ان باکسز میں کبھی کبھار چائے، بسکٹس، چاکلیٹس بھی موجود ہوتی ہیں جبکہ ان میں پیاز اور آلو بھی شامل ہوتے ہیں تاہم ان کا ذکر اشیا سے متعلق چارٹ میں موجود نہیں۔
’سنگین خامیاں‘
لندن سکول آف اکنامکس کے ایک بین الاقوامی امدادی ترقی کے پروفیسر نے جی ایچ ایف کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست کا بی بی سی ویریفائی کے لیے تجزیہ کیا اور کہا کہ اگرچہ یہ اشیا زندہ رہنے کے لیے درکار کیلوریز فراہم کر سکتی ہیں لیکن اس میں ’سنگین کمزوریاں‘ پائی جاتی ہیں۔
پروفیسر سٹورٹ گورڈن نے کہا کہ ’یہ راشن پیٹ تو بھر دیتا ہے لیکن حقیقت میں غذا کے اعتبار سے خالی ہوتا ہے۔ سب سے بڑی خامی وہ چیزیں ہیں جو ان میں شامل نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک ’فرسٹ ایڈ‘ فوڈ باسکٹ ہے، جس کا مقصد صرف شدید بھوک کے فوری اثرات کو روکنا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر کئی ہفتوں تک ایسی خوراک دی جائے تو اس سے ’خفیہ بھوک‘ پیدا ہو گی، جو خون کی کمی سکوروی جیسی بیماریوں کے خطرے کو بڑھا دے گی۔‘
ڈاکٹر اینڈریو سیل یونیورسٹی کالج لندن میں بین الاقوامی غذائیت کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ فوڈ باکسز کیلشیم، آئرن، زنک اور وٹامنز سی، ڈی، بی 12 اور وٹامن کے کی شدید کمی کا شکار ہیں۔
انھوں نے خبردار کیا کہ ان پیکٹس میں چھوٹے بچوں کے لیے موزوں غذا کی بھی کمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ خوراک مسلسل استعمال کی جائے تو اس سے غذائی کمی کی کئی اقسام اور سنگین صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں چاہے اس کی مناسب مقدار ہی کیوں نہ دستیاب ہو۔‘
انھوں نے مزید وضاحت کی کہ جی ایچ ایف کے برعکس، اقوام متحدہ جیسے ادارے عام طور پر خوراک بڑی مقدار میں تقسیم کرتے ہیں اور ساتھ ہی کمزور طبقوں کے لیے مخصوص غذائی امداد فراہم کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ وہ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے ہنگامی امداد فراہم کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔
جی ایچ ایف سے بی بی سی ویریفائی نے سوالات کیے کہ امدادی باکسز کے غذائی مواد کے بارے میں انھیں کوئی مشورہ دیا گیا تھا یا وہ ماہرین کی جانب سے اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں تاہم اس تنظیم نے ان سوالات کے جواب نہیں دیے۔
دوسری جانب جو لوگ یہ فوڈ باکسز حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں انھیں ان میں شامل خشک اشیا پکانے کے لیے پانی اور ایندھن درکار ہوتا ہے جبکہ غزہ اس وقت پانی کے شدید بحران اور ایندھن کی سخت کمی کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور نے رواں ہفتے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں پانی کا بحران تیزی سے بگڑ رہا ہے۔
ادارے کے مطابق بہت سے خاندان غیر محفوظ اور غیر صحت مند طریقوں سے کھانا پکانے پر مجبور ہو گئے ہیں جن میں کوڑا کرکٹ اور فضلہ جلانا بھی شامل ہے۔
عالمی ادارہ خوراک نے مئی میں بتایا تھا کہ کھانا پکانے کے لیے گیس کی سرکاری فراہمی بند ہو چکی ہے، اور اب یہ بلیک مارکیٹ میں پہلے سے 4000 فیصد زیادہ قیمت پر فروخت کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے عوام بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں اور غذائی قلت انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اقوام متحد ہ کے فوڈ ایڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تقریباً ہر تین میں سے ایک شخص کئی دنوں تک بغیر کھائے رہتا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ ’غزہ میں غذائی قلت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 90 ہزار سے زائد خواتین اور بچے فوری علاج کے منتظر ہیں۔‘
نوٹ: اس مضمون کے لیے اضافی رپورٹنگ میٹ مرفی نے کی ہے۔