خواجہ آصف کا سرکاری افسران کی جانب سے پرتگال میں جائیدادیں خریدنے کا دعویٰ: پرتگال کا گولڈن ویزا کیا ہے اور یہ اتنا پُرکشش کیوں ہے؟

منگل کے روز پاکستان کے وزیرِ دفاع اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما خواجہ آصف کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ملک کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے اور شہریت لینے کی تیاری کر رہی ہے۔
پرتگال
Getty Images

منگل کے روز پاکستان کے وزیرِ دفاع اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما خواجہ آصف کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ملک کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے اور شہریت لینے کی تیاری کر رہی ہے۔

خواجہ آصف نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں دعویٰ کیا کہ ان افراد میں نامی گرامی بیوروکریٹس شامل ہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان میں بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے بارے میں بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کی باتیں سامنے آئی ہوں۔

مئی 2024 میں عالمی صحافتی تنظیم ’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘ (او سی سی آر پی) کی جانب سے ’دبئی اَن لاکڈ‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی تحقیقات میں متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ریئل سٹیٹ شعبے کے غیر ملکی مالکان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی۔

او سی سی آر پی کے میڈیا پارٹنر اور پاکستانی اخبار روزنامہ ڈان کی ایک تحریر کے مطابق 2022 کے لیک شدہ ڈیٹا کے مطابق ’دبئی کی 23 ہزار رہائشی پراپرٹیز کی ملکیت 17 ہزار پاکستانی شہریوں کے پاس ہے۔ ان میں کئی سابقہ آرمی افسران، بینکار، سیاستدان اور بیوروکریٹس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ رواں سال جنوری میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا گیا کہ ملک کے 22 ہزار سے زیادہ بیوروکریٹس دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

گذشتہ ماہ پاکستان نے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی، جس کے بعد اب گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین کے لیے لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کی ملک میں اور بیرونِ ملک موجود اثاثوں کی تفصیلات اور اپنی مالی صورتحال کے بارے میں بتائیں۔

سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں ایک نیا سیکشن 15 اے شامل کیا گیا، جس کے مطابق سرکاری افسران کے اثاثوں کی تفصیلات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذریعے پبلک کی جائیں گی۔

ہم اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ سرکاری افسران بیرون ملک یہ جائیدادیں کیوں خریدتے ہیں لیکن اس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ پرتگال میں سرمایہ کاری بہت سے لوگوں کے لیے اتنی پرکشش کیوں ہے؟

پرتگال کا گولڈن ویزا پروگرام

پرتگال کا گولڈن ویزا پروگرام ’گولڈن ریزیڈنس پرمٹ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اس پروگرام کے تحت غیر یورپی ممالک کے شہری ایک مخصوص رقم کی سرمایہ کاری کے عوض پرتگال میں مستقل ریزیڈنسی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس سکیم کے تحت نوکریاں پیدا کرنے، تحقیقاتی سرگرمیوں، کمرشل کمپنی کے قیام، ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے فروغ، وینچر کیپیٹل اور دیگر سکیموں میں سرمایہ کاری کے لیے فنڈز پرتگال منتقل کیے جا سکتے ہیں۔

اس سے قبل ریئل سٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے پر بھی مستقل ریزیڈنسی حاصل کی جا سکتی تھی تاہم 2023 میں اس آپشن کو ختم کر دیا گیا۔

پرتگال کے گولڈن ویزا پروگرام کے تحت ریزیڈنسی حاصل کرنے والے افراد اپنے پارٹنر، بچوں، والدین اور پارٹنر کے والدین کو بھی پرتگال بلانے کے اہل ہوں گے۔

اس کے علاوہ، پانچ سال کے بعد اس پروگرام کے تحت سرمایہ کاری کرنے والے پرتگال کی شہریت کے لیے اپلائی کرنے کے لیے اہل ہوں گے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے بلومبرگ کے مطابق 2024 میں پرتگال نے تقریباً پانچ ہزار گولڈن ویزے جاری کیے۔ یہ تعداد 2023 میں جاری کیے جانے والے 2901 گولڈن ویزوں کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد زیادہ ہیں۔

بظاہر سپین کی جانب سے رواں سال اپریل میں گولڈن ویزا سکیم ختم کیے جانے کے بعد پرتگال میں سرمایہ کاروں کی جانب سے دلچسپی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

’لوگ ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں امیگریشن مل جائے‘

پرتگال
Corbis via Getty Images

پاکستان کی وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ پاکستانی اشرافیہ اکثر بیرونِ ملک سرمایہ کاری کا رُخ اس لیے کرتی ہے کہ وہ معیشت میں ممکنہ غیر یقینی صورتحال، کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ اور مقامی مالیاتی نظام کی حدود کو مدِنظر رکھتے ہیں۔

’بیرونی سرمایہ کاری انھیں اپنے اثاثے متنوع بنانے، مالی تحفظ حاصل کرنے اور زیادہ مستحکم قانونی و ریگولیٹری ماحول تک رسائی کا موقع فراہم کرتی ہے، جو مقامی سطح پر ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتا۔‘

اسلام آباد میں قائم سسٹینیبل پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی سرکاری ملازم ہے یا نہیں، لوگوں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی ایک بڑی وجہ سفری سہولت ہے۔

’پاکستانی پاسپورٹ پر ویزا لینا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ اگر وہ خود نہیں تو کم از کم ان کے بچوں کو باہر جا کر تعلیم کا موقع ملے۔‘

’اس سلسلے میں بہت سے لوگ خاص طور پر سول بیوروکریٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی جمع پونجی خرچ کر کے ریٹارمنٹ کے بعد ایسے ملک جو نسبتاً آسانی سے امیگریشن دیتے ہیں، وہاں جا کر انویسٹر کیٹیگری میں پہلے عارضی ریزیڈنسی اور پھر مستقل ریزیڈنسی اور بالآخر پاسپورٹ حاصل کر سکیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اکثر اس سارے عمل میں آٹھ سے دس سال لگ جاتے ہیں اور یہ اتنی آسانی سے نہیں ہوتا لیکن اس کا آغاز سرمایہ کاری سے ہی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر کسی بھی شخص کے اپنے ملک کو چھوڑ کر جانے کی دو تین وجوہات ہوتی ہیں۔

عابد سلہری کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو ہمیشہ دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو ہر جگہ ڈالرز اور یوروز کی برسات ہو رہی ہو گی۔‘

ان کی نظر میں ایک اور وجہ اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش ہوتی ہے خاص طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے۔

اس کے علاوہ بہت سے لوگ ان ممالک میں ملنے والی صحت کی سہولیات کی وجہ سے بھی پاکستان چھوڑ کر جاتے ہیں۔

کیا بیرون ملک سرمایہ کاری کی وجہ حکومت کی جانب سے ممکنہ کارروائی کا خوف تو نہیں؟

احمد بلال محبوب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے صدر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان میں آپ کی پراپرٹی محفوظ نہیں۔

’یہاں پر اپنی پراپرٹی آپ کسی کرائے دار کو دیں گے تو اس پر قبضہ ہونے کے چانسز ہیں، پراپرٹی خالی پڑی ہوئی ہے تو بھی کوئی قبضہ کر سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ بیرون ملک کوئی اپارٹمنٹ یا گھر خرید لیتے ہیں لیکن آپ وہاں رہ نہیں رہے تو پھر بھی آپ کی پراپرٹی محفوظ ہے۔

’وہاں پر سسٹمز موجود ہیں۔ وہاں ایسی کمپنیاں ہیں جو آپ کا گھر کرائے پر چڑھا دیں گی، اس کا خیال رکھیں گی اور کرایہ وصول کر کے آپ کو بھیج دیں گی۔‘

لیکن کیا بیرون ملک اس سرمایہ کاری کی وجہ حکومت کی جانب سے ممکنہ کارروائی کا خوف تو نہیں؟

اس سوال کے جواب میں احمد بلال کا کہنا تھا کہ ’فرض کریں کسی وقت آپ کے خلاف اپنے ملک میں کوئی مقدمہ بن جائے اور اس وقت آپ کی پراپرٹی منظر عام پر آئے تو بیرون ملک میں موجود پراپرٹی کو ضبط کرنا نسبتاً مشکل ہوتا ہے لیکن ملک میں موجود پراپرٹی تو حکومت کسی بھی وقت ضبط کر سکتی ہے۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ ’اگر یہ پتہ چل جائے کہ بیرون ملک موجود جائیداد غیر قانونی ذرائع سے بنائی گئی ہے تو اسے بھی ضبط کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا عمل بہت لمبا ہوتا ہے۔‘

عابد سلہری کہتے ہیں کہ کسی بھی پاکستانی کے بیرونِ ملک پراپرٹی خریدنے یا سرمایہ کاری پر کوئی پابندی تو نہیں لیکن شرط صرف یہ ہے کہ اسے اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں اسے ظاہر کرنا ہو گا۔

’تاہم ملک میں موجود شہری یا اوورسیز پاکستانی اس کو اکثر ڈیکلیئر نہیں کرتے کیونکہ ٹیکس انفارمیشن شیئرنگ کا نظام اتنا مربوط نہیں کہ یہاں ایف بی آر کو پتا چل سکے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US