’امرناتھ کو انگریزوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کر کھیل میں دلچسپی ہوئی۔ جب شہر میں کوئی بیٹ نہ ملا تو والدہ نے ایک بڑھئی سے ایک پیسے کا لکڑی کا بیٹ بنوایا، جس پر وہ بے حد خوش ہوئے۔ جلد ہی انھوں نے محلے کے لڑکوں کو اکٹھا کر کے کھیلنا شروع کر دیا اور بیٹ اُن کا ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ پہلے بیٹنگ کرتے اور شاذ و نادر ہی آؤٹ ہوتے۔‘

’جیسے گھڑی کا پینڈولم چلتا ہے نا، ایسے کھیل رہا تھا وہ لڑکا کور شاٹس‘
انڈیا کے پہلے کرکٹ سپر سٹار، ’لالا امرناتھ‘ کے لڑکپن کی یہ یاد ہے کرکٹر رانا توکل مجید کی جسے بی بی سی کو سنا رہے ہیں ان کے بیٹے اور پاکستان کے فرسٹ کلاس کرکٹر محمد جمیل احمد رانا جن کی 89 سال کی عمر میں بھی یادداشت تیز اور کھیل کی باریکیوں پرگہری نظر ہے۔
یہ واقعہ ہے سنہ 1947 میں ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی سے پہلے کے لاہور کا جہاں کشتی اور کبڈی کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کی ابتدا میں کرکٹ کو بھی اپنایا گیا۔
یہیں ’کرکٹ ورلڈ‘ کے ایک مضمون کے مطابق موچی دروازے کے اندر کُوچہ چغتیاں کا ایک مڈل کلاس گھر، جو اُن چند گھروں میں سے ایک تھا جہاں بجلی تھی، کئی دہائیوں تک لاہور کی 13 دروازوں کی حامل فصیل بند بستی میں کرکٹ کا مرکز رہا۔ کرکٹ اس گھر میں رانا توکل مجید (1898–1981) کے ذریعے داخل ہوئی، جو ایک وکٹ کیپر بیٹسمین تھے۔
پیٹر اوبورن اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر، اے ہسٹری آف کرکٹ ان پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ امپائر شکور رانا اور ٹیسٹ کرکٹرز شفقت رانا اور عظمت رانا کے بڑوں میں شمار ہونے والے توکل مجید 1920 کی دہائی میں لاہور کے مشہور کرکٹ کلب ’کریسنٹ‘ کی جان سمجھے جاتے تھے۔
رانا بتاتے ہیں کہ میرے والد، جنھیں سب ’حاجی صاحب‘ کہہ کر پکارتے تھے، ایک ’نیک روح‘ تھے۔ سب کے لیے نرم دل اور مہربان۔ شمالی ہندوستان کے سب سے کامیاب کلبوں میں شمار ہونے والے کریسنٹ کلب کی مالی معاونت میرے تایا ابراہیم کرتے جبکہ والد صاحب نے کلب کو چلانے کے ذمے داری سنبھالی۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایک میچ سے واپسی پر میرے والد کے ساتھ کرکٹر استاد گل محمد اور ولی محمد (جو اکثر میرے والد کے ساتھ اوپن کرتے) بھی تھے۔ استاد نے میرے والد کے کہنے پر امرناتھ کو دو چار بال کروائے اور کہا، ’یہ جو شاٹ آپ نے کھیلے ہیں، پھر سے کھیل کر دکھائیں‘ اور انھوں نے دوبارہ ویسے ہی کھیلا۔۔۔ ایسے پرفیکٹ تھے وہ!
میرے والد کے پوچھنے پر امرناتھ نے بتایا کہ وہ شاہ عالمی (شاہ عالم مارکیٹ) میں گولی والی بوتل بنانے والی ایک باٹلنگ کمپنی میں کام کرتے ہیں، وہیں سوتے ہیں۔
والدین کے بارے میں پوچھا تو جواب آیا ’میرے والد شمشان گھاٹ میں مردے جلاتے ہیں۔‘
رانا کے مطابق اگلے روز ان کے والد اور ولی محمد لالا امرناتھ کے ساتھ ان کے والد سے ملنے گئے اور ان سے کہا کہ ’آپ کا بیٹا بہت اچھا کھیلتا ہے کرکٹ، اس کا دھیان رکھیں۔‘
انھوں نے پوچھا: کرکٹ، وہ کیا ہوتی ہے؟
پھر کہا: میں کیا دھیان رکھوں، میں تو مردے جلاتا ہوں۔
ہم نے کہا: تو کیا ہم انھیں لے جائیں؟
کہنے لگے: میرے اور بھی پانچ بچے ہیں، ان کو بھی لے جائیں۔
رانا یاد کرتے ہیں کہ (لاہور کے علاقے) موچی گیٹ میں ہمارے پانچ چھ گھر تھے، میرے والد کے مطابق انھوں نے ایک بیٹھک لالا امرناتھ کو دے دی۔ وہ وہیں رہنے لگے۔ ان کے لیے ایک استاد بھی رکھے گئے جو انھیں انگریزی پڑھاتے تھے۔
رانا کے مطابق وہ ان کے بھائی کی طرح ان کے ہاں پلے بڑھے۔
اوبورن نے لاہور میں پیپلز پبلشنگ ہاؤس کے نگران رؤف ملک سے بھی بات کی۔
ملک یاد کرتے ہیں کہ امرناتھ روزانہ صبح توکل کے گھر سے سفید کرکٹ کٹ پہنے پریکٹس سیشنز کے لیے نکلتے تھے، اور یہ بھی کہ وہ ان کے مکان کی پہلی منزل پر چوبارے پر رہتے تھے۔
پیٹر اوبورن نے جولائی سنہ 2012 میں رانا کو بتایا تھا کہ انھوں نے دلی میں راجندر امرناتھ سے ملاقات کی، جنھوں نے اپنے والد لالا امرناتھ کی سوانح عمری’لالا امرناتھ: لائف اینڈ ٹائمز، دی میکنگ آف اے لیجینڈ‘ لکھی، لیکن ان کے ابتدائی دنوں کی یہ بات ان کے قلم سے سامنے نہ آ سکی۔
راجندر امرناتھ نے اوبورن کو بتایا کہ وہ اپنے والد کے رانا خاندان سے تعلق کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کے والد نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔
راجندر امرناتھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’لالا امرناتھ 11 ستمبر 1911 کو کپورتھلہ کے ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نانک چند ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھے، جس پر خاندان کے بزرگ ناراض کرتے تھے کیونکہ وہ روایتی مذہبی تعلیم کے پیشے سے ہٹ کر سودی کاروبار میں لگے تھے۔ نانک چند نے زمینداری اور جائیداد میں بھی خوب سرمایہ کاری کی۔
’امرناتھ کو انگریزوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ کر کھیل میں دلچسپی ہوئی۔ جب شہر میں کوئی بیٹ نہ ملا تو والدہ نے ایک بڑھئی سے ایک پیسے کا لکڑی کا بیٹ بنوایا، جس پر وہ بے حد خوش ہوئے۔ جلد ہی انھوں نے محلے کے لڑکوں کو اکٹھا کر کے کھیلنا شروع کر دیا اور بیٹ اُن کا ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ پہلے بیٹنگ کرتے اور شاذ و نادر ہی آؤٹ ہوتے۔‘
’جلد ہی انھوں نے ایک مقامی کلب جوائن کیا اور باقاعدہ کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔ لیکن محض دس سال کی عمر میں اُن کی والدہ کی وفات ہو گئی، جو اُن کے لیے شدید صدمے کا باعث بنی۔ والد نے دوبارہ شادی نہ کی اور کام میں مصروف رہنے لگے، جس سے امرناتھ تنہا ہو گئے۔‘
’یہ دیکھ کر دادا دادی (ملکی رام اور مالوی) انھیں اپنے ساتھ لاہور لے آئے، جو ان کی زندگی کا بڑا موڑ ثابت ہوا۔ لاہور اُس دور میں تعلیم، تہذیب، باغات، قلعے، دریائے راوی اور کرکٹ کے لیے مشہور تھا۔ یہاں خاص طور پر منٹو پارک کرکٹ کے لیے مخصوص تھا۔ امرناتھ کے لیے یہ ایک خوابوں کی دنیا تھی اور وہیں سے ان کی کرکٹ کی حقیقی کہانی شروع ہوئی۔‘

اپنی خودنوشت ’فرام ڈسٹ ٹو ڈان‘ میں فضل محمود نے لکھا کہ لالا امرناتھ ’لاہور میں ریلوے ورکشاپ میں روزانہ آدھ روپے کی تنخواہ پر کام کرتے تھے۔‘
’کولونیئل لاہور: اے ہسٹری آف دی سٹی اینڈ بییانڈ‘ میں آئن ٹالبٹ اور طاہر کامران لکھتے ہیں کہ کرکٹ اُس زمانے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم نہ تھی۔
’مستقبل میں انڈین ٹیسٹ ٹیم کے کپتان بننے والے لالا امرناتھ، جنھوں نے 1930 کی دہائی میں انگلینڈ کا دورہ بھی کیا، لاہور کے منٹو پارک میں قائم کریسنٹ کلب کی طرف سے کھیلا کرتے تھے یہ کلب موچی دروازہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے متوسط طبقے کے رانا خاندان کی سرپرستی میں چلتا تھا۔
اوبورن کے مطابق لالا امرناتھ ابتدائی انڈین ٹیسٹ کرکٹ کا سب سے رومانوی کردار تھے۔
’ایک نوجوان اور جذباتی کھلاڑی کے طور پر انھوں نے سنہ 1933 میں بمبئی (ممبئی) میں انگلینڈ کے خلاف ہندوستان کے لیے اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری سکور کی لیکن سنہ 1936 کے انگلینڈ کے تباہ کن دورے کے دوران میں، انھیں کپتان مہاراج کمار آف ویزیانگرم نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر وطن واپس بھیج دیا۔ صرف دوسری عالمی جنگ کے بعد انھیں ان کا جائز مقام ملا اور وہ انڈین ٹیم کے کپتان مقرر کیے گئے۔ بعد میں ان کے دو بیٹے، مہندر امرناتھ اور سرندر امرناتھ، بھی قومی ٹیم میں شامل ہوئے اور ایک مشہور کرکٹنگ خاندان کی بنیاد رکھی۔‘
’لالا امرناتھ کے بچپن کے گھر سےموچی دروازے کے قریب ایک گلی میں واقع رانا خاندان کے گھر تک فاصلہ بمشکل 200 گز تھا اور ہم نے رش میں پانچ منٹ میں طے کیا۔ امرناتھ کا پرانا گھر (جہاں اب شاہ عالم مارکیٹ ہے) اب موجود نہیں۔ پرانے ہندو محلے کی تقریباً تمام عمارتیں تقسیم کے وقت جلا دی گئی تھیں۔‘
’تب لالا امرناتھ پونا کے تربیتی کیمپ میں تھے، جہاں سے وہ 1947– 1948 کے انڈیا کے آسٹریلیا کے دورے پر بطور کپتان جا رہے تھے۔‘
اوبورن لکھتے ہیں کہ ’لالا امرناتھ واحد نہیں تھے جنھیں رانا خاندان نے سپورٹ کیا۔‘

امیر الٰہی سنہ 1936 کے بدقسمت دورہ انگلینڈ میں امرناتھ کے ساتھ تھے اور دس سال بعد آسٹریلیا کے دورے پر بھی ان کے ساتھ گئے۔ سنہ 1952 میں، 44 سال کی عمر میں انھوں نے عبدالحفیظ کاردار کی ٹیم کے ساتھ انڈیا کے خلاف پانچ ٹیسٹ کھیلے۔
یقینی طور پر لالا امرناتھ نے رانا خاندان کے کلب، کریسنٹ کی نمائندگی کی۔ کریسنٹ لاہور کی سب سے متحرک ٹیم تھی، جو درمیانے طبقے کی نمائندہ تھی۔ اس کی حریف ’ممدوٹ‘ تھی، جو امرا کی سرپرستی میں بنی تھی اور جس میں (ماجد خان کے والد) جہانگیر خان جیسے کھلاڑی شامل تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں، کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جو بعد میں پاکستان کے صدر بنے نے ممدوٹ کی نمائندگی کی۔
کریسنٹ کلب منٹو پارک میں کھیلتا تھا، جو(بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے پاس) شہر کی فصیل کے باہر واقع ہے۔
جمیل رانا نے بتایا کہ ان کے والد کو امرناتھ پر فخر تھا، انھوں نے کئی ٹرافیاں جیتیں اور وہ سب کھلاڑیوں کے دوست تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ایک بار جب کریسنٹ اور ممدوٹ کا فائنل ہونا تھا، تو ممدوٹ کے کچھ افراد نے سازش کی کہ امرناتھ کو پیٹا جائے تاکہ وہ زخمی ہو جائیں اور نہ کھیل سکیں۔
’کریسنٹ کو اس سازش کا پتہ چل گیا اور انھوں نے حفاظتی دستہ فراہم کیا۔ کھلاڑیوں نے انھیں اپنے جسموں سے ڈھانپ لیا تاکہ وہ زخمی نہ ہوں۔‘
جمیل رانا کا بیان سابق ٹیسٹ امپائر منور حسین کی یادداشت سے مطابقت رکھتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اپنی شاندار بیٹنگ اور بولنگ کی کارکردگی کی بدولت، امرناتھ نے لاہور کی کرکٹ پر اس حد تک غلبہ حاصل کر لیا تھا کہ دوسرے کلب ان سے خائف رہتے تھے۔ ایک کرکٹ ٹورنامنٹ جسے یوسف شاہ- رام چندر داس کپ کہا جاتا تھا ہر سال دسمبر میں کھیلا جاتا تھا۔‘
’ایک بار ممدوٹ کلب اور کریسنٹ کلب فائنل میں پہنچے۔ امرناتھ کی اس صلاحیت کہ وہ میچ اکیلے ہی جتوا سکتے تھے، سے گھبرا کر مخالف ٹیم کے کچھ ارکان نے میچ سے ایک رات قبل انھیں کھیلنے سے روکنے کے لیے ان پر حملہ کیا۔ ان کے کلب کے کچھ اراکین نے انھیں بچایا اور اگلے دن کھیلنے کے لیے تیار کیا۔‘
’اگلی صبح، امرناتھ نے محمد نثار، جو اس وقت کے سب سے تیز گیند باز تھے، کے خلاف شاندار 50 رنز بنائے اور کریسنٹ کلب کو فائنل جتوایا۔‘
راجندر امرناتھ کی کتاب میں اس واقعے کا ایک مختلف ورژن شامل ہے۔
ان کے مطابق ان کے والد نے کہا کہ ’مجھے سب سے بہتر کھیلنا پڑتا کیونکہ میں اکثریتی مسلم کلب میں واحد ہندو تھا۔‘
سنہ 1946 میں انڈین کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تھاراجندر لکھتے ہیں کہ ایک بار ہندو اور مسلم ٹیموں کے درمیان میچ سے ایک دن پہلے انارکلی بازار میں امرناتھ پر حملہ ہوا۔ چونکہ وہ ہندو ٹیم کے مرکزی کھلاڑی تھے ان کے دوست ان پر گر پڑے، اپنے جسموں سے انھیں ڈھانپ لیا، جب تک کہ مزید ہندو حامیوں نے آ کر بچایا۔‘
ابورن لکھتے ہیں کہ ’کریسنٹ امرناتھ جیسے زبردست کھلاڑی کو زیادہ دیر نہ روک سکا۔‘
’آسٹریلوی کوچ فرینک ٹیرنٹ نے انھیں کھیلتے دیکھا اور پٹیالہ کے مہاراجا کو ان کی سفارش کی۔ اس طرح امرناتھ کرکٹ کی بہتر تنخواہ والی دنیا میں داخل ہو گئے۔‘
وسڈن کرکٹرز المانک کے مطابق لالا امرناتھ ایک پنجابی ہونے کے ناتے ان اولین کھلاڑیوں میں سے تھے جنھوں نے نوابی نظام اور برطانوی اثر و رسوخ کے خلاف آواز بلند کی جس کا اُنھیں ذاتی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
’امرناتھ نے لاہور کے ایک غریب گھرانے سے کرکٹ کا سفر شروع کیا۔ سنہ 1933- 1934 میں ایم سی سی کے خلاف 109 رنز بنا کر نمایاں ہوئے اور چند ہفتے بعد ہندوستان کے پہلے ہوم ٹیسٹ میں سنچری بنا کر ہیرو بنے۔ انھوں نے انگلینڈ کے بولرز کو جارحانہ انداز میں کھیلا، اور 117 منٹ میں سنچری مکمل کی۔‘
مِہرِ بوس کے مطابق ’تماشائیوں نے اُن پر ہار ڈالے، خواتین نے زیورات پیش کیے اور مہاراجاؤں نے نقد انعام دیے۔‘
’سنہ 1936 کے دورۂ انگلینڈ میں ’وزی‘ (مہاراج کمار آف ویزیناگرم) کی قیادت میں جب انھیں بیٹنگ آرڈر میں نیچے رکھا گیا تو انھوں نے برملا احتجاج کیا، گالیاں دیں اور ٹیم سے نکال دیے گئے۔ اس کے بعد 12 سال تک وہ ٹیسٹ نہ کھیل سکے۔‘
’پھر بھی وہ کرکٹ میں سرگرم رہے ۔ سنہ 1946 کے انگلینڈ کے دورے پر واپسی ہوئی، جہاں انھوں نے لارڈز میں ہٹن، واش بروک، کامپٹن اور ہیمنڈ کو آؤٹ کر کے انگلش بیٹنگ کو تہس نہس کیا۔ وزڈن نے ان کے بولنگ ایکشن کو ’غیر معمولی مگر مؤثر‘ قرار دیا۔
سنہ 1947 میں وجے مرچنٹ کے انکار کے بعد وہ آسٹریلیا کے خلاف انڈیا کے کپتان مقرر ہوئے، مگر بریڈمین کی ٹیم سے انڈیا بُری طرح ہارا۔
سنہ 1948- 1949 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف بمبئی ٹیسٹ میں انڈیا فتح کے قریب تھا، مگر داخلی سیاست نے ایک بار پھر ان کا راستہ روکا۔ بورڈ کے طاقتور سیکریٹری اینتھونی ڈی میلو کے ساتھ اختلافات کے بعد انھیں ’بدتمیزی اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی‘ پر معطل کر دیا گیا۔
سنہ 1951- 1952 میں وہ دوبارہ ٹیم میں شامل ہوئے اور مدراس میں انڈیا کی پہلی ٹیسٹ فتح کا حصہ بنے۔ سنہ 1952 میں پاکستان کے خلاف سیریز میں انھیں دوبارہ کپتان بنایا گیا حیرت انگیز طور پر وِزی کی سفارش پر۔ انڈیا نے یہ سیریز جیتی، مگر امرناتھ کے ذاتی کارنامے معمولی رہے اور جلد ہی وہ کپتانی چھوڑ گئے۔
’کیمبرج کمپینین ٹو کرکٹ‘ کے مصنف مِہِر بوس لکھتے ہیں کہ ابتدائی انڈیا-پاکستان کرکٹ تعلقات کی تشکیل دو ایسی شخصیات نے کی جو برصغیر سے سنہ 1947 میں برطانوی انخلا سے پہلے کے دور سے تعلق رکھتی تھیں۔ دونوں نے ہندوستان کے لیے کرکٹ کھیلی تھی اور دونوں کا تعلق لاہور سے تھا۔‘
اوبورن کے مطابق ’سنہ 1952میں جب پاکستان اور انڈیا نے پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ میں ایک دوسرے کا سامنا کیا تو دونوں کپتان لالا امرناتھ اور عبدالحفیظ کاردار ایک دوسرے کو بخوبی جانتے تھے۔‘
’وہ ایک ہی شہر میں پلے بڑھے، انہی گلیوں میں کھیلے تھے۔ وہ ایک جیسی زبان بولتے، ایک جیسا کھانا کھاتے اور ایک جیسے کپڑے پہنتے۔‘
علی خان، لندن سکول آف اکنامکس، نے اپنی تحقیق ’کرکٹ کے 75 سال پاکستان اور انڈیا‘ میں بتایا ہے کہ امرناتھ نے تو یہاں تک کیا کہ جب پاکستانی کرکٹرز امرتسر کے راستے دلی ٹرین سٹیشن پر پہنچے تو وہ خود ان کا استقبال کرنے گئے۔
المانک کے مطابق بعد میں وہ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بنے اور 1959- 1960 میں جسو پٹیل کو کانپور ٹیسٹ میں شامل کرنے کے ان کے فیصلے نے انڈیا کو آسٹریلیا کے خلاف تاریخی فتح دلائی۔
پھر پاکستان۔انڈیا کرکٹ میں جنگوں کے باعث ایک طویل وقفہ آیا۔

ایم جے اکبر ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1978کی ’خیرسگالی سیریز‘ میں، جب 17 سال کے وقفے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ بحال ہوئی، تو مہمان نوازی، گرمجوشی اور ماضی کی یادیں مثالی تھیں۔
’لاہور کے عظیم فرزند لالا امرناتھ جب کمنٹیٹر کے طورپر پاکستان پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے ایک شاندار گاڑی ایئرپورٹ بھیجی گئی۔ انڈین ٹیم کے منیجر، مہاراجا آف بڑودا فتح سنگھ راؤ گایکواڑ یہ سمجھے کہ یہ لموزین ان کے لیے ہے، لیکن نہایت شائستگی سے ان سے کہا گیا کہ وہ ٹیم کی بس میں سوار ہوں۔‘
وہ خصوصی طور پر منٹو پارک گئے اور کریسنٹ کلب کے کھلاڑیوں کے ساتھ وقت گزارا وہی کلب جس کی نمائندگی وہ تقسیم سے پہلے کیا کرتے تھے۔
المانک میں لکھا ہے کہ بڑھاپے میں وہ کرکٹ کہانیوں کے سب سے محبوب راوی بن گئے، مگر اپنی صاف گوئی کبھی نہ چھوڑی۔
ان کے ساتھی مشتاق علی نے کہا کہ ’وہ ایک جذباتی انسان تھے جلد محبت، جلد غصہ۔‘
وہ 5 اگست سنہ 2000 کو نئی دہلی انڈیا میں وفات پا گئے۔ اُس وقت ان کی عمر 88 برس تھی۔
ای ایس پی این کرک انفو کے کے این پربھو نے لکھا کہ ’وہ لڑکا جو لاہور کی سڑکوں سے اٹھا اور شہزادوں کے ساتھ چلنے لگا، اس کے باوجود وہ ہمیشہ ایک سادہ انسان ہی رہا اور اپنی جڑوں کو نہیں بھولا۔‘
’واقعی، لالا امرناتھ انڈین کرکٹ کا سب سے عظیم ’عامی‘ تھا۔‘
جمیل رانا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’امرناتھ نے ان کے خاندان کی مہربانی کبھی نہیں بھلائی۔‘
’جب بھی وہ پاکستان آتے، ہمارے گھر ضرور آتے۔ لالا امرناتھ سنہ 1978- 1979 کے انڈیا کے دورۂ پاکستان میں، فیلیٹیز (ہوٹل) میں چیک ان کرنے کے بعد اپنے دو بیٹوں مہندر اور سرندر کو بھی ساتھ لائے۔‘
’انھوں نے تین سٹیپس کے بعد گھر کی دہلیز پر جھک کر ماتھا ٹیکا۔ اپنے بیٹوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ ایک بیٹے نے فرش سے مٹی اٹھا کر ماتھے پر لگائی اور پھر رومال نکالا تاکہ صاف کرے۔ امرناتھ نے کہا ’اس رومال کو رکھ دو اور اس مٹی کو اپنے چہرے پر مل لو۔ اگر یہ گھر نہ ہوتا تو تم دونوں آج بھی گلیوں میں کھیل رہے ہوتے۔‘
پیٹر اوبورن لکھتے ہیں کہ ’انڈیا میں لالا امرناتھ کو ایک ہندو کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مسلم تعصب سے نکل کر ایک عظیم انڈین کرکٹر بننے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن پاکستان میں وہ درخشاں لاہوری کرکٹ روایت کا ایک ثمر سمجھے جاتے ہیں جو کبھی پروان نہ چڑھتا اگر مسلمانوں کی دوستی اور سرپرستی نہ ہوتی۔‘