سنیچر اور اتوار کی شام برمنگھم کے ایجبیسٹن میدان پر ورلڈ چیمپیئن شپ آف لیجنڈز میں پاکستان کو جنوبی افریقہ نے بہ آسانی نو وکٹوں سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کر لی۔
سنیچر اور اتوار کی شام برمنگھم کے ایجبیسٹن میدان پر ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز میں انوببی افریقہ نے پاکستان کو بہ آسانی نو وکٹوں سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کر لی ہے۔
اس ميچ کو سپورٹس سٹار پر براہ راست نشر کیا جا رہا تھا اور لوگ اپنے زمانے کے سٹارز کو دیکھنے کے لیے میدان میں بھی جمع تھے۔
پاکستانی ٹیم اور ان کے پرستاروں کو جس بات کا ڈر تھا رات وہی چیز رونما ہوئی اور ’مسٹر 360‘ کے نام سے مشہور جنوبی افریقی بلے باز اے بی ڈی ولیئرز نے پاکستان کے مسابقتی سکور کو حقیر بنا دیا۔
گروپ میچ میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کو بہ آسانی 31 رنز سے شکست دی تھی اور کرکٹ کے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس دن ڈی ولیئرز کی کمی انھیں بہت کھلی تھی لیکن فائنل میں ڈی ولیئرز نے ساری کمی پوری کردی۔
پاکستان کے کپتان محمد حفیظ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کا یہ فیصلہ قدرے حق بہ جانب تھا کیونکہ ان کی ٹیم نے 20 اوورز میں 195 رنز کا قابل دفاع مجموعہ کھڑا کیا۔
رنز اور زیادہ ہو سکتے تھے اگر شعیب ملک نے 1990 کی دہائی کی کرکٹ نہ کھیلی ہوتی۔ انھوں نے 25 گیندوں میں 20 رنز بنائے جس میں کوئی باؤنڈری شامل نہ تھی۔
بہر حال اوپنر کامران اکمل کے دو رنز پر آؤٹ ہونے کے باوجود دوسرے اوپنر اور سیریز میں اچھی کارکردگی دکھانے والے شرجیل خان نے جارحانہ سٹروک پلے جاری رکھا۔ انھوں نے نو چوکے اور چار چھکوں کی مدد سے 44 گیندوں پر 76 رنز بنائے۔
لیگ میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف مین آف دی میچ قرار دیے جانے والے عمر امین نے 19 گیندوں پر 36 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔ جبکہ آصف علی نے 15 گیندوں پر 28 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی۔
ان سب کی اننگز کی بدولت پاکستان نے جنوبی افریقہ کے سامنے جیت کے لیے 196 رنز کا ہدف رکھا۔
ڈی ولیئرز کی تیسری سنچری
لیکن جنوبی افریقہ کے جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے والے بیٹسمین اے بی ڈی ولیئرز کے سامنے یہ رنز بہت کم ثابت ہوئے۔
انھوں نے پہلے ہاشم آملہ کے ساتھ 72 رنز کی شراکت کی جس میں ہاشم آملہ کے 18 رنز شامل تھے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم اس وقت چھ اوورز میں 72 رنز بنا چکی تھی اور مطلوبہ اوسط سے کہیں زیادہ تیزی سے رنز سکور کر رہی تھی۔
اس کے بعد وہاب ریاض کی پہلی بال پر ڈی ویلیئرز نے چھکا لگا کر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔
پاکستان کے لیے ایک لمحہ ایسا آیا جب ڈی وی لیئرز کیچ آوٹ ہو گئے لیکن پھر رے پلے میں دیکھا گیا تو گیند ہاتھ میں پہنچنے سے پہلے گراؤنڈ سے ٹکرائی تھی اور یوں ڈی ولیئرز کا جارحانہ کھیل جاری رہا۔
انھوں نے سعید اجمل کے تیسرے اوور کی آخری گیند پر چوکا لگا کر 47 گیند پر اپنی سنچری مکمل کی۔
دوسری جانب ہاشم آملہ کے آؤٹ ہونے کے بعد آنے والے بیٹسمین جے پی ڈومینی نے تیزی سے سکور کرنا جاری رکھا اور 17ویں اوور کی پانچویں گیند پر جب انھوں نے رمان رئیس کو چھکا لگایا تو نہ صرف اپنی نصف سنچری مکمل کی بلکہ جنوبی افریقہ کو لیگ کا فاتح بنا دیا۔
یہ ٹورنامنٹ جہاں انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کا شکار رہا (انڈین ٹیم نے پاکستان کے ساتھ سیمی فائنل کھیلنے سے انکار کیا تھا) وہیں اے بی ڈی ولیئرز پوری طرح سیریز میں چھائے رہے۔
انھوں نے ٹورنامنٹ میں کھیلی جانے والی اپنی چھ اننگز میں تین سنچریاں اور ایک نصف سنچری سکور کی اور مجموعی طور پر 222 کے سٹرائک ریٹ سے 429 رنز بنائے۔ انھیں چار بار مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔
دوسرے نمبر پر جنوبی افریقہ کے جے سمٹس تھے جنھوں نے دو نصف سنچری کی بدولت پانچ اننگز میں 186 رنز بنائے۔ پاکستان کے شرجیل خان نے پانچ اننگز میں ایک نصف سنچری کی بدولت 160 رنز جبکہ کامران اکمل نے ایک سنچری سکور کی۔
بولنگ کے شعبے میں آسٹریلیا کے پیٹر سیڈل اور جنوبی افریقہ کے وین پارنیل 11-11 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست رہے جبکہ پاکستان کی جانب سے صرف دو میچ کھیلنے والے سعید اجمل نے سات وکٹیں لیں۔
آسٹریلیا کے خلاف انھوں چھ وکٹیں لیں جو کہ ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی تھی جبکہ فائنل میں جنوبی افریقہ کی گرنے والی واحد وکٹ ان کے حصے میں آئی۔
انڈیا نے پہلے ليگ مرحلے میں پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کر دیا۔ اگر دیکھا جائے تو انڈیا کو اس میچ کے لیے پوائنٹ نہیں دیا جانا چاہیے تھا، اس طرح اس کی جگہ انگلینڈ سیمی فائنل میں پہنچتا کیونکہ سیمی فائنل میں پھر اس نے پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو بغیر مقابلے کے فائنل تک رسائی ملی۔
’جنوبی افریقہ بڑے لڑکے لائی تھی‘
سوشل میڈیا پر اے بی ڈی ولیئرز کے چرچے ہیں اور انھیں لوگ پھر سے مین کرکٹ میں واپسی کا کہہ رہے ہیں۔
اس ٹورنامنٹ میں انڈین ٹیم کی نمائندگی کرنے والے ہربھجن سنگھنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’جنوبی افریقہ لیجنڈز کو پاکستان کے خلاف فائنل جیتنے پر مبارکباد۔ اے بی ڈی ولیئرز کیا کھلاڑی ہیں۔ آپ اب بھی مین جنوبی افریقی ٹیم اور آئی پی ایل یا دنیا کے کسی دوسرے ٹورنامنٹ کے لیے کھیل سکتے ہیں۔‘
شعیب رحمان نامی صارف نے لکھا ’جنوبی افریقہ بڑے لڑکے لائی تھی۔‘
جبکہ سعید نامی صارف نے لکھا ’بالآخر ساؤتھ افریقہ نے کوئی چیمپیئن شپ جیت ہی لی چاہے وہ لیجنڈ ’ورلڈ چیمپیئن لیگ‘ ہو ۔
شاہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ جب اے بی نے جنوبی افریقہ کے لیے پہلی ٹرافی جیتی تو پورا انڈیا ان کے لیے خوش تھا۔
ایک اور صارف نے شاہد آفریدی کی ٹیم کے ساتھ تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’اس موقع پہ آفریدی نے سب کو اکٹھا کیا اور نئی سٹریٹجی بتائی کہ رنز کیسے روکنے ہیں۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ نے تین اوورز میں پچاس رنز مارے۔‘
اس ٹیم میں عمران طاہر کی جگہ اے بی متبادل کے طور پر شامل ہوئے اور انھوں نے ٹائٹل اپنے نام کیا۔ کئی صارفین نے اس جانب اشارہ کیا کہ رواں سال ’جنوبی افریقہ نے ڈبلیو ٹی سی جیتا، آر سی بی نے آئی پی ایل جیتا اور اے بی ڈی ولیئرز نے بالآخر خود ایک ٹرافی جیتی۔ اے بی ڈی کے لیے یہ سال کتنا شاندار جا رہا ہے۔‘
آیوش نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ایک بار ڈی ولیئرز نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے انھیں کھیلتا اور جیت حاصل کرتا ہوا دیکھیں۔ اور آج انھوں نے ڈبلیو سی ایل کی فتح کا جشن ان کے ساتھ منایا۔ زندگی نے اپنا دائرہ مکمل کیا۔‘
واضح رہے کہ ڈی ولیئرز کے تینوں بچے جیت کے بعد ان کے ساتھ میدان میں تھے۔
معروف امپائر رچرڈ کیٹلبرو نے ایک لمحے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ دس اوورز میں جب جنوبی افریقہ ایک وکٹ کے نقصان پر 117 رنز تھی تو شاہد آفریدی میدان میں آئے اور انھوں نے کچھ ٹپس دیں۔ اس کے بعد سے اے بی ڈی ولیئرز او رجے پی ڈومینی نے تین اوورز میں 50 رنز بنائے۔