ٹرمپ انتظامیہ، جو ان کی جانب سے ختم کروائی جانے والی جنگوں کی فہرست پیش کر چکی ہے، کے مطابق ’پیس میکر ان چیف‘ (یعنی امن قائم کرنے والے صدر) کو امن کا نوبل انعام اب تک مل جانا چاہیے تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ختم کروانے کی کوشش میں مصروف ہیں، وہ اکثر اپنے دوسرے صدارتی دور کے دوران امن مذاکرات میں کامیابیوں کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
18 اگست کو وائٹ ہاوس میں بات چیت کے دوران انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں چھ جنگیں ختم کروا چکا ہوں۔۔۔ اور یہ سب معاہدے میں نے جنگ بندی کا لفظ استعمال کیے بغیر کروائے۔‘
اگلے ہی دن یہ تعداد سات جنگوں پر پہنچ چکی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ، جو ان کی جانب سے ختم کروائی جانے والی جنگوں کی فہرست پیش کر چکی ہے، کے مطابق ’پیس میکر ان چیف‘ (یعنی امن قائم کرنے والے صدر) کو امن کا نوبل انعام اب تک مل جانا چاہیے تھا۔
ان میں سے چند جنگیں صرف دنوں پر محیط تھیں اگرچہ ان کی وجہ بننے والے تنازعات بہت پرانے تھے اور یہ بھی واضح نہیں کہ یہ امن معاہدے کتنے پائیدار ثابت ہوں گے۔
تاہم ٹرمپ نے متعدد بار ’جنگ بندی‘ کے لفظ کا استعمال کیا ہے۔ بی بی سی ویریفائی نے ان تنازعات کا جائزہ لیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ صدر ٹرمپ کو انھیں ختم کروانے کا کتنا کریڈٹ ملنا چاہیے۔
پاکستان اور انڈیا
دو جوہری طاقت کے حامل ہمسائیہ ممالک، جن کے درمیان دہائیوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے، میں مئی کے مہینے میں اس وقت جنگ چھڑ گئی تھی جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے ایک حملے کے بعد دہلی نے اسلام آباد کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
تاہم چار دن تک جاری رہنے والے حملوں کے بعد ٹرمپ نے اچانک سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ’دونوں ممالک مکمل اور فوری جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’یہ امریکی ثالثی میں ہونے والی طویل بات چیت کا نتیجہ ہے۔‘
پاکستان نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی فیصلہ کن سفارتی مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں نوبل امن انعام دینے کی سفارش کر دی۔ لیکن انڈیا نے امریکی کردار کو اہمیت نہیں دی اور ملک کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے کہا کہ ’عسکری کارروائی روکنے کے لیے بات چیت براہ راست پاکستان اور انڈیا کی افواج کے درمیان موجود چینلز کے ذریعے ہوئی۔‘
تاہم ٹرمپ نے متعدد بار انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے کا دعویٰ کیا ہے۔
اسرائیل اور ایران
اس تنازع کے دوران خود امریکہ نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ کیا12 روزہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب تیرہ جون کو اسرائیل نے ایران میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھیں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے حملوں سے قبل آگاہ کر دیا تھا۔
اس تنازع کے دوران خود امریکہ نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ کیا جسے تنازع کو جلد انجام تک پہنچانے میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
23 جون جو ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’باضابطہ طور پر ایران جنگ بندی کا آغاز کرے گا اور 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی ایسا ہی کرے گا۔ 24 گھنٹے بعد بارہ دن کی جنگ باضابطہ طور پر ختم ہونے پر دنیا سیلوٹ کرے گی۔‘
کشیدگی ختم ہونے پر ایرانی رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے جنگ بندی کا ذکر کیے بغیر کہا کہ ان کے ملک نے ’فیصلہ کن فتح‘ حاصل کی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے۔
بروکنگ انسٹیٹیوشن تھنک ٹینک کے مائیکل او ہینلن کا موقف ہے کہ ’مستقل امن کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور اب تک یہ بھی طے نہیں ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی مانیٹرنگ کیسے ہو گی۔‘
’چنانچہ اسے جنگ کا خاتمہ نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کو کچھ کریڈٹ ضرور دوں گا کہ اسرائیل کی جانب سے امریکی مدد سے ایران کو کمزور کرنا سٹریٹیجک اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے۔‘
جون میں روانڈا اور کونگو نے واشنگٹن میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیےروانڈا اور کونگو
رواں سال کے آغاز میں ان دونوں ممالک کے درمیان اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا جب ایک باغی گروہ نے مشرقی کونگو میں معدنیات سے بھرپور علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
جون میں روانڈا اور کونگو نے واشنگٹن میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد دہائیوں پرانے تنازع کو ختم کرنا تھا۔ ٹرمپ نے اس وقت کہا تھا کہ امریکہ ان ممالک سے زیادہ تجارت کرے گا۔
تاہم دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے جبکہ ایم 23 باغی گروپ، جسے امریکہ اور برطانیہ روانڈا سے منسلک قرار دیتے ہیں، نے دھمکی دی ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہو گا۔
مارگریٹ مکملن آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’کونگو اور روانڈا میں لڑائی جاری ہے تو جنگ بندی برقرار نہیں رہی۔‘
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا
26 جولائی کا ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’میں تھائی لینڈ کے نگران وزیر اعظم سے کہتا ہوں کہ جنگ بندی کریں اور جنگ کو ختم کریں۔‘
دو دن بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک ہفتے جاری رہنے والی لڑائی کے بعد فوری اور غیر مشروط جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔
ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر دونوں ممالک نے لڑائی نہیں روکی تو امریکی محصولات میں کمی پر جاری بات چیت ختم کر دی جائے گی۔ دونوں ممالک امریکہ کو برآمدات کرتے ہیں۔
سات اگست کو تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے معاہدہ بھی ہوا۔
آرمینیا اور آذربائیجان
دونوں ملکوں کے سربراہان نے آٹھ اگست کو وائٹ ہاؤس میں کہا کہ صدر ٹرمپ کو امن معاہدہ کروانے کی کوششوں کی وجہ سے امن کا نوبل انعام ملنا چاہیےدونوں ملکوں کے سربراہان نے آٹھ اگست کو وائٹ ہاؤس میں کہا کہ صدر ٹرمپ کو امن معاہدہ کروانے کی کوششوں کی وجہ سے امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے۔
او ہینلن کا کہنا ہے کہ ’اس معاملے میں ان کو کریڈٹ ملنا چاہیے۔ اوول آفس میں دستخط کرنے کی تقریب نے دونوں فریقین کو امن قائم کرنے پر مجبور کیا ہو گا۔‘
مارچ میں دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ناگورنو قرہباخ پر جاری 40 سالہ تنازع ختم کرنے کو تیار ہیں۔
اس تنازع میں آخری بار ستمبر 2023 میں لڑائی چحڑی تھی جب آذربائیجان نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جہاں بہت سے آرمینیائی بھی رہتے ہیں۔
مصر اور ایتھوپیا
یہاں کوئی باقاعدہ جنگ تو نہیں تھی جسے ٹرمپ رکوا سکتے لیکن نیل پر ایک ڈیم کے معاملے پر کشیدگی ضرور تھی۔
ایتھوپیا نے رواں سال موسم گرما کے دوران یہ ڈیم مکمل کیا تھا تاہم مصر کا موقف تھا کہ اس کو ملنے والا پانی کم ہو سکتا ہے۔
12 سالہ تنازع کے بعد مصری وزیر خارجہ نے 29 جون کو اعلان کیا کہ ایتھوپیا سے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’اگر میں مصر ہوتا تو میں چاہتا کہ نیل میں پانی رہے۔‘ انھوں نے وعدہ کیا کہ امریکہ اس معاملے کر ’جلدی حل کروائے گا۔‘
مصر نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا لیکن ایتھوپیا کے حکام کے مطابق اس کی وجہ سے تنازع بڑھ سکتا ہے۔ اب تک دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔
سربیا اور کوسوو
27 جون کو ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان ’ممکنہ جھڑپوں‘ کو روک دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’سربیا اور کوسوو کے بیچ بڑی جنگ ہونے والی تھی۔ میں نے کہا اگر ایسا ہوا تو امریکہ سے کوئی تجارت نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا پھر شاید ہم ایسا نہ کریں۔‘
1990 کی دہائی سے ہی دونوں ممالک کے درمیان تنازع موجود ہے اور حالیہ برسوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم پروفیسر مکملین کا کہنا ہے کہ ’سربیا اور کوسوو ایک دوسرے سے جنگ نہیں کر رہے تو پھر ختم کیسے ہو گی۔‘
پیٹر موائی، شروتی مینن اور ایو ویسبٹر کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ