قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی انسداد دہشتگردی قانون میں ترمیمی بل 2025 کثرتِ رائے سے منظور کرلیا۔ تاہم اپوزیشن نے بل کو کمیٹی کو بھیجے بغیر منظور کرنے پر شدید احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال ناصر کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے انسدادِ دہشتگردی ترمیمی بل پیش کیا۔ ایوان بالا سے بل کی شق وار منظوری دی گئی جبکہ اپوزیشن کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی ترامیم، جن میں بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوانے کی تجویز بھی شامل تھی کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ترمیمی بل کے ذریعے ایس ایچ او کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی کو بھی بلاجواز 3 ماہ تک قید رکھ سکے اور گرفتار شخص کو عدالت تک رسائی سے بھی روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون بنیادی انسانی حقوق اور آئین کے منافی ہے اور ایسے قوانین انگریز دور میں 200 سال قبل متعارف کرائے گئے تھے۔ اپوزیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ بل کو پارلیمانی بحث اور کمیٹی میں بھیجے بغیر منظور کرانا غیر جمہوری اقدام ہے۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترامیم آئینِ پاکستان 1973 کی روح کے مطابق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے اور پارلیمان نے قانون سازی کے ذریعے اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہ قانون پہلی بار سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد لایا گیا تھا اور یہ پہلے بھی عدالتی جانچ پر پورا اترا ہے۔
بل کے تحت مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کو اختیار ہوگا کہ وہ ملکی سلامتی، دفاع، امن و امان، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم میں ملوث کسی بھی شخص کو 3 ماہ تک حفاظتی حراست میں رکھ سکیں۔
زیر حراست شخص کے خلاف تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کرے گی جس میں ایس پی رینک کا پولیس افسر، خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔
بل کے مطابق ٹھوس شواہد کے بغیر کسی کو حراست میں نہیں لیا جا سکے گا اور 3 ماہ سے زائد حراست کے لیے معقول جواز پیش کرنا لازمی ہوگا۔یہ قانون آئندہ 3 سال تک نافذ العمل رہے گا۔