ڈاکٹر نانِک راج کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد سے ہے۔ وہ سنہ 2009 میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ انڈیا چلے آئے تھے۔
’حکومت سے میرا صرف ایک سوال ہے کہ میری شہریت کیا ہے؟ کچھ لوگ مجھے پاکستانی کہتے ہیں، کچھ لوگ مجھے انڈین کہتے ہیں۔ لیکن کاغذ پر میں نہ تو انڈین ہوں اور نہ ہی پاکستانی۔‘
یہ الفاظ ڈاکٹر نانِک راج مُکھی کے ہیں جنھیں گزشتہ چار سالوں سے انڈین شہریت حاصل کرنے کے لیے مختلف سرکاری دفاتر سے دباؤ کا سامنا ہے۔
بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے مسائل بتائے: ’میرا کلینک انڈین شہری نہ ہونے کی وجہ سے سیل کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے میرا روزگار بھی ختم ہو گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں اپنے بچوں کے سکول کے فارموں پر والد کی شہریت کا خانہ خالی چھوڑنا پڑتا ہے۔
اس بارے میں انھوں نے بتایا: ’چونکہ میں نے اپنی پاکستانی شہریت چھوڑ دی ہے، اس لیے میں پاکستان نہیں لکھ سکتا، اور میرے پاس انڈین شہریت ہے نہیں، اس لیے اس خانے میں انڈیا لکھنا جرم ہوگا۔‘
ڈاکٹر نانِک راج کا تعلق اصل میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد سے ہے۔ وہ سنہ 2009 میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ انڈیا چلے آئے تھے۔
سنہ 2016 میں، انھوں نے احمد آباد کلکٹریٹ میں انڈین شہریت کے لیے درخواست دی۔ احمد آباد کلکٹریٹ سے موصول ہونے والے قبولیت کے خط کی بنیاد پر، انھوں نے سنہ 2021 میں اپنی پاکستانی شہریت ترک کردی۔
حال ہی میں، راجکوٹ میں شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے تحت پاکستان سے انڈیا آنے والے 185 لوگوں کو انڈین شہری ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ لیکن احمد آباد میں رہنے والے نانِک راج ایسے ایک شخص ہیں جنھیں چار سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی انڈیا کی شہریت اب تک نہ مل سکی ہے۔
انڈیا کی شہریت کے لیے درخواست
چار سال گزرنے کے باوجود انڈین شہریت نہ ملنے کے بعد انھوں نے بالآخر گجرات ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
گجرات ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں نانِک راج مُکھی کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق، انھوں نے 20 اگست 2016 کو انڈین شہریت حاصل کرنے کے لیے احمد آباد کلکٹر آفس میں درخواست دی تھی۔ 11 جولائی 2017 کو نانک راج کو کلکٹر آفس سے ان کی درخواست کو قبول کیے جانے کا ایک خط موصول ہوا۔
نانِک راج کا کہنا ہے کہ یہ خط ملنے کے بعد 30 مارچ 2021 کو نانک راج نے اپنا پاکستانی پاسپورٹ دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں جمع کرا دیا اور انڈین پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے 7600 روپے فیس ادا بھی کی۔
یہ رسید احمد آباد کلکٹریٹ میں جمع کرائی گئی۔ نیز، احمد آباد کلکٹریٹ میں چالان بھرا گیا اور اس کے فائل کرنے کی واجب الادا فیس بھی ادا کی گئی۔
ہائی کورٹ میں داخل کی گئی درخواست میں دی گئی معلومات کے مطابق، 18 فروری سنہ 2025 کو نانِک راج نے ضلع مجسٹریٹ سے موصول ہونے والے ایک خط میں لکھا کہ ’یا تو سنٹرل آئی بی کی رپورٹ غلط ہے یا اسے اپ لوڈ نہیں کیا گیا ہے۔‘
نانک راج کہتے ہیں: ’مجھے احمد آباد کلکٹریٹ کی طرف سے قبولیت کا خط دیا گیا تھا، جو کہ صرف آئی بی کی تحقیقات مکمل ہونے اور مثبت رپورٹ آنے کے بعد دیا جاتا ہے۔‘
اب نانِک راج پریشان ہیں کیونکہ آئی بی کی تحقیقاتی رپورٹ نہیں دی گئی ہے یا گم ہو گئی ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ’کچھ عہدیداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے مجھے چار سال سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کلکٹر کے دفتر میں مجھے 50 سے زیادہ بار ہراسانی کا سامنا رہا۔ آخر کار میں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ مجھے امید ہے کہ انصاف ملے گا۔‘
’میرا کلینک بند کر دیا گيا‘
بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے نانِک راج مُکھی نے کہا: ’میں نے 1999 میں سندھ یونیورسٹی، حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد، میں نے ایک سالہ سونوگرافی کا ڈپلومہ کورس کیا۔ سنہ 2002 سے 2009 تک میں نے حیدرآباد (پاکستان) میں بطور ڈاکٹر پریکٹس کی۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’2009 میں اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان سے انڈیا آنے کے بعد میں نے میڈیکل کونسل کی اجازت سے احمد آباد کے علاقے راکھیال میں پریکٹس کرنی شروع کی۔ پریکٹس کی اجازت میڈیکل کونسل دیتی ہے۔ جسے ہر سال رینیو کرنا پڑتا ہے۔ جس کی میں باقاعدگی سے تجدید بھی کرتا تھا۔‘
اب نانِک راج کے لیے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ میڈیکل کونسل نے پاکستان سے انڈیا آنے والے ڈاکٹروں کو پریکٹس کی عارضی اجازت دینا بند کر دی ہے۔
نانِک راج کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’میڈیکل کونسل نے پاکستان سے انڈیا آنے والے ہر ڈاکٹر کو خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ آپ انڈیا نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ آپ کو پریکٹس کے لیے جو عارضی اجازت دی جا رہی تھی وہ اب بند کی جا رہی ہے۔ آپ کو نیشنل میڈیکل کونسل کا امتحان دینا ہوگا۔ اس کے بعد میں نے ڈیڑھ سال تک تیاری کی اور امتحان پاس کیا۔ مجھے نیشنل میڈیکل کونسل نے سرٹیفکیٹ بھی دیا۔‘
اس کے باوجود نانِک راج کے کلینک کو اکتوبر 2024 میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے سیل کر دیا۔
وہ کہتے ہیں: ’جب میرا کلینک بند ہوا تو میں بے روزگار ہو گیا، میرا روزگار ختم ہو گیا۔ میں اپنے خاندان میں اکیلا کمانے والا ہوں۔‘
ہم نے نانِک راج کے اس مسئلے کے بارے میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اشون کھراڈی سے بات کی۔
انھوں نے کہا: ’میرے ڈیوٹی پر آنے سے پہلے ہی ان کا کلینک سیل کر دیا گیا تھا۔ فائل کے مطابق، ان کا کلینک اس لیے سیل کیا گیا کہ ان کے پاس گجرات میڈیکل کونسل کا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نہیں تھا۔‘
نانِک راج کو اپنا کلینک دوبار شروع کرنے کے لیے مختلف دفاتر کے چکر لگانے پڑے اور انھیں دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ان کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔
نانِک راج کہتے ہیں: ’جب میں احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے دفتر جاتا ہوں تو وہ مجھ سے گجرات میڈیکل کونسل سے سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کو کہتے ہیں۔ جب میں سرٹیفکیٹ لینے میڈیکل کونسل جاتا ہوں تو وہ مجھ سے شہریت کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کو کہتے ہیں۔ جب میں شہریت حاصل کرنے کے لیے کلکٹر کے دفتر جاتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کی درخواست کی آئی بی رپورٹ گم ہوگئی ہے یا اپ لوڈ نہیں کی گئی ہے۔‘
نانِک راج کہتے ہیں: ’میں نے نیشنل میڈیکل کونسل کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔ میں ایک قابل ڈاکٹر ہوں، لیکن شہریت نہ ملنے کی وجہ سے میں کچھ عرصے سے بے روزگار ہوں۔ میری بیٹی پونے میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے جبکہ میرا بیٹا راجستھان کے کوٹا میں ایم بی بی ایس کی کوچنگ کر رہا ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے میں اپنے بھائیوں یا رشتہ داروں سے پیسے لے رہا ہوں، لیکن میں کتنے دنوں تک ان کی فیس ادا کر سکتا ہوں؟‘
انڈین شہریت کا قانون
تحصیل دار یجویندر سنگھ راٹھوڑ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق شہریت قانون میں مختلف زمرے ہیں۔
یجویندر سنگھ کے مطابق: ’شہریت زمرہ 6.1 میں دی تفصیل کے مطابق درج کی جاتی ہے۔ اس زمرے میں درخواست دینے والے شخص کو چھ سال تک انڈیا میں مقیم ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، اسے درخواست دینے سے پہلے ایک سال تک انڈیا نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘
اس زمرے کے تحت شہریت کے لیے درخواست آن لائن دینی ہوتی ہے۔
آن لائن درخواست دینے کے بعد، درخواست کا پرنٹ آؤٹ اور مطلوبہ دستاویزات کی تین کاپیاں کلکٹر کے دفتر میں جمع کرانی پڑتی ہیں۔
اس کے بعد انھیں حلف دلایا جاتا ہے جس میں درخواست گزار کو دو ضامن لانا ہوتے ہیں۔ یہ ضامن انڈین شہری ہونے چاہییں۔
درخواست موصول ہونے کے بعد کلکٹر آفس سٹی پولیس کمشنر اور ایف آر آر او کو تحقیقات کے لیے خط لکھتا ہے۔
سنٹرل انویسٹیگیشن بیورو آف انڈیا (سی بی آئی) کو اس درخواست تک صرف آن لائن رسائی ہوتی ہے۔ لہذا درخواست موصول ہونے کے بعد، سی بی آئی ایک رپورٹ تیار کرتا ہے اور اسے آن لائن اپ لوڈ کرتا ہے۔
یجویندر سنگھ راٹھوڑ کے مطابق، تینوں، سی بی آئی، سٹی پولیس اور ایف آر آر او کی رپورٹ مثبت ہونی چاہیے۔
دہلی کے سفارت خانے میں سابقہ ملک کی شہریت ترک کرنے کے بعد، رسید کلیکٹر کے دفتر میں جمع کرانی ہوتی ہے۔ اس کے بعد چالان بھرنا ہوتا ہے یعنی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نانِک راج کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق، انھوں نے کلکٹر کے دفتر سے قبولیت کا خط ملنے کے بعد ہی اپنی پاکستانی شہریت کو سرینڈر کیا تھا۔ انھوں نے رسید بھی کلکٹر کے دفتر میں جمع کرادی ہے اور چالان کی فیس بھی کلکٹر کے دفتر میں ادا کردی ہے۔
شہریت آخر کیوں نہیں مل رہی؟
نانک راج کو شہریت کیوں نہیں مل رہی اس سوال کے جواب میں یجویندر سنگھ نے بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ان کی درخواست پر سی بی آئی کی رپورٹ آن لائن دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے انھیں شہریت نہیں دی جا رہی ہے۔‘
نانک راج کو کلکٹر کے دفتر سے ایک قبولیت کا خط ملا ہے، جو آئی بی کی رپورٹ کے بعد ہی دی جاتی ہے۔
اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یجویندر سنگھ نے کہا کہ ’میں اس جگہ جولائی 2024 میں ہی آیا۔ اس لیے مجھے اس سے پہلے کے کام کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔‘
تاہم، یجویندر سنگھ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ نانک راج کو کلکٹر کے دفتر سے قبولیت کا خط ملا ہے۔
ہائی کورٹ میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق جہاں نانِک راج نے اب درخواست دائر کی ہے نانک راج نے 23 اکتوبر 2021 کو دوسری بار شہریت کے لیے درخواست دی ہے۔ حالانکہ نانک راج نے تمام رسمی کارروائیاں مکمل کر لی تھیں، لیکن ان کی شہریت کی درخواست اس وجہ سے مسترد کر دی گئی تھی کہ انھیں سی بی آئی سے کلیئرنس رپورٹ نہیں ملی۔
نانِک راج کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ کو 2022 میں اور ان کی ایک بیٹی کو 2024 میں انڈین شہریت ملی لیکن انھیں نہیں مل سکی۔
ہائی کورٹ میں نانک راج کی طرف سے داخل کردہ درخواست میں دی گئی معلومات کے مطابق ان کے سات بہن بھائی ہیں۔ جن میں سے ان کے بھائیوں منگومل، بھوجمل، وسومل اور ان کی بہن وجیانتی کو انڈین شہریت مل گئی ہے۔
ان کا ایک اور بھائی جو سنہ 2019 میں اندیا آیا تھا اس نے ابھی تک انڈین شہریت کے لیے درخواست نہیں دی ہے۔