کیا انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف کا اعلان پاکستان کے لیے امریکی برآمدات بڑھانے کا سنہری موقع ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے بعد شروع ہونے والی ’ٹیرف وار‘ میں کیا پاکستان امریکی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ یہی جاننے کے لیے ہم نے تجارتی ڈیٹا کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی ایکسپورٹرز، تجارتی و اقتصادی ماہرین سے بات کی۔
نیو یارک
Getty Images

امریکہ میں کے سٹورز میں اچار کی خوشبو،تیار مسالوں کے ڈبے، ٹن پیک ساگاور باستمی چاول، یہ مناظر پاکستان یاانڈیا کی کریانہ دکانوں جیسے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ امریکہ میں اپنے کسی دوست یا رشتے دار کے ساتھ پاکستانی انڈین کمیونٹی والے علاقوں میں ان دکانوں میں گئے ہوں۔

نیویارک سمیت امریکہ کے مختلف شہروں میں ایسی بہت سی دکانیں ہیں جہاں ہر طرح کی پاکستانی اور انڈین مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ مشہور امریکن سٹورز جیسے’ٹارگٹ‘، ’وال مارٹ‘ اور ’کوسٹ کو‘ میں بھی انڈینسیکشن ہیں جہاں انڈین برانڈ، ہلدی رام کے مسالے، باسمتی چاول اور خشک میوے وغیرہ فروخت ہوتے ہیں۔

امریکہ کے بڑے چین سٹورز اور برینڈزانڈیا، چین، بنگلہ دیش اور پاکستان کے بنی ہوئے کپڑے اور ٹیکسٹائل مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں۔

امریکہ نے انڈین مصنوعات پر 50 فیصد تک ٹیرف عائد کر دیا ہے جس کے بعد جہاں ایک طرف یہ خدشہ ہے کہ امریکی صارفین کے لیے انڈین مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی تو وہیں مبصرین کا خیال ہے کہ اب امریکی منڈیوں میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے مزید مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

عائزہ عرفان امریکہ کے شہر نیویارک میں رہتی ہیں جہاں بڑی تعداد میں انڈین اور پاکستانی کمیونٹی موجود ہے۔ وہ اور اُن کے اہلخانہ دیسی کھانے پسند کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’ہم اپنے کچن یا کھانے پینے کی اشیا کی خریداری انڈین سٹور سے کرتے ہیں اور ان میں 50 سے 60 فیصد اشیا ایسی ہیں جو انڈیا سے امپورٹ ہوتی ہیں۔ ویسی ہی امریکہ میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ٹیرف (پر مکمل عملدرآمد) کے بعد قیمتیں مزید بڑھیں گی اور اثر ہم سب پر ہو گا۔‘

دوسری جانب چین، انڈیا اور دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستانی مصنوعات پر امریکہ نے 19 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جس کے بعد پاکستانی حکام پُرامید ہیں کہ مقامی مصنوعات کی امریکی منڈیاں تک رسائی بہتر ہو سکتی ہے۔

امید کے برعکس حقیقیت کیا ہے اور کیا اس ’ٹیرف وار‘ میں پاکستان امریکی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے؟ یہی جاننے کے لیے ہم نے تجارتی ڈیٹا کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی ایکسپورٹرز، تجارتی و اقتصادی ماہرین سے بات کی۔

US. Tariff, India
Getty Images
امریکہ نے تجارتی مذاکرات ناکام ہونے کے بعدانڈین مصنوعات پر 50 فیصد تک ٹیرف عائد کر دیا ہے

انڈیا اور امریکہ ایک دوسرے سے کیا خریدتے ہیں؟

صدر ٹرمپ نے انڈیا پر پہلے 25 فیصد اور بعد میں روس سے تیل کی خرایدری کو جواز بنا کر دوبارہ 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے جس کے بعد انڈیا پر مجموعی ٹیرف 50 فیصد ہو گیا ہے۔

رواں ماہ کے آخر سے انڈیا پر اضافی ٹیرف کے نفاذ سے انڈین مصنوعات امریکی منڈیوں میں مہنگی ہونے سے کاروباری مسابقت کھو سکتے ہیں۔

بعض اقتصادی ماہرین اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کے مطابق امریکی ٹیرف کے نفاذ سے انڈیا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) متاثر ہو سکتی ہے۔

امریکہ اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ تجارتی حجم 128 ارب سے زیادہ ہے۔

امریکہ کے سینسز بیورو کے مطابق انڈیا امریکہ کو بڑی تعداد میں ادوایات سازی میں استعمال ہونے والا میٹیریئل، ٹیکسٹائل مصنوعات، قیمتی پتھر اور سونے چاندے سے بنے زیوارت، چاول، مسالہ جات، چائے کی پتی سمیت پیٹرو کیمیکل مصنوعات فروخت کرتا ہے۔

امریکی محکمۂ تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 میں انڈیا نے امریکہ کو 87 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کیں جبکہ انڈیا نے امریکہ سے 41 ارب 50 کروڑ ڈالر مالیت کی مصنوعات خریدی ہیں۔

مگر اس تجارتی حجم کا جھکاؤ انڈیا کی طرف رہا ہے۔ صرف مصنوعات میں انڈیا کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ 45 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔

کیا پاکستانی اشیا انڈین مصنوعات کا متبادل ہو سکتی ہیں؟

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انڈیا امریکہ کا دوست ہے لیکن اس کے باوجود انڈیا اور امریکہ کی تجارتی شراکت داری ’منصفانہ بنیادوں پر نہیں ہے۔‘

رواں سال فروری میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا تھا اور 2030 تک دو طرفہ تجارتی حجم 500 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا تھا۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے عائزہ نے بتایا کہ وہ کچن کی خریداری کے لیے مسالہ جات جیسے ہلدی، باستمی چاول اور دیسی ڈشز تیار کرنے والے اجزا ’دیسی سٹورز‘ سے خریدتی ہیں جہاں یہ تازہ اور قدرے سستے ہوتے ہیں۔ وہ ان دیسی سٹورز کے حوالے سے انڈین نژاد امریکی ریٹیلرز ’پیٹل براداز‘اور ’اپنا بازار‘ کی مثالیں دیتی ہیں۔ یہ ایسے سٹورز ہیں جو امریکہ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور براہ راست سامان انڈیا سے منگوا کر سستے داموں پر بیجتے ہیں۔

مگر انھیں خدشہ ہے کہ ٹیرف کے نفاذ کے بعد مہنگی انڈین پروڈکٹس اُن کی جیب پر بھاری ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ انھیں سستے متبادل پر منتقل ہونا پڑے۔

ماہرین اور اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اور انڈیا پر ٹیرف لگنے کے بعد امریکی منڈیوں میں پاکستان مصنوعات کے لیے گنجائش بڑھ گئی ہے۔

سال 2025 میں پاکستان کی مجموعی برآمدات 35 ارب 90 کروڑ ڈالر رہیں۔ امریکی محکمۂ تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے مابین مجموعی تجارت سات ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔

سنہ 2024 کے دوران پاکستان نے امریکہ کو پانچ ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کی جبکہ امریکہ سے دو ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات خریدی گئی۔

امریکہ اُن چند ممالک میں شامل ہے جن کے ساتھ پاکستان کا تجارت خسارے کی بجائے سرپلس میں ہے۔

MODi
Bloomberg via Getty Images
انڈیا نے امریکہ کی جانب سے عائد کئے گئے ٹیرف کو غیر معقول قرار دیا ہے

انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف کیا پاکستان کے لیے ’نایاب‘ موقع؟

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سابق پاکستانی سفیر ڈاکٹر منظور احمد کے مطابق بہت عرصے سے پاکستان کی ایکسپورٹس بڑھ نہیں رہیں اور اب ’ٹیرف وار‘ کے اس دور میں پاکستان کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنا مارکیٹ شیئر بڑھا سکے۔

ڈاکٹر منظور احمد پاکستان کی ٹیرف اصلاحات کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئےانھوں نے کہا کہ بعض شعبے جیسے ٹیکسٹائل، چمڑے سے بنی مصنوعات، کھیلوں کے سامان اور فوڈ آئٹم میں پاکستان کے پاس اتنی صلاحیت اور تجربہ ہے کہ انڈین مارکیٹ شیئر حاصل کر لے۔

دوسری جانب انڈیا امریکہ کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اتنے زیادہ ٹیرف سے انڈیا کے ساتھ ساتھ امریکی کاروبار کے لیے بھی جھٹکا ہیں اور بعض کاروباری حلقوں کے مطابق دونوں ممالک کے کاروباری افراد اسے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

امریکہ کی مجموعی برامدآت کا 18 فیصد انڈیا پر مشتمل ہے۔

پاکستانی ایکسپورٹرز کو کن چیلنجز کا سامنا؟

امریکہ کے لیے پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے مگر حکام کے برعکس اس شعبے سے وابستہ افرادنے ملے جلے روعمل کا اظہار کیا

انٹرلوپ کا شمار پاکستان کے اُن بڑے ایکسپورٹرز میں ہوتا ہے جو اپنی منصوعات امریکہ میں فروخت کرتے ہیں۔۔

کپمنی کے سربراہ مصدق ذوالقرنین نے ایکس پر جاری پوسٹ میںلکھا کہ ملبوسات اور ہوم ٹیکسٹائل کے بڑے ریٹئیلر پہلے یہ دیکھیں گے کہ کوئی معاہدہ (ٹیرف میں کمی سے متعلق) ہو جائے اور تین ہفتوں کے بعد ہی وہ اپنے آڈرز کو منقتل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

انھوں نے لکھا کہ اگر انڈیا پر 25 فیصد اضافی ٹیرف برقرار رہتاتو ہوم ٹیکسٹائل میں پاکستان کوسب سے زیادہ فائدہ ہو گا جبکہ ملبوسات کی برآمدات میں پہلے نمبر دوسرے اور تیسرے نمبر پر بنگلہ دیش ویتنام اور پاکستان کو منتخب کیا جا سکتا ہے۔

مصدق ذوالقرنین کے مطابق اگر 10 سے 15 فیصد انڈین شیئر پاکستان منتقل ہو جائے تو 50 سے 75 کروڑ ڈالر کی اضافی ایکسپورٹ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی منصوعات کی قیمتیں انڈین مصنوعات کی قیمتوں کے قریب قریب ہوں۔

دوسری جانب پاکستان کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹر مسعود نقی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں انڈیا کا شیئر آٹھ فیصد ہے اور پاکستان کا حصہ محض ڈھائی فیصد ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹائل کی مجموعی 17 ارب ڈالر کی برآمدات میں سے چار ارب ڈالر امریکہ جاتی ہیں۔

پاکستان اس صورتحال میں کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس بارے میں مسعود نقی کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل ایک وسیع شعبہ ہے جس میں ریڈی میڈ گرامنٹس سے لے کر تولیے، چادریں وغیرہ شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان اور انڈیا ٹیکسٹائل کی پراڈکٹ لائن میں براہراست مد مقابل نہیں ہیں بلکہ پاکستان کا مقابلہ چین اور بنگلہ دیش ہے۔

مسعود نقی کے مطابق چین اور بنگلہ دیش کے پروڈکشن سکیل کا پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ ٹرمپ نے چین پر 30 فیصد جبکہ بنگلہ دیش پر 20 فیصد ٹیرف ریٹ عائد کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ چین سے ٹیکسٹائل یونٹس دوسرے ممالک منتقل ہو رہے ہیں اور اگر پاکستان میں سکیورٹی سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے ماحول ساز گار ہوں تو پھر پاکستان کو طویل مدت میں فائدہ ہو سکتا ہے۔

ایکسپورٹر مسعود نقی کے مطابق بین الاقوامی تجارت میں دونوں فریقین کے مابین کاروبار اعتماد اور طویل شراکت داری کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن یہ موجودہ ٹیرف کی صورتحال کچھ مختلف ہے۔

’اگر امریکہ میں مصنوعات صارفین کی قوتِ خرید سے باہر ہو جائیں تو انٹرنیشنل برانڈ وہ مصنوعات بیچنا ہی بند کر دیں گے اور یہ صورتحال انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ صارفین کی اگر دلچسپی ختم ہو جائے تو کاروبار سکڑ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسا سازگار ماحول بنانا ہے جوٹیرف کے زد میں آنے والے ممالک سے صنعتوں کو یہاں منتقل کروانے میں مدد کرے کیونکہ یہی وہ واحد حل ہے جس سے پاکستان کی برآمدت بڑھ سکتی ہیں۔

ڈاکٹر منظور احمد کے مطابق پاکستان نے حال ہی میں ملکی سطح پر ٹیرف اصلاحات کی ہیں تاکہ مشینری امپورٹ ہو سکے۔ ان اصلاحات سے قبل ان کے بقول یہ ممکن نہیں تھا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں جیسے ایپل اور سام سانگ منتقل ہوں۔

مسعود نقی کا بھی کہنا ہے کہ ’ہمیں ٹیرف کے بجائے سیچویشن‘ یعنی حالات کو دیکھتے ہوئے فائدہ اٹھانے کے لیے کام کرنا ہو گا کیونکہ یہ ایسی برتری ہے جو طویل عرصے تک رہ سکتی ہے۔

امریکہ میں مقیم اقتصادی ماہر عزیر یونس کا کہنا ہے کہ ٹیرف کے بعد پاکستان انڈیا کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے خاص کر ٹیکسٹائل کا شعبہ جہاں پیدوار بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔

’انڈیا کے 50 فیصد ٹیرف کے مقابلے پاکستان کے لیے 19 فیصد ٹیرف کے ساتھ مسابقتی برتری موجود ہے لیکن ضروری ہے کہ جلد آئی ایم ایف انرجی اصلاحات پر بات چیت چل رہی ہے اسے مکمل کیا جائے تاکہ پیدواری لاگت کم ہو۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹیکسٹائل کے شعبے میں بہت گنجائش ہے اور موجودہ صورتحال سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔

Rice field
AFP via Getty Images

باسمتی چاول کی مارکیٹ میں پاکستان کے بھرپور موقع

باسمتی چاول بھی انڈیا اور پاکستان دونوں جگہ اُگتا ہے اور باسمتی چاول یورپ اور امریکہ میں بہت مقبول بھی ہے۔ امریکہ میں زیادہ تر انڈین باسمتی چاول فروخت ہوتے ہے اور پاکستان چاول کی برآمد امریکہ میں بہت کم ہے۔

پاکستان رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے رکن میاں صبیح الرحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کی باسمتی چاول امریکہ برآمد تین گنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ انڈیا پر ٹیرف کے بعد پاکستان کے بھرپور موقع ہے کہ باسمتی چاول انڈیا بھیجیں لیکن ابھی یہ تین ہفتے بہت اہم ہیں۔

پاکستان بیورو آف سٹیکٹیکس کے مطابق مالی سال 2025 کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر تین ارب 93 کروڑ ڈالر مالیت کے چاول برآمد کیے جن میں سے باسمتی چاول کی برامدات 83 کروڑ ڈالر مالیت رہی۔

رائس ایکسپوٹر میاں صبیح کے مطابق وہ امریکہ میں خریداروں سے رابطے میں ہیں لیکن کاروباری کمیونٹی اس وقت صدر ٹرمپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اُن کے بقول صدر ٹرمپ اب تک کافی غیر متوقع ثابت ہوئے ہیں اس لیے جب تک انڈیا پر ٹیرف کا اطلاق ہو نہیں جاتا اُس وقت تک امریکی امپورٹر نئی منڈیاں تلاش نہیں کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ بالکل پاکستان کے موقع ہے کہ وہ اپنے برامدآت بڑھائے لیکن نئے آڈرز آنے میں کچھ وقت لگے گا۔

نیویارک کی رہائشی عائزہ عرفان کے مطابق امریکہ میں مختلف ورائٹی کے چاول دستیاب ہیں لیکن بریانی کا مزہ باسمتی چاول سے ہی آتا ہے۔ اُن کے بقول اگر انڈیا سے آنا والا باسمتی چاول مہنگا ہے تو پاکستانی چاول ایک اچھا آپشن ہے کیونکہ دونوں کی خوشبو اور مزہ ایک جیسا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US